عنوان : حقیقت دجال اور فتنہ قادیانیت
تحریر: عبیداللہ لطیف فیصل آباد
Email : ubaidullahlatif@gmail.com
Whatsapp No: 00923046265209, Cell No :00923136265209
محترم قارئین! قبل اس کے کہ آپ پر حقیقت دجال اور دجال کے بارے میں قادیانیت کا نظر یہ بیان کروں پہلے چند ایک حوالہ جات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلام کے نام پر ہی اسلام کے متضاد ایک نیا مذہب متعارف کروایا ہے؟ اس ضمن میں سب سے پہلے لیلتہ القدر جو کہ ایک رات ہے جس کے بارے میں نبی کریم علیه السلام نے فرمایا کہ:
((تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ))
(صحیح بخاری: 2017)
’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
لیکن مرزا غلام احمد قادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ:
’’وہ خدا تعالیٰ سورۃ القدر میں بیان فرماتا ہے بلکہ مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ اس کا کلام اس کا نبی لیلتہ القدر میں آسمان سے اتارا گیا ہے۔ اور یہ ایک مصلح اور مجدد جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلۃ القدر میں ہی اترتا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ لیلتہ القدر کیا چیز ہے۔ لیلتہ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے اس سے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کرے اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلتہ القدر رکھا گیا ہے۔ مگر در حقیقت یہ رات نہیں ہے۔ یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے۔‘‘
(فتح اسلام، صفحہ: 54 مندرجہ روحانی خزائن جلد: 3، صفحہ: 32)
محترم قارئین ! دین اسلام میں انسان جہاں نماز پڑھنے پر اجرو ثواب کا مستحق ہوتا ہے وہیں پر نماز نہ پڑھنے پر عذاب کا حق دار ٹھہرتا ہے لیکن اس کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک نماز پڑھنی چاہیے لیکن اس کا اجر و ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر کوئی عذاب ہو گااسی ضمن سیرت المہدی کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں جس میں مرزا بشیر احمد ابن مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’مائی بھاگو اور مائی بھانو صاحبہ قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیاں بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مائی بھاگو اور بھانو ایک دن مسیح موعود کو پنکھا ہلارہی تھیں کہ مائی بھانو نے دریافت کیا کہ حضور نماز پڑھنے کا ثواب ہوگا ؟ تو حضور نے فرمایا کہ ’’نہ ثواب ہو گا نہ عذاب ہوگا ۔ پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑنی چاہئے ۔‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 195,196روایت نمبر 1302)
محترم قارئین! یہ تو تھا مرزا غلام احمد قادیانی کا لیلة القدر اور نماز کے اجرو ثواب کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس نظریہ۔ قارئین کرام ! اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے عیسیٰ علیه السلام کے قرآن مجید میں مذکور تمام تر معجزات کا نہ صرف انکار کیا ہے بلکہ ان معجزات کو بھی ماننا اور ان پر ایمان لانا مشرکانہ عقیدہ قرار دیا ہے۔ اور دجال اور یاجوج ماجوج اور دجال کے گدھے کے بارے میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی مکمل طور پر اسلام کے برعکس عقیدہ رکھتا ہے۔
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد انگریز اور روس ہیں۔ اور دجال سے کبھی دنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھیں نہیں رکھتے، تو کبھی علمائے اسلام تو کبھی عیسائی پادری مراد ہیں۔ اسی طرح خرد دجال سے مراد ریل گاڑی ہے۔ الغرض مرزا غلام احمد قادیانی نے دین اسلام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اور اسلام کے نام پر ہی اسلام کے متوازی ایک نیا دین متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔
محترم قارئین! عیسیٰ علیه السلام کے تمام تر معجزات سے انکار اور معجزات کا من و عن ایمان لانے والے عقائد کو مشرکانہ قرار دینے کی تحریریں پیش کرنے سے گریز کر رہا ہوں اگر کسی کو بھی اگر کوئی حوالہ درکار ہو تو میرے وٹس اپ نمبر اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کر سکتا ہے جو مضمون کے شروع میں دیا گیا ہے۔ اب آتے ہیں دجال کی حقیقت کی طرف فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے کہ:
((عَنْ عَامِرُ بْنُ شَرَاحِیلَ الشَّعْبِیُّ شَعْبُ ہَمْدَانَ اَنَّہٗ سَاَلَ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ اُخْتَ الضَّحَّاکِ بْنِ قَیْسٍ وَکَانَتْ مِنَ الْمُہَاجِرَاتِ الْاُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِینِی حَدِیثًا سَمِعْتِیہٖ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ لَا تُسْنِدِیہٖ اِلَی اَحَدٍ غَیْرِہٖ فَقَالَتْ لَنْ شِءْتَ لَاَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَہَا اَجَلْ حَدِّثِینِی فَقَالَتْ نَکَحْتُ ابْنَ الْمُغِیرَۃِ وَہُوَ مِنْ خِیَارِ شَبَابِ قُرَیْشٍ یَوْمَءِذٍ فَاُصِیبَ فِیْ اَوَّلِ الْجِہَادِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَلَمَّا تَاَیَّمْتُ خَطَبَنِی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فِیْ نَفَرٍ مِنْ اَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہﷺ وَخَطَبَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَلَی مَوْلَاہٗ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ وَکُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ مَنْ اَحَبَّنِی فَلْیُحِبَّ اُسَامَۃَ فَلَمَّا کَلَّمَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ قُلْتُ اَمْرِی بِیَدِکَ فَاَنْکِحْنِی مَنْ شِءْتَ فَقَالَ انْتَقِلِی اِلَی اُمِّ شَرِیکٍ وَاُمُّ شَرِیکٍ امْرَاَۃٌ غَنِیَّۃٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ عَظِیمَۃُ النَّفَقَۃِ فِیْ سَبِیلِ اللّٰہِ یَنْزِلُ عَلَیْہَا الضِّیفَانُ فَقُلْتُ سَاَفْعَلُ فَقَالَ ((لَا تَفْعَلِی اِنَّ اُمَّ شَرِیکٍ امْرَاَۃٌ کَثِیرَۃُ الضِّیفَانِ فَاِنِّی اَکْرَہٗ اَنْ یَسْقُطَ عَنْکِ خِمَارُکِ اَوْ یَنْکَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَیْکِ فَیَرٰی الْقَوْمُ مِنْکِ بَعْضَ مَا تَکْرَہِینَ وَلٰکِنِ انْتَقِلِی اِلَی ابْنِ عَمِّکِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ اُمِّ مَکْتُومٍ)) وَہُوَ رَجُلٌ مِّنْ بَنِی فِہْرٍ فِہْرِ قُرَیْشٍ وَہُوَ مِنَ الْبَطْنِ الَّذِی ہِیَ مِنْہٗ فَانْتَقَلْتُ اِلَیْہِ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِی سَمِعْتُ نِدَآءَ الْمُنَادِی مُنَادِی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ یُنَادِی الصَّلَاۃَ جَامِعَۃً فَخَرَجْتُ اِلَی الْمَسْجِدِ فَصَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَکُنْتُ فِیْ صَفِّ النِّسَآءِ الَّتِی تَلِی ظُہُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضٰی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ صَلٰوتَہٗ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَہُوَ یَضْحَکُ فَقَالَ ((لِیَلْزَمْ کُلُّ اِنْسَانٍ مُصَلَّاہٗ)) ثُمَّ قَالَ ((اَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُکُمْ)) قَالُوا اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ اَعْلَمُ قَالَ اِنِّی وَاللّٰہِ مَا جَمَعْتُکُمْ لِرَغْبَۃٍ وَلَا لِرَہْبَۃٍ وَلٰکِنْ جَمَعْتُکُمْ لِاَنَّ تَمِیمًا الدَّارِیَّ کَانَ رَجُلًا نَصْرَانِیًّا فَجَآءَ فَبَایَعَ وَاَسْلَمَ وَحَدَّثَنِی حَدِیثًا وَافَقَ الَّذِی کُنْتُ اُحَدِّثُکُمْ عَنْ مَسِیحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِی اَنَّہٗ رَکِبَ فِیْ سَفِینَۃٍ بَحْرِیَّۃٍ مَعَ ثَلَاثِینَ رَجُلًا مِّنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِہٖمْ الْمَوْجُ شَہْرًا فِیْ الْبَحْرِ ثُمَّ اَرْفَءُوا اِلَی جَزِیرَۃٍ فِیْ الْبَحْرِ حَتّٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِیْ اَقْرُبْ السَّفِینَۃِ فَدَخَلُوا الْجَزِیرَۃَ فَلَقِیَتْہُمْ دَابَّۃٌ اَہْلَبُ کَثِیرُ الشَّعَرِ لَا یَدْرُونَ مَا قُبُلُہٗ مِنْ دُبُرِہٖ مِنْ کَثْرَۃِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَیْلَکِ مَا اَنْتِ فَقَالَتْ اَنَا الْجَسَّاسَۃُ قَالُوا وَمَا الْجَسَّاسَۃُ قَالَتْ اَیُّہَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا اِلَی ہٰذَا الرَّجُلِ فِیْ الدَّیْرِ فَاِنَّہٗ اِلَی خَبَرِکُمْ بِالْاَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْہَا اَنْ تَکُونَشَیْطَانَۃً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتّٰی دَخَلْنَا الدَّیْرَ فَاِذَا فِیہِ اَعْظَمُ اِنْسَانٍ رَاَیْنَاہٗ قَطُّ خَلْقًا وَاَشَدُّہٗ وِثَاقًا مَجْمُوعَۃٌ یَدَاہٗ اِلَی عُنُقِہٖ مَا بَیْنَ رُکْبَتَیْہٖ اِلَی کَعْبَیْہٖ بِالْحَدِیدِ قُلْنَا وَیْلَکَ مَا اَنْتَ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَی خَبَرِی فَاَخْبِرُونِی مَا اَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ اُنَاسٌ مِّنَ الْعَرَبِ رَکِبْنَا فِیْ سَفِینَۃٍ بَحْرِیَّۃٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِینَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَہْرًا ثُمَّ اَرْفَاْنَا اِلَی جَزِیرَتِکَ ہَذِہٖ فَجَلَسْنَا فِیْ اَقْرُبِہَا فَدَخَلْنَا الْجَزِیرَۃَ فَلَقِیَتْنَا دَابَّۃٌ اَہْلَبُ کَثِیرُ الشَّعَرِ لَا یُدْرٰی مَا قُبُلُہٗ مِنْ دُبُرِہٖ مِنْ کَثْرَۃِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَیْلَکِ مَا اَنْتِ فَقَالَتْ اَنَا الْجَسَّاسَۃُ قُلْنَا وَمَا الْجَسَّاسَۃُ قَالَتْ اعْمِدُوا اِلَی ہٰذَا الرَّجُلِ فِیْ الدَّیْرِ فَاِنَّہٗ اِلَی خَبَرِکُمْ بِالْاَشْوَاقِ فَاَقْبَلْنَا اِلَیْکَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْہَا وَلَمْ نَاْمَنْ اَنْ تَکُونَ شَیْطَانَۃً فَقَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ نَخْلِ بَیْسَانَ قُلْنَا عَنْ اَیِّ شَاْنِہَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ اَسْاَلُکُمْ عَنْ نَخْلِہَا ہَلْ یُثْمِرُ قُلْنَا لَہٗ نَعَمْ قَالَ اَمَا اِنَّہٗ یُوشِکُ اَنْ لَا تُثْمِرَ قَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ بُحَیْرَۃِ الطَّبَرِیَّۃِ قُلْنَا عَنْ اَیِّ شَاْنِہَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ ہَلْ فِیہَا مَآءٌ قَالُوا ہِیَ کَثِیرَۃُ الْمَآءِ قَالَ اَمَا اِنَّ مَآءَہَا یُوشِکُ اَنْ یَّذْہَبَ قَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ عَیْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ اَیِّ شَاْنِہَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ ہَلْ فِیْ الْعَیْنِ مَآءٌ وَہَلْ یَزْرَعُ اَہْلُہَا بِمَآءِ الْعَیْنِ قُلْنَا لَہٗ نَعَمْ ہِیَ کَثِیرَۃُ الْمَآءِ وَاَہْلُہَا یَزْرَعُونَ مِنْ مَآءِہَا قَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ نَبِیِّ الْاُمِّیِّینَ مَا فَعَلَ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَکَّۃَ وَنَزَلَ یَثْرِبَ قَالَ اَقَاتَلَہٗ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ کَیْفَ صَنَعَ بِہٖمْ فَاَخْبَرْنَاہٗ اَنَّہٗ قَدْ ظَہَرَ عَلَی مَنْ یَلِیہٖ مِنَ الْعَرَبِ وَاَطَاعُوہٗ قَالَ لَہُمْ قَدْ کَانَ ذٰلِکَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ اَمَا اِنَّ ذَاکَ خَیْرٌ لَہُمْ اَنْ یُّطِیعُوہٗ وَاِنِّی مُخْبِرُکُمْ عَنِّی اِنِّی اَنَا الْمَسِیحُ وَاِنِّی اُوشِکُ اَنْ یُّؤْذَنَ لِی فِیْ الْخُرُوجِ فَاَخْرُجَ فَاَسِیرَ فِیْ الْاَرْضِ فَلَا اَدَعَ قَرْیَۃً اِلَّا ہَبَطْتُہَا فِیْ اَرْبَعِینَ لَیْلَۃً غَیْرَ مَکَّۃَ وَطَیْبَۃَ فَہُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَیَّ کِلْتَاہُمَا کُلَّمَا اَرَدْتُ اَنْ اَدْخُلَ وَاحِدَۃً اَوْ وَاحِدًا مِنْہُمَا اسْتَقْبَلَنِی مَلَکٌ بِیَدِہٖ السَّیْفُ صَلْتًا یَصُدُّنِی عَنْہَا وَاِنَّ عَلَی کُلِّ نَقْبٍ مِّنْہَا مَلَآءِکَۃً یَحْرُسُونَہَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہﷺ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِہٖ فِیْ الْمِنْبَرِ ہَذِہٖ طَیْبَۃُ ہَذِہٖ طَیْبَۃُ ((ہَذِہٖ طَیْبَۃُ یَعْنِی الْمَدِینَۃَ اَلَا ہَلْ کُنْتُ حَدَّثْتُکُمْ ذٰلِکَ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَاِنَّہٗ اَعْجَبَنِی حَدِیثُ تَمِیمٍ اَنَّہٗ وَافَقَ الَّذِی کُنْتُ اُحَدِّثُکُمْ عَنْہٗ وَعَنِ الْمَدِینَۃِ وَمَکَّۃَ اَلَا اِنَّہٗ فِیْ بَحْرِ الشَّاْمِ اَوْ بَحْرِ الْیَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ)) وَاَوْمَاَ بِیَدِہٖ اِلَی الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ))
! صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، رقم : ۷۳۸۶. [طبع: دارالسلام]
’’ابن بریدہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے عامر بن شراحیل شعبی نے، جن کا تعلق ہمدان سے تھا، حدیث بیان کی، انہوں نے ضحاک بن قیسؓ کی ہمشیرہ سیدہ فاطمہ بنت قیسr سے سوال کیا، وہ اولین ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں، کہ آپ مجھے رسول اللہﷺ سے (بلاواسطہ) سنی ہو، آپﷺ کے علاوہ کسی اور کی طرف اسے منسوب نہ کریں۔ انہوں نے کہا: اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں ایسا ہی کروں گی۔ انہوں نے ان (حضرت فاطمہ بنت قیسؓ) سے کہا: بہت بہتر، سنائیے۔ انہوں نے کہا: میرا نکاح (عبد الحمید بن حفص) ابن مغیرہ سے ہوا۔ وہ اس وقت قریش کے بہترین نوجوانوں میں سے تھے۔ وہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ (اپنے) پہلے جہاد میں زخمی بھی ہوئے تھے۔ جب میری شاد ی ختم ہو گئی (طلاق ہو گئی) تو رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے کئی لوگوں کے ساتھ ساتھ عبد الرحمان بن عوفؓ نے بھی مجھے نکاح کا پیغام بجھوایا۔ رسول اللہﷺ نے مجھے اپنے آزاد کردہ غلام (کے بیٹے) اسامہ بن زیدؓ کے لیے نکاح کا پیغام دیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے وہ اسامہ سے بھی محبت کرے۔‘‘ جب رسول اللہﷺ نے میرے ساتھ گفتگو فرمائی تو میں نے آپ سے کہہ دیا: میرا معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ام شریک کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔‘‘ ام شریکؓ انصار میں سے ایک مال دار خاتون تھیں، ان کے ہاں مہمان آتے رہتے تھے۔ میں نے کہا: میں ایسا ہی کروں گی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے (دوبارہ یہ) فرمایا: ’’تم ایسا نہ کرو۔ ام شریک ایسی خاتون ہیں جن کے ہاں زیادہ مہمان آتے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تمہاری اوڑھنتی گر جائے یا تمہاری پنڈلی سے کپڑا ہٹ جائے تو لوگوں میں سے کسی کی نظر (ایسی جگہ) پڑے جو تمہیں ناگوار ہو، بلکہ تم اپنے چچا زاد عبد اللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔‘‘ وہ قبیلہ فہر، یعنی قریش کے فہر سے تے۔ وہ اسی قبیلے میں سے تھے جس سے وہ تعلق رکھتی تھیں، تو میں ان کی طرف منتقل ہوگئی۔
جب میری عدت گزر گئی تو میں نے ایک اعلان کرنے والے کی آواز سنی، رسول اللہﷺ کا اعلان کرنے والا کہہ رہا تھا: ’’نماز کی جماعت ہونے والیہے۔‘‘ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں عورتوں کی اس صفت میں تھی جو مردوں کی پشت پر (عورتوں کی پہلی صف) تھی۔ جب رسول اللہﷺ نے نماز ادا فرمالی تو آپ (خوشی کے عالم میں) ہنستے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمای: ’’ہر انسان اپنی نماز ہی کی جگہ پر بیٹھا رہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تم لوگوں کو کیوں اکٹھا کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہیں۔ آپe نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں نہ (کسی خاص بات کی) رغبت دلانے کے لیے اکٹھا کیا ہے، نہ (کسی خاص چیز) سے ڈرانے کے لیے۔ میں نے تمہیں اس لیے اکٹھا کیا ہے کہ تمیم داری نے، جو ایک نصرانی شخص تھے، آئے ہیں اور انہوں نے بیعت کی ہے اور اسلام لائے ہیں، (انہوں نے) مجھے ایک بات سنائی ہے جو اس کے مطاق ہے جو میں تمہیں مسیح دجال (جھوٹے مسیح) کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لخم اور جذام کے تیس لوگوں ے ساتھ ایک سمندری بیڑے میں سوار ہوئے۔ سمندر کی موج (سمندری طوفان) مہینہ بھر انہیں سمندر میں ادھر ادھر پٹختی رہی، یہاں تک کہ (ایک دن) غروب آفتاب کے وقت وہ سمندر میں ایک جزیرے کے کنارے جا لگے، وہ بیڑے کی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھے، اور جزیرے میں داکل ہو گئے تو انہیں موٹے اور گھنے بالوں والا ایک جاندار ملا۔ بالوں کی کثرت کی بناء پر لوگوں کو اس کے آگے پیچھے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ انہوں نے اس سے کہا: تیری خرابی! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (بہت زیادہ جاسوسی کرنے والی) ہوں، انہوں نے کہا: جساسہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم لوگ دیر( راہبوں کی عمارت) میں موجود اس شخص کی طرف چلو، وہ تمہاری خبروں کا سخت مشتاق ہے۔ جب اس نے ایک شخص کا نام لیا تو ہمیں اس کے بارے میں خوف ہوا کہ یہ (جساسہ) کوئی شیطان ہے۔ انہوں نے کہا: ہم تیزی سے چلتے ہوئے اس دیر میں داخل ہوئے تو ہاں، جو ہم نے کبھی دیکھا ہو، اس سے زیادہ عظیم الخلقت انسان تھا جو انتہائی سختی سے بندھا ہوا تھا، اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندے ہوئے تھے، اس کے گھٹنوں سے لے کر تخنوں تک کا حصہ لوہے (کی زنجیروں) کے ساتھ جکڑا ہو اتھا۔ ہم نے کہا: تیرا برا ہو! توکون ہے؟ اس نے کہا: تمہیں میرے بارے میں جاننے کا موقع مل گیا، اس لیے تم مجھے بتاؤ کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، ہم سمندر میں (بیڑے پر) سوار ہوئے اور اتفاقا ہم اس وقت سمندر میں اترے جب اس میں بڑا طوفان اتھا، ایک مہینے تک موجیں ہمارے ساتھ کھیلتی (ادھر ادھر پٹختی) رہیں، پھر ہم تمہارے اس جزیرے کے کنارے آ لگے، ہم اس (بیڑے) کی کشیتوں میں بیٹھے اور جزیرے میں آگئے۔ ایک موٹے گھنے والوں والا جاندار ملا، بالوں کی کثرت کی بنا پر ہمیں اس کے آگے پیچھے کا بھی پتہ نہیں چلا۔ ہم نے کہا: تمہار برائی ہو! تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساساہ ہوں۔ ہم نے کہا: اور جساسہ کیا؟ اس نے کہا: اس آدمی کی طرف چلو جو اس دیر کی عمار ت میں ہے، وہ تمہاری خبروں کا سخت مشتاق ہے۔ ہم جلدی سے تمہارے پاس پہنچ گئے ہیں، اس سے ہمیں سخت ڈر لگا ہے، ہم اس بات سے خود کو محفوظ نہیں سمجھتے کہ وہ کوئی مادہ شیطان ہو۔
اس نے کہا: مجھے (علاقہ) بیسان کی کھجوروں کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: تم ان کی کس بات کی خبر معلوم کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں تم اسے اس کے کھجور کے درختوں کے بارے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ پھل دیتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا: ہاں، اس نے کہا: وہ وقت قریب ہے کہ وہ پھل نہیں دیں گے۔ اس نے کہا: مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: اس کی کس بات کی خبر چاہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا اس میں پانی ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں بہت پانی ہے، اس نے کہا؛ قریب ہے کہ اس کا پانی (گہرائی میں) چلا جائے۔ اس نے کہا: مجھے (شام کے علاقے) زغر کے چشمے کے بارے میں بتاؤ، انہوں نے کہا: اس کی کس بات کی خبر چاہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا چشمے میں پانی ہے اور کیا وہاں کے باشندے چشمے کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں؟ ہم نے اسے کہا: ہاں، اس میں بہت پانی ہے اور اس کے باشندے اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اس نے کہا: مجھے امیوں (اہل عرب) کے نبی (ﷺ) کے بارے میں بتاؤ، اس نے کیا کی؟ انہوں نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ میں سکونت پذیر ہو گئے ہیں۔ اس نے کہا: کیا عرب نے اس کے ساتھ جنگیں لڑیں؟ ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: اس نبیﷺ نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ تو ہم نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ارد گرد کے عربوں پر غالب آگئے ہیں۔ اور انہوں نے آپﷺ کی اطاعت اختیار کر لی ہے۔۔۔ انہوں نے کہا۔۔۔ اس نے ان سے کہا: یہ ہو چکا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں۔
؛اس نے کہا: یہ بات ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس نبیﷺ کی اطاعت کریں اور میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں ہی مسیح دجال ہوں اور مجھے عنقریب نکلنے کی اجازت مل جائے۔ گی۔ میں نکل کر زمین میں (ہر جگہ) جاؤں گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا کوئی بستی نہیں چھوڑوں گا، چالیس راتوں کے اندر سب (بستیوں) میں اتروں گا۔ وہ دونوں (مکہ اور مدینہ) میرے لیے حرام کر دیے گئے ہیں۔ میں جب بھی کسی ایک میں یا (کہا:) دونوں میں سے ایک میں داخل ہونا چاہوں گا، ایک فرشتہ میرے سامنے آجائے گا جس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تلوار ہو گی۔ وہ مجھے اس (میں جانے) سے روک دے گا۔ اس کے ہر راستے پر فرشتے اس کا پہرہ دے رہے ہوں گے۔ (فاطمہ بنت قیسؓ نے) کہا: رسول اللہﷺ نے اپنے عصائے مبار ک کو منبر پر مارا اور فرمایا:’’یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے۔‘‘ آپﷺ کی مراد مدینہ سے تھی۔ ’’خبردار! کیا میں نے تمہیں یہ باتیں بتائیں نہ تھیں؟‘‘ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے تمیم کی ات اچھی لگی، وہ اسی کے مطابا ہے جو میں نے تم لوگوں کو بتایا تھا اور جو کچھ مکہ اور مدینہ کے متعلق بتایا تھا۔ یاد رکھو! وہ شام کے سمندر میں ہو سکتا ہے یا یمن کے سمندر میں ہو سکتا ہے، نہیں بلکہ مشرق کی طرف ہوگا،جو بھی وہ ہے، مشرق کی طرف ہو گا، جو بھی وہ ہے، مشرق کی طرف ہو گا، جو بھی وہ ہے۔‘‘ اور آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ انہوں نے (حضرت فاطمہ بنت قیسؓ) نے کہا: میں نے یہ (حدیث) رسول اللہﷺ سے (سن کر) حفظ کر لی۔‘‘
((عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ أَخَّرَ الْعِشَاءَ الْآخِرَۃَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ إِنَّہُ حَبَسَنِی حَدِیثٌ کَانَ یُحَدِّثُنِیہِ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ عَنْ رَجُلٍ کَانَ فِی جَزِیرَۃٍ مِنْ جَزَاءِرِ الْبَحْرِ فَإِذَا أَنَا بِامْرَأَۃٍ تَجُرُّ شَعْرَہَا قَالَ مَا أَنْتِ قَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَۃُ اذْہَبْ إِلَی ذَلِکَ الْقَصْرِ فَأَتَیْتُہُ فَإِذَا رَجُلٌ یَجُرُّ شَعْرَہُ مُسَلْسَلٌ فِی الْأَغْلَالِ یَنْزُو فِیمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقُلْتُ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا الدَّجَّالُ خَرَجَ نَبِیُّ الْأُمِّیِّینَ بَعْدُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَطَاعُوہُ أَمْ عَصَوْہُ قُلْتُ بَلْ أَطَاعُوہُ قَالَ ذَاکَ خَیْرٌ لَہُمْ))
(رواہ ابوداؤد کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب فی الحسانہ 3626/2)
’’حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اکرمﷺ عشاء کی نماز کے لیے دیر سے تشریف لائے اور فرمایا: مجھے تمیم داری (ایک عیسائی عالم جو بعد میں مسلمان ہوگئے) کی ان باتوں نے روک لیا تھا جو وہ مجھ سے کر رہا تھا۔ تمیم نے ایک آدمی کے حوالے سے مجھے بتایا کہ وہ آدمی سمندر کے کسی جزیرہ پر (کشتی کے سمندری طوفان میں پھنس جانے کی وجہ سے) پہنچ گیا جہاں اسے ایک عورت ملی جو اپنے بالوں کو کھینچ رہی تھی۔ اس آدمی نے عورت سے پوچھا: تو کون ہے؟ عورت نے جواب دیا میں (دجال کی) جاسوس ہوں تو ذرا اس محل کی طرف آ۔ میں اس محل میں چلا گیا وہاں میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو بالوں کو کھینچ رہا تھا طوق و سلاسل میں جکڑا ہوا تھا اور زمین و آسمان کے درمیان اچھل کود کر رہا تھا میں نے پوچھا: تو کون ہے؟ اس آدمی نے جواب دیا: میں دجال ہوں۔ پھر دجال نے پوچھا: کیا امیوں کے نبی ظاہر ہوگئے؟ اس آدمی نے جواب دیا: ہاں۔ دجال نے پوچھا: لوگوں نے اس کی اطاعت کی ہے یا نافرمانی؟ اس آدمی نے کہا: اطاعت۔ دجال نے کہا یہ ان کے لیے اچھا ہے۔‘‘
دوسری حدیث میں موجود ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس صاف ابن صیاد پر بھی دجال ہونے کا شبہ کیا، تو وہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں۔
((عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَمَرَرْنَا بِصِبْیَانٍ فِیہِمْ ابْنُ صَیَّادٍ فَفَرَّ الصِّبْیَانُ وَجَلَسَ ابْنُ صَیَّادٍ فَکَاَنَّ رَسُولَ اللّٰہﷺکَرِہَ ذٰلِکَ فَقَالَ لَہٗ النَّبِی ﷺ تَرِبَتْ یَدَاکَ اَتَشْہَدُ اَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ فَقَالَ لَا بَلْ تَشْہَدُ اَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ذَرْنِی یَا رَسُولَ اللّٰہِ حَتّٰی اَقْتُلَہٗ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اِنْ یَّکُنِ الَّذِی تَرٰی فَلَنْ تَسْتَطِیعَ قَتْلَہٗٗ.)) (رواۃ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر ابن صیاد)
’’حضرت عبد اللہ (بن مسعودؓ) کہتے ہیں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ہمارا گزر بچوں سے ہوا جن میں ابن صیاد بھی تھا۔ تمام بچے بھاگ گئے لیکن ابن صیاد بیٹھا رہا۔ آپﷺ کو یہ بات بری لگی۔ آپﷺ نے فرمایا: تیرے ہاتھ غبار آلود ہوں کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہون؟ وہ بولا: نہیں۔ پھر ابن صیاد کہنے لگا کیا تو (یعنی حضرت محمدﷺ) گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت عمرؓ (جو کہ آپﷺ کے ساتھ تھے) نے کہا: یارسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیں میں اسے قتل کردوں۔ (ارتداد کی وجہ سے) رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر یہ وہی ہے جس کا تجھے شک ہے (یعنی دجال) تو پھر تو اسے قتل نہیں کرسکتا۔ (اور اگر کوئی اور ہے تو اسے قتل کرنے کا فائدہ نہیں)۔‘‘
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ:
((عَنْ اَبِی سَعِیدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ لِی ابْنُ صَآءِدٍ وَاَخَذَتْنِی مِنْہٗ ذَمَامَۃٌ ہٰذَا عَذَرْتُ النَّاسَ مَا لِی وَلَکُمْ یَااَصْحَابَ مُحَمَّدٍ اَلَمْ یَقُلْ نَبِیُّ اللّٰہِ ﷺ اِنَّہٗ یَہُودِیٌّ وَقَدْ اَسْلَمْتُ قَالَ وَلَا یُولَدُ لَہٗ وَقَدْ وُلِدَ لِی وَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ عَلَیْہِ مَکَّۃَ وَقَدْ حَجَجْتُ قَالَ فَمَا زَالَ حَتّٰی کَادَ اَنْ یَّاْخُذَ فِیَّ قَوْلُہٗ قَالَ فَقَالَ لَہٗ اَمَا وَاللّٰہِ اِنِّی لَاَعْلَمُ الْآنَ حَیْثُ ہُوَ وَاَعْرِفُ اَبَاہٗ وَاُمَّہٗ قَالَ وَقِیلَ لَہٗ اَیَسُرُّکَ اَنَّکَ ذَاکَ الرَّجُلُ قَالَ فَقَالَ لَوْ عُرِضَ عَلَیَّ مَا کَرِہْتُ.))
(رواۃ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر ابن صیاد)
’’حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں ابن صائد نے مجھ سے کچھ باتیں کیں جن کی وجہ سے مجھے (اسے برا کہنے میں) شرم محسوس ہوئی کہنے لگا: میں نے اپنے بارے میں لوگوں سے معذرت کی (کہ میں دجال نہیں( لیکن اے اصحابِ رسولﷺ! معلوم نہیں تمہیں میرے بارے میں کیا (گمان) ہوگیا ہے کیا رسول اللہﷺ نے نہیں فرمایا کہ دجال یودی ہوگا اور میں تو مسلمان ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دجال کی اولاد نہیں ہوگی اور میری اولاد ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے دجال کا مکہ میں داخل ہونا حرام کیا ہے اور میں نے تو حج کیا ہے۔ وہ ایسی باتیں کرتا رہا قریب تھا کہ میں اس کی باتوں پر یقین کرلیتا لیکن ساتھ ہی اس نے کہا: واللہ! میں اچھی طرح جانتا ہوں دجال اس وقت کہاں ہے؟ اس کے ماں باپ کو پہچانتا ہوں۔ لوگوں نے ابن صائد سے پوچھا: تجھے پسند ہے کہ تو ہی دجال ہو؟ کہنے لگا: اگر مجھے بنایا جائے تو میں ناپسند نہیں کروں گا۔‘‘
محترم قارئین! بعض لوگ ابن صیاد کو ہی دجال سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریمﷺ نے واضح طور پر اسے دجال قرار نہیں دیا بلکہ اس پر صرف شبہ کا اظہار کیا ہے اگر ہم ابن صیاد کو ہی دجال قرار دیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مسلمان بھی ہوا اس کی اولاد بھی ہوئی اور وہ مکہ میں بھی داخل ہوا تو پھر وہ دجال کیسے، کیونکہ فرمان رسولﷺ کے مطابق تو دجال کی اولاد بھی نہیں ہونا تھی اور نہ ہی وہ مکہ میں داخل ہو سکتا تھا تو اس کا جواب بھی صحیح مسلم کی روایت کے آخر میں موجود ہے کہ جب ابن صیاد سے لوگوں نے پوچھا کہ تجھے پسند ہے کہ تو ہی دجال ہو؟ کہنے لگا اگر مجھے بنایا جائے تو میں نا پسند نہیں کروں گا۔ جبکہ ایک اور روایت میں ہے کہ واقعہ حرہ کے بعد وہ غائب ہو گیا تھا تو کیا اس بات کا امکان نہیں ہو سکتا کہ اللہ رب العزت نے اسے ہی دجال بنا کر ایک جزیرے پر جکڑ دیا ہو۔
اس بات پر دوسری طرف سے اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ تمیم داریؓ والی حدیث میں واضح طور پر موجود ہے کہ اس نے ان سے سوال کیا کہ امیوں کے نبی کا کیا ہوا؟ دجال کا یہی سوال کرنا ان تمام دلائل کو رد کرتا ہے جو ابن صیاد کو دجال قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہو چکی ہے کہ ابن صیاد تو مسلمان ہو چکا تھا اور پھر اس کی ملاقات بھی نبی کریمﷺ سے ہوئی تو پھر دجال کا یہ سوال کرنا نہیں بنتا کہ امیوں کے نبی کا کیا ہوا۔ اس تمام بحث سے پتہ چلا کہ ابن صیاد پر بھی شیطان ہاوی تھا اور وہ مکمل طور پر اپنے شیطان کے زیر اثر تھا جن وجہ سے اس پر شبہ کا اظہار کیا گیا نہ کہ اسے سو فیصد دجال قرار دیا گیا۔ اس بحث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریمﷺ پر دجال کے بارے میں علم بھی بتدریج دیا گیا نہ کہ ایک ہی وقت میں یہی وجہ تھی کہ ابن صیاد کے بارے میں صرف شبہ کا اظہار کیا گیا لیکن جب تمیم داریؓ کا واقعہ پیش آیا تو نبی کریمﷺ نے واضح کر دیا کہ جو جزیرے میں قید ہے وہی دجال ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دجال انسانوں میں سے ہو گا یا شیاطین میں سے اس پر بھی علمائے کرام کا اختلاف ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کا اس بارے میں کوئی فرمان موجود نہیں ہے کہ جس میں صریح لفظوں میں انسان یا شیطان قرار دیا گیا ہو۔ اسی ضمن میں جو لوگ اسے انسان خیال کرتے ہیں وہ دجال کے انسان ہونے پر جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ تمیم داریؓ والی حدیث میں دجال کو دیکھنے پر تمیم داریؓ نے یہ الفاظ استعمال کیے۔
((فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتّٰی دَخَلْنَا الدَّیْرَ فَاِذَا فِیہِ اَعْظَمُ اِنْسَانٍ رَاَیْنَاہٗ قَطُّ)) (مسلم)
’’ہم جلدی سے اس گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی شکل آدمی دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی آدمی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
اسی طرح دجال کو انسان سمجھنے والے یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ مسند احمد میں ہے کہ :
((یَخْرُجُ الدَّجَال مِنْ یَھُوْدِیَّہِ اصْبَھَانَ، مَعَہُ یَبْعُوْن الْغَاء مِنَ الْیَھُوْدِ عَلَیْھِمْ الیجان))
’’دجال کا خروج سر زمین اصبہان ہے اور یہودیہ نامی قبیلے سے ہو گا اور یہود میں سے ستر ہزار ایسے افراد دجال کی پیروی کریں گے جن پر سبز چادریں ہوں گی۔‘‘
محترم قارئین! یہ تمام دلائل اپنی جگہ لیکن دوسری طرف صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ
((عَنْ اَبِی سَعِیدٍ قَالَ لَمَّا رَجَعَ النَّبِیّﷺ مِنْ تَبُوکَ سَاَلُوہٗ عَنِ السَّاعَۃِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہﷺ لَا تَاْتِی مِاءَۃُ سَنَۃٍ وَعَلَی الْاَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَۃٌ الْیَوْمَ)) (صحیح مسلم: 6485)
’’حضرت ابو سعید خدریؓ کے روایت ہے کہ جب نبیﷺ غزوہ تبوک سے واپس آئے تو اس کے بعد لوگوں نے آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کیا رسول اللہﷺ نے فرمایا: سو سال نہیں گزریں گے کہ آج زمین پر سانس لیتا ہوا کوئی شخص موجود ہو (اس سے پہلے یہ سب ختم ہو جائیں گے)۔
((اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ ذَاتَ لَیْلَۃٍ صَلٰوۃَ الْعِشَآءِ فِیْ آخِرِ حَیَاتِہٖ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ اَرَاَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ہَذِہٖ فَاِنَّ عَلَی رَاْسِ مِاءَۃِ سَنَۃٍ مِنْہَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ہُوَ عَلَی ظَہْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَوَہَلَ النَّاسُ فِیْ مَقَالَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ تِلْکَ فِیمَا یَتَحَدَّثُونَ مِنْ ہَذِہٖ الْاَحَادِیثِ عَنْ مِاءَۃِ سَنَۃٍ وَاِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ہُوَ الْیَوْمَ عَلَی ظَہْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ یُرِیدُ بِذٰلِکَ اَنْ یَّنْخَرِمَ ذٰلِکَ الْقَرْن))
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہؓ حدیث: 6479)
’’عبداللہ بن عمرؓ نے کہا : نبیﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخر ی حصے میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا تم لوگوں نے اپنی اس رات کو دیکھا ہے؟ (اسے یاد رکھو) بلاشبہ اس رات سے سو سال کے بعد جو لوگ (اس رات میں) روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں ہو گا۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا: (بعض) لوگ رسول اللہﷺ کے فرمان کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہوئے ہیں جو اس میں سو سال کے حوالے سے مختلف باتیں کر رہے ہیں (کہ سو سال بعد زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا) رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا تھا آج جو لوگ روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے کوئی باقی نہیں ہو گا۔ آپﷺ کا مقصود یہ تھا کہ اس قرن (اس دور میں رہنے والے تمام لوگوں) کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘
((عَنْ سَالِمٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ نَبِیُّ اللّٰه ﷺ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَۃٍ تَبْلُغُ مِاءَۃَ سَنَۃٍ فَقَالَ سَالِمٌ تَذَاکَرْنَا ذٰلِکَ عِنْدَہٗ اِنَّمَا ہِیَ کُلُّ نَفْسٍ مَخْلُوقَۃٍ یَوْمَءِذٍ))
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہؓ حدیث: 6486)
’’جابر بن عبداللہؓ سے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے (آج) سانس لیتا ہوا شخص سو سال (کی مدت تک نہیں پہنچے گا)۔ سالم نے کہا: ہم نے ان (حضرت جابرؓ) کے سامنے اس کے بارے میں گفتگو کی اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اس وقت بیدار ہو چکا تھا۔‘‘
محترم قارئین! ان احادیث کے بعد اگر ہم دجال کو انسان تسلیم کریں خواہ وہ ابن صیاد ہو یا جسے تمیم داریؓ نے جزیرے میں قید دیکھا تو سو سال کے اندر اندر اس پر موت کا وارد ہونا لازمی قرار ہوتا ہے۔
محترم قارئین ! یہی وجہ ہے کہ صحیح مسلم کی انہی احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’لیکن گرجا سے نکلنے والا دجال جس کے بارے میں امام مسلم نے اپنی صحیح میں فاطمہ بنت قیس سے روایت کی اور جس کو نہایت درجہ قوی ہیکل اور زنجیروں سے جکڑا ہوا بیان کیا ہے اور اس کے جساسہ کی بھی خبر لکھی ہے اور یہ دجال وہ ہے جس کو تمیم داری نے کسی جزیرہ کے ایک گرجا میں دیکھا کہ خوب مضبوط بندھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ اس کی گردن کی طرف جکڑے ہوئے تھے اس دجال پر علماء کی بہت نظر ہے کہ درحقیقت یہی دجال ہے جو آخری زمانہ میں نکلے گا اور یہ تو کسی کا بھی مذہب نہیں کہ آخری زمانہ میں دجال تولد کے طور پر کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہو گا بلکہ بالاتفاق سلف و خلف یہی کہتے آئے ہیں کہ دجال معہود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں زندہ موجود تھا اور پھر آخری زمانہ میں بڑی قوت کے ساتھ خروج کرے گا اور اب تک وہ زنمدہ ہے ہرگز صحیح نہیں ہے مسلم کی دو حدیثیں اس خیال کی بکلی استیصال کرتی ہیں اور وہ یہ ہیں
(۱) عن جابر قال سمعت النبی ﷺ قبل ان یموت بشھر تسئلونی ون الساعۃ و انما علمھا عنداللہ و اقسم باللہ ما علی الارض من نفسہ منفوسۃ یاتی علیھا ماءۃ سنۃ وھی حیۃ یومئذ (رواہ مسلم )
یعنی روایت ہے جابر سے کہ کہا سنا میں نے پیغمبر خدا ﷺ سے فرماتے تھے مہینہ بھر پہلے اپنی وفات سے جو تکمیل مقاصد دین اور اظہار بقایا اسرار کا وقت تھا کہ تم مجھ سے پوچھتے ہو قیامت کب آئے گی اور بجز خدائے تعالی کے کسی کو اس کا علم نہیں اور میں اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں جو پیدا کیا گیا ہو اور موجود ہو اور پھر آج سے سو برس اس پر گزرے اور وہ زندہ رہے ۔
(۲) پھر دوسری حدیث صحیح مسلم کی یہ ہے
وعن ابی سعید عن النبی ﷺ لا یاتی ماءۃ سنۃ و علی الارض نفس منفوسۃ (رواہ مسلم)
یعنی ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں آویگی سو برس اس حال میں زمین پر کوئی شخص بھی آج کے لوگوں میں سے زندہ موجود ہو ۔
اب ان دونوں حدیثوں کی رو سے جن میں سے ایک میں ہمارے سید و مولی نبی ﷺ نے قسم بھی کھائی ہے اگر ہم تکلفات سے تاویلیں نہ کریں تو صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جساسہ والا دجال بھی ابن صیاد کی طرح فوت ہو گیا ہے اس کی نسبت علماء کا خیال ہے کہ آخری زمانہ میں نکلے گا اور حال یہ ہے اگر اس کو آج تک زندہ فرض کیا جائے تو رسول اللہ ﷺ کی حتمی حدیثوں کی تکذیب لازم آتی ہے ۔اور اس حدیث میں دجال کا یہ قول انی اناالمسیح وانی ان یوشک ان یوذن لی فی الخروج جو زیادہ تر اس کے مسیح دجال ہونے پر دلالت کرتا ہے بظاہر اس شبہ میں ڈالتا ہے کہ آخری زمانہ میں وہ نکلنے والا ہے لیکن بہت آسانی سے یہ شبہ رفع ہو سکتا ہے جبکہ اس طرح پر سمجھ لیں کہ یہ عیسائی بطور مورث اعلی کے اس دجال کے لئے ہے جو عیسائی گروہ میں ہی پیدا ہو گا اور گرجا میں سے ہی نکلے گا اور ظاہر ہے کہ وارث اور مورث کا وجود ایک ہی حکم رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس بیان میں استعارات ہوں اور زنجیروں سے مراد وہ موانع ہوں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں عیسائی واعظوں کو روک رہے تھے اور وہ مجبور ہو کر گویا ایک جگہ بند تھے اور یہ اشارہ ہو کہ آخری زمانہ میں بڑی قوت کے ساتھ ان کا خروج ہو گاجیسا کہ آج کل ہے اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ حدیث مذکورہ بالا میں اس دجال نے خدائی کا دعوی نہیں کیا بلکہ فقرہ ان یوشک ان یوذن لی صاف دلالت کررہا ہے کہ دجال کو خدایتعالی کے وجود کا اقرار ہے اور حدیثوں میں کوئی ایسا لفظ پایا نہیں جاتا جس سے معلوم ہو کہ جساسہ والا دجال اپنے آخری ظہور کے وقت میں خالق السموات والارض ہونے کا دعوی کرے گا ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تکبّر کی راہ سے خداوند خداوند کہلائے گا جیسے ان لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے جو خدایتعالی کو بکلی فراموش کر دیتے یءں اور اس کی پرستش اور اطاعت سے کچھ غرض نہیں رکھتے اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو ربّی ربّی کہیں یعنی خداوند خداوند کر کے پکاریں اور ایسی ان کی اطاعت کریں جیسے خداتعالی کی کرنی چاہئے ۔ اور یہی بدمعاشی اور غفلت کا اعلی درجہ ہے کہ خداتعالے کی تحقیر دل میں بیٹھ جائے ۔مثلاً ایک ایسا امیر ہے کہ نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے کہ واہیات کام ہے اس سے کیا فائدہ اور روزہ پر ٹھٹھا کرتا ہے اور خدا تعالےٰ کی عظمت کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا اور اس کی آسمانی تقدیروں کا قائل نہیں بلکہ اپنی تدبیروں اور مکروں کو تمام کامیابیوں کا مدار سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ ایسے اس کے آگے جھکیں جیسا کہ خدایتعالےٰ کے آگے جھکنا چاہئے اور خدایتعالے کی فرمانبرداری پر چڑتا ہے اور اس کے احکام کو ذلیل اور خضوار سمجھتا ہے اور اپنے احکام کو قابل عزت خیال کرتا ہے اور اپنی اطاعت کو خدا تعالےٰ کی اطاعت پر مقدم رکھنا چاہتا ہے وہ حقیقت میں خدائی کا دعوی کر رہا ہے اگرچہ قال سے نہیں مگر حال سے ضرور یہ دعوی اس سے صادر ہوتا ہے بلکہ قال سے بھی دعوی کرتا ہے کیونکہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کو خداوند خداوند کہیں سو اسی قسم کا دجال کا دعوی معلوم ہوتا ہے ۔
اس تمام تقریر سے معلوم ہوا کہ مسیح ابن مریم کی طرح دجال کا بھی مثیل ہی آنے والا ہے یعنی ایسا گروہ جو باعتبار اپنی سیرت و خاصیت کے پہلے دجال کا ہمرنگ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس تحقیق سے ظاہر ہو گیا کہ جیسے مثیل مسیح کو مسیح ابن مریم کہا گیا اس امر کو نظر میں رکھ کر کہ اس نے مسیح ابن مریم کی روحانیت کو لیا اور مسیح کے وجود کو باطنی طور پر قائم کیا ایسا ہی وہ دجال جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں فوت ہو چکا ہے اس کی ظل اور مثال نے اس آخری زمانہ میں اس کی جگہ لی اور گرجا سے نکل کر مشارق و مغارب میں پھیل گیا ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 258تا261مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 358تا361)
محترم قارئین !اگر دیکھا جائے تو مرزا غلام احمد قادیانی کی اس طویل تحریر میں دجال کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا گیا ہے اس کی اصل بنیادایک تو دجال کا ابن آدم ہونا اور دوسرا صحیح مسلم کی وہ احادیث ہیں جن میں سو سال کے اندر اندر اس وقت کے ذندہ لوگوں کا مرنا ثابت ہوتا ہے ۔ اس ساری بحث کے دو طرح سے جوابات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔
اول یہ کہ دجال کو ابن آدم سمجھنے سے انکار کر دیا جائے اور اسے شیاطین میں سے تصور کر لیا جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے کسی بھی حدیث میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں دجال کو ابن آدم یا شیطان قرار نہیں دیا تو یہ گمان بھی کیا جا سکتا ہے کہ دجال شیاطین میں سے ہو اور اسی بات کی تائید مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ایک مقام پر اس طرح کی ہے کہ
’’یہ تحقیق شدہ امر ہے اور یہی ہمارا مذہب ہے کہ دراصل دجال شیطان کا اسم اعظم ہے جو بمقابل خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کے لیے جو اللہ الحی القیوم ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ نہ حقیقی طور پر دجال یہود کو کہہ سکتے ہیں نہ نصاریٰ کے پادریوں کو اور نہ کسی اور قوم کو کیونکہ یہ سب خدا کے عاجز بندے ہیں۔ خدا نے اپنے مقابل پر ان کو کچھ اختیار نہیں دیا پس کسی طرح ان کا نام دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 حاشیہ، ص 269)
دوسرا اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تمیم داری رضی اللہ عنہ والی حدیث کو مدنظر رکھا جائے تو دجال کو صحیح مسلم کی سو سال والی احادیث سے خود بخود ہی استثناء مل جاتا ہے کیونکہ دجال کے بارے میں تمام احادیث سے ثابت ہے کہ دجال کے ظہور سے قبل قیامت نہیں آسکتی کیونکہ دجال کا ظہور علامات قیامت میں سے ہے۔ جس طسے واضح ہوتا ہے کہ اس کا ظہور ہر حال میں ہو گا ۔اور تمیم داری رضی اللہ عنہ والی روایت سیان کاموں کے بارے میں بھی رہنمائی ملتی ہے جو دجال اپنے ظہور کے بعد کرے گا ۔اب دجال کی موت کا شبہ صرف اور صرف سو سال والی حدیث میں موجود لفظ ’’تمام ‘‘ سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ سوال پیدا ہوگا کہ حدیث میں لفظ تمام لوگ جو اس وقت تک زندہ تھے سو سال کے اندر ان پر موت وارد ہونے کا ذکر ہے تو دجال کو ان تمام سے کیونکر استثناء حاصل ہے آئیے یہ بات بھی آپ کو قرآن کریم سے ہی سمجھاتا ہوں قرآن کریم کا بھی یہ اسلوب ہے کہ اگر کسی چیز کے لئے تمام کا لفظ آیا ہے اور دوسری جگہ اس چیز کو دوسروں سے الگ بیان کیا گیا ہے تو اسے اس تمام سے الگ ہی سمجھا جائے گا۔مثلاً اللہ تعالی قرآن کریم فرماتا ہے کہ
(کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ) (الانبیاء : ۳۵)
’’تمام نفس (جاندار)موت کا ذائقہ چکھنے والے ہیں۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تعالی اپنے لئے بھی نفس کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
(لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo)
(آل عمران : ۲۸)
’’مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنے نفس (ذات)سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
اب خود اندازہ کیجئے کہ ایک طرف تو اللہ تعالی تمام نفوس کے بارے میں فرما رہا ہے کہ وہ موت کاذائقہ چکھنے والے ہیں اور دوسری طرف اپنی ذات کے لئے بھی لفظ ’’نفس‘‘ کا اطلاق فرما رہا ہے اور یہ بھی ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی کو موت تو درکنار ہلکی سی اونگھ بھی نہیں آتی ۔ اب جس طرح موت کا ذائقہ چکھنے والے تمام نفوس سے اللہ تعالی کو استثناء حاصل ہے بالکل اسی طرح سو سال کے اندر اندر موت کا شکار ہونے والے تمام لوگوں سے دجال کو استثناء حاصل ہے ۔
قارئین کرام ! اب قرآن کریم سے ہی ایک اور مثال آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
(اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ) (الانبیاء : ۳۰)
’’کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟‘‘
محترم قارئین! سورۃ الانبیاء کی مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالی نے تمام زندہ چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں پانی سے پیدا کیا ہے لیکن جب حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر آتا ہے تو قرآن کریم سے ہی پتہ چلتا ہے کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں آدم وعلیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے کہ
(اِِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِینٍ) (ص : ۷۱)
’’جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘
اور دوسرے مقام پر ابلیس کا قول موجود ہے کہ اس نے کس وجہ سے آدم علیہ السلام کو تعظیمی سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا چنانچہ قرآن کریم ہے کہ
(قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ) (الاعراف : ۱۲)
’’حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے جب کہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا۔‘‘
محترم قارئین ! جس طرح تمام زندہ چیزوں کے پانی سے پیدا ہونے میں آدم علیہ السلام کو استثناء حاصل ہے بالکل اسی طرح دضال کو بھی صحیح مسلم کی سو سال میں اس وقت تک تمام زندہ لوگوں پر موت وارد ہونے والی احادیث سے استثناء حاصل ہے ۔اب جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ دجال کو ان احادیث سے استثناء حاصل ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی کی عیسائی پادریوں کو دجال قرار دینے والی یہ طویل بحث بالکل لا یعنی ثابت ہو جاتی ہے ۔ لیکن پھر بھی چند ایک اعتراضات کا جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ حدیث مذکورہ بالا میں اس دجال نے خدائی کا دعوی نہیں کیا بلکہ فقرہ ان یوشک ان یوذن لی صاف دلالت کررہا ہے کہ دجال کو خدایتعالی کے وجود کا اقرار ہے اور حدیثوں میں کوئی ایسا لفظ پایا نہیں جاتا جس سے معلوم ہو کہ جساسہ والا دجال اپنے آخری ظہور کے وقت میں خالق السموات والارض ہونے کا دعوی کرے گا‘‘
(ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ259)
محترم قارئین ! دیگر احادیث نبویہﷺ سے واضح ہوتا ہے کہ فتنہ دجال ایک بہت بڑی آزمائش ہے جس کا ظہور قرب قیامت ہو گا اور وہ لوگوں کے سامنے دعوی خدائی کرے گا کمزور ایمان کے لوگ اسے خدا سمجھ بیٹھیں گے ۔ اب یہ دعوی خدائی تو اس نے قرب قیامت کرنا ہے اور نبی رحمت ﷺ نے اسے ہی دجال قرار دے دیا ہے تو اس پر یہ اعتراض کرنا ہی بالکل فضول ہے کہ تمیم داری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں دجال نے اپنے دعوی خدائی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا جب آقا کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے فرمادیا کہ وہ دعوی خدائی کرے گا اور یہ بات صحیح الاسناد احادیث مبارکہ سے ثابت بھی ہے تو پھر مرزا قادیانی کے ایسے اعتراضات کو دین اسلام کے اصل حلئے کو تبدیل کرنے کی ناپاک سازش قرار نہ دیں تو اور کیا کہیں ؟
مرزا غلام احمد قادیانی صحیح مسلم کی حدیث میں بیان کردہ دجال کی علامت کہ اس کی پیشانی پر ک۔ف۔ر لکھا ہوا ہوگا اس پراعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’امام مسلم صاحب تو یہ لکھتے ہیں کہ دجال معہود کی پیشانی پر’’ ک۔ف۔ر ‘‘لکھا ہوا ہو گا مگر یہ دجال تو انہیں کی حدیث کی رو سے مشرف باسلام ہو گیا پھر مسلم صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ دجال معہود بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہوتی ہے مشرق مغرب میں پھیل جائے گا مگر یہ دجال (ابن صیاد)تو جب مکہ سے مدینہ کی طرف گیا توابی سعید سے کچھ زیادہ نہیں چل سکا جیسا کہ مسلم کی حدیث سے ظاہر ہے۔ایسا ہی کسی نے اس کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہوا نہیں دیکھا اگر ابن صیاد کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہوا ہوتا تو آنحضرت ﷺ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل کرنے سے منع کیوں کرتے اور کیوں فرماتے کہ ہمیں اس کے حال میں ابھی اشتباہ ہے اگر یہی دجال معہود ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ بن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا ہم اس کو قتل نہیں کر سکتے تعجب تو یہ ہے کہ اگر ابن صیاد کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘لکھا ہوا نہیں تھا تو اس پر شک کرنے کی کیا وجہ تھی اور اگر لکھا ہوا تھا تو پھر اس کو دجال معہود یقین نہ کرنے کا کیا سبب تھا ۔ لیکن دوسری حدیثوں سے ظاہر ہے کہ بالآخر اس پر یقین کیا گیا کہ یہی دجال معہود ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی آخر یقین کر لیا۔مگر یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے کہ دجال کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہوا ہوگا تو پھر اوائل دنوں میں ابن صیاد کی نسبت کیوں شک اور تردد میں رہے اور کیوں یہ فرمایا کہ شاید یہی دجال معہود ہو اور یا شاید کوئی اور ہو گمان کیا جاتا ہے کہ شاید اس وقت ’’ک۔ف۔ر‘‘ اس کی پیشانی پر نہیں ہو گا میں سخت متعجب اور حیران ہوں کہ اگر سچ مچ دجال معہود آخری زمانہ میں پیدا ہونا تھا یعنی اس زمانہ میں کہ جب مسیح ابن مریم ہی آسمان سے اتریں تو پھر قبل از وقت یہ شکوک و شبہات پیدا ہی کیوں ہوئے اور زیادہ تر عجیب یہ کہ ابن صیاد نے ایسا کام بھی نہیں دکھایا کہ جو دجال معہود کی نشانیوں میں سے سمجھا جاتا یعنی یہ کہ بہشت اور دوزخ کا ساتھ ہونا اور خزانوں کا پیچھے پیچھے چلنااور مردوں کا زندہ کرنا اور اپنے حکم سے مینہ کو برسانا اور کھیتوں کا اگانا اور ستر باع کے گدھے پر سوار ہونا ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 112،113مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 212، 213)
محترم قارئین ! قبل اس کے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیدا کئے گئے شبہات کا رد کروں پہلے آپ کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہوں گا کہ کس طرح سے ان احادیث میں تناقض ظاہر کر کہ اس نے لوگوں کو احادیث نبویہ ﷺ سے متنفر کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے کیونکہ یہود و نصاری کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح دین اسلام کی اصل روح کو مسخ کر کے لوگوں کو دین اسلام سے متنفر کیا جائے اور اس سلسلہ میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار احادیث نبویہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنا رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ ہی اسلامی تعلیمات کا اصل مآخذ ہے اگر احادیث نبویہ ﷺ کو دین اسلام سے نکال دیا جائے تو اسلا کا حلیہ ہی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی تو انگریز کا لگایا گیا خود کاشتہ پودا تھا جس کا اسے خود بھی اعتراف ہے ۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی اس کے بعد لکھتا ہے کہ
’’اب بڑی مشکلات یہ در پیش آتی ہیں کہ اگر ہم بخاری اور مسلم کی ان حدیثوں کو صحیح سمجھیں جو دجال کو آخری زمانہ میں اتار رہی ہیں تو یہ حدیثیں ان کو موضوع ٹھہراتی ہیں اور اگر ان حدیثوں کو صحیح قرار دیں تو پھر ان کا موضوع ہونا ماننا پڑتا ہے اگر یہ متعارض اور متناقض حدیثیں صحیحین میں نہ ہوتیں صرف دوسری صحیحوں میں ہوتیں تو شاید ہم ان دونوں کتابوں کی زیادہ تر پاس خاطر کر کے ان دوسری حدیثوں کو موضوع قرار دیتے مگر اب مشکل تو یہ آپڑی ہے کہ انہیں دونوں کتابوں میں یہ دونوں قسم کی حدیثیں موجود ہیں ۔
اب جب ہم ان دونوں قسم کی حدیثوں پر نظر ڈال کر گرداب حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ کس کو صحیح سمجھیں اور کس کو غیر صحیح تب عقل خداداد ہم کو یہ طریق فیصلہ کا بتاتی ہے کہ جن احادیث پر عقل اور شرع کا کچھ اعتراض نہیں انہیں کو صحیح سمجھنا چاہئے ۔‘‘
محترم قارئین ! آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس طریقے سے مرزا غلام احمد قادیانی احادیث نبویہ کو متعارض اور متناقض قرار دیتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں چکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے اب آپ کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کا رد پیش کرتا ہوں اس کے بعد آپ کے سامنے احادیث کی صحت اور ضعف کے بارے میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی کا نظریہ پیش کروں گا ۔ان شاء اللہ
محترم قارئین اب مرزا قادیانی کے پھیلائے گئے شبہات کا جواب ملاحظہ فرمائیے لیکن اس سے پہلے اس بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے کہ نبی کریم ﷺ پر دجال کے بارے میں بیک وقت سارا علم نہیں دیا گیا بلکہ بتدریج اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی کی گئی ہے یہی وجہ تھی کہ نبی کریم علیہ السلام کی طرف سے ابن صیاد پر صرف شبہ کا اظہار کیا گیااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسے قتل کرنے سے بھی منع کیا گیا تھا نہ کہ اسے حقیقت میں دجال قرار دیا گیا ۔ یہ جو مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ ’’لیکن دوسری حدیثوں سے ظاہر ہے کہ بالآخر اس پر یقین کیا گیا کہ یہی دجال معہود ہے۔‘‘ یہ بالکل سفید جھوٹ ہے کسی بھی صحیح حدیث میں یہ بات موجود نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یقین کر لیا تھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اب آتے ہیں اس کے دوسرے شبے کی طرف کہ ابن صیاد کے ماتھے پر ’’ک ۔ف ۔ر‘‘ نہیں لکھا تھا تو اسے دجال کیوں سمجھ لیا گا اس ضمن گذارش ہے کہ جب دجال قرب قیامت ظاہر ہو گا یہ ساری علامات اس وقت ظاہر ہونی ہیں نہ قیامت سے ہزاروں سال قبل ۔ایک اور بات جو مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی اس تحریر میں لکھی ہے کہ ’’میں سخت متعجب اور حیران ہوں کہ اگر سچ مچ دجال معہود آخری زمانہ میں پیدا ہونا تھا یعنی اس زمانہ میں کہ جب مسیح ابن مریم ہی آسمان سے اتریں تو پھر قبل از وقت یہ شکوک و شبہات پیدا ہی کیوں ہوئے‘‘ اس میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک بہت بڑا دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ دجال کے آخری زمانہ میں پیدا ہونا لکھا ہے جبکہ کسی بھی حدیث میں دجال کے آخری زمانہ میں پیدا ہونے کا ذکر نہیں بلکہ دجال کے ظھور کا ذکر ہے آخری گذارش یہ کہ صحیحین کی ان احادیث میں قطعًا کوئی تعارض یا تناقض نہیں بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ نبی کریم ﷺ کو دجال کے بارے میں بتدریج علم دیا گیا تھا جب تک دجال کے بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے واضح بات نہیں بتائی گئی تھی اس وقت ابن صیاد پر دجال کا شبہ کیا گیا لیکن جب تمیم داری رضی اللہ عنہ والا واقعہ رونما ہوا تو اس وقت اللہ تعالی کے حکم سے واضح لفظوں میں بتا دیا کہ وہی حقیقی دجال ہے جو قرب قیامت ظاہر ہو گا ۔
محترم قارئین !اب ایک اور شبے کا ازالہ کرتا چلوں کہ اگر دجال کے ماتھے پر ’’ک۔ف۔ر‘‘لکھا ہو گا تو لوگ اس پر ایمان کیونکر لائیں گے ؟ اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ جس طرح لوگ آج کل کے زمانے میں سگریٹ کی ڈبی پر واضح طور پر مضر صحت لکھا ہوا ہونے کے باوجود سگریٹ نوشی کرتے ہیں اسی طرح لوگ دجال کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہونے کے باوجود ایمان لے آئیں گے۔
محترم قارئین! اب میں آپ کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کا احادیث کی صحت جانچنے کا میعار اسی کی ایک تحریر سے پیش کرتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’میرایہ بھی مذہب ہے کہ اگرکوئی امرخداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پرظاہر کیاجاتا ہے مثلاًکسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق توگوعلمائے ظواہر اورمحدثین اس کوموضوع یامجروح ٹھہراویں مگرمیں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کوموضوع کہوں گا اگرخداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پرظاہر کردی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگرمجھ پرخداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اوریہ میرا مذہب میراہی ایجادکردہ مذہب نہیں بلکہ خودیہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یااہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقیدحدیث کے محتاج اورپابندنہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ45طبع چہارم)
محترم قارئین! اب آپ کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب سے چند تحریریں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ قادیانیت جو کہ اسلام کے متصادم الگ مذہب ہے۔ میں دجال کے بارے میں مزیدکیا نظریات پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی رقمطراز ہے کہ:
’’اور ہمارے نزدیک ممکن ہے کہ دجال سے مراد باقبال قومیں ہوں اور گدھا ان کا یہی ریل ہو جو مشرق اور مغرب کے ملکوں میں ہزارہا کوسوں تک چلتے دیکھتے ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 3، صفحہ: 174)
محترم قارئین! جیسا کہ آپ نے مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا تحریر سے ملاحظہ کیا کہ اس کے نزدیک دجال سے مراد باقبال قومیں اور خردجال سے مراد ریل گاڑی ہے۔ اب اس کا دوسرا مؤقف بھی ملاحظہ کیجیے چنانچہ ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’ایک بڑی بھاری علامت دجال کی اس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ سترباع کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑی کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ دخان کے زور سے چلتی ہیں جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے۔ اس جگہ ہمارے نبی کریم علیه السلام نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے۔ جن کا امام و مقتدا یہی دجالی گروہ ہے اس لیے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام، صفحہ: 393، مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 3، صفحہ: 493)
مزید مرزا احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’لہٰذا اس بات پر قطع اور یقین کرنا چاہیے کہ وہ مسیح دجال جو گرجا سے نکلنے والا ہے یہی لوگ ہیں جن کے سحر کے مقابل پر معجزہ کی ضرورت تھی۔۔۔ اور بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ مسیح دجال جس کے آنے کا انتظار تھا یہی پادریوں کا گروہ ہے جو ٹڈی کی طرح دنیا میں پھیل گیا ہے، سو اے بزرگو! دجال معہود یہی ہے جو آ چکا مگر تم نے اسے شناخت نہیں کیا؟‘‘
(ازالہ اوہام، صفحہ:266، مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 3، صفحہ: 366)
مزید ایک مقام پر عیسائی پادریوں کو دجال اکبر قرار دیتے ہوئے مراز غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’قرآن نے تو اپنے صریح لفظوں میں دجال اکبر پادریوں کو ٹھہرایا ہے اور ان کے دجل کو ایسا عظیم الشان دجل قرار دیا کہ قریب ہے جو اس سے زمین و آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور حدیث نے مسیح موعود کی حقیقی علامت یہ بتلائی کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہو گا اور وہ دجال اکبر کو قتل کرے گا۔ ہمارے ناداں مولوی نہیں سوچتے کہ جبکہ مسیح موعود کا خاص کام کسر صلیب اور قتل دجال اکبر ہے اور قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ بڑا دجل اور بڑا فتنہ جس سے قریب ہے کہ نظام اس عالم کو درہم برہم ہو جائے اور خاتمہ اس دنیا کا ہو جائے وہ پادریوں کا فتنہ ہے تو اس سے صاف طور پر کھل گیا کہ پادریوں کے سوا اور کوئی دجال اکبر نہیں ہے اور جو شخص اب اس فتنہ کے ظہور کے بعدکسی اور کی انتظار کرے وہ قرآن کا مکذب ہے۔‘‘
(انجام آتھم، صفحہ: 47 مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 11، صفحہ: 47)
محترم قارئین! اسی تحریر سے قبل مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’دجال بہت گزرے ہیں اور شاید آگے بھی ہوں مگر وہ دجال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ یہی گروہ مشت خاک کو خدا بنانے والا ہے۔ خدا نے یہودیوں اور مشرکوں اور دوسری قوموں کے طرح طرح کے دجل قرآن شریف میں بیان فرمائے مگر یہ عظمت کسی کے دجل کو نہیں دی کہ اس دجل سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ پس جس گروہ کو خدا نے اپنے پاک کلام میں دجال اکبر ٹھہرایا ہمیں نہیں چاہیے کہ اس کے سوا کسی اور کا نام دجال اکبر رکھیں۔ نہایت ظلم ہو گا کہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور دجال اکبر تلاش کیا جائے۔ یہ بات کسی پہلو سے بھی درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دجال ہے جو ان سے بڑا ہے۔ کیونکہ جبکہ خدا نے اپنی پاک کلام میں سب سے بڑا یہی دجل بیان فرمایا ہے تو نہایت بے ایمانی ہوگی کہ خدا کے کلام کی مخالفت کرکے کسی اور کو بڑا دجال ٹھہرایا جائے۔‘‘
(انجام آتھم ص 46، 47، مندرجہ روحانی خزائن جلد: 11، ص46، 47)
محترم قارئین قرآن کریم میں کہیں بھی کسی بھی مقام پر عیسائی پادریوں کو دجال اکبر نہیں ٹھہرایا بلکہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کا قرآن کریم پہ افتراء ہے اگر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ:
(تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّاo اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًاo وَ مَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاo) (مریم : 90 تا 92)
’’قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کہ وہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے۔ شانِ رحمن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔‘‘
محترم قارئین! ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی کسی کو اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم قرار دیا گیا ہے کہ فرمایا قریب ہے اس جرم کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں یا زمین شق ہوجائے۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف صرف عیسائی پادریوں نے اولاد کو منسوب کیا تھا یا کسی اور نے بھی تو آئیے اس بارے میں بھی قرآن کریم سے ہی رہنمائی لیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مقدس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
(وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ) (التوبۃ : 30)
’’اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔‘‘
(اَفَاَصْفٰکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ اِنَاثًا اِنَّکُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًاo) (بنی اسرائیل : 40)
’’کیا بیٹوں کے لیے تو اللہ نے تمہیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لیے فرشتوں کو لڑکیاں بنالیا۔ بے شک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو۔‘‘
محترم قارئین! مندرجہ بالا آیات کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد صرف عیسائیوں نے ہی منسوب نہیں کی بلکہ یہودیوں اور مشرکین نے بھی یہ فعل بد کیا اور تو اور مرزا غلام احمد قادیانی خود بھی اس بدترین فعل کا مرتکب ہوا اور اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہوئے مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ اسے الہام ہوا کہ:
اے مرزا! اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ
ترجمہ: تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔
(بحوالہ تذکرہ، ص : 548، طبع چہارم)
مزید ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر 4 ص 19 (روحانی خزائن جلد 17، ص : 45) میں بابو الٰہی صاحب کی نسبت یہ الہام ہے:
یریدون ان یروا طمثک واللّٰہ یرید ان یریک انعامۃ الا نعامات المتواترۃ انت منِّیْ بمنزلۃ اولادی واللّٰہ ولیک وربک فقلنا یانارکونی بردا.
یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے ایسے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ پیدا ہوگیا ہے جو بمنزلہ اطفال اللہ ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی، ص : 143، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 581)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے جس بنیاد پر عیسائی پادریوں کو دجال اکبر قرار دیا تھا اس کی حقیقت آپ کے سامنے بتوفیق الٰہی کھول دی ہے کہ اس جرم کے مرتکب فقط عیسائی پادری ہی نہیں ہوئے بلکہ یہود،اورمشرکین کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی بذات خود بھی اسی جرم کا مرتکب ہوا ہے تو صرف عیسائی پادری ہی دجال اکبر کیوں؟ یہودی، مشرک اور مرزا غلام احمد قادیانی بذات خود کیوں نہیں؟
محترم قارئین! ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’دجال کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکہ دینے والا اور گمراہ کرنے والا اور خدا کے کلام کی تحریف کرنے والا ہو اس کو دجال کہتے ہیں۔ سو ظاہر ہے کہ پادری لوگ اس کام میں سب سے بڑھ کر ہیں۔‘‘
( تتمہ حقیقۃ الوحی، ص : 24، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، حاشیہ ص 456)
مزید اسی مقام پر مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’قرآن شریف نے ظاہر کردیا کہ وہ دجال پادریوں کا فرقہ ہے۔‘‘
(روحانی خزائن، جلد 22، ص 456)
محترم قارئین! اگر ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی بتائی ہوئی اس تعریف کے مطابق جائزہ لیں تو تب بھی بجائے عیسائی پادریوں کے مرزا غلام احمد قادیانی بذات خود دجال اکبر قرار پاتا ہے کیونکہ اس نے قدم قدم پر قرآن کریم کی نہ صرف معنوی تحریف کی ہے بلکہ لفظی تحریف کا مرتکب بھی ہوا ہے۔
معنوی تحریف کی مثال تو آپ ابتدا میں لیلۃ القدر کے حوالے سے دیکھ ہی چکے ہیں۔ اب ایک مثال لفظی تحریف کی بھی ملاحظہ کرلیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ:
(اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُo) (یٰس : 82)
’’وہ جو کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
اسی آیت کریمہ میں لفظی تحریف کرکے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنا ایک الہام کچھ یوں تشکیل دیا کہ:
اِِنَّمَا اَمْرُکَ اِِذَا اَرَادْتَ شَیْءًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
’’تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہوجاتی ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، ص : 108، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 108)
محترم قارئین! ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی عیسائیت کو دجال قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’پھر دجال کی نسبت بعض کا خیال ہے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اور وہ مخفی ہے اخیر زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ حالانکہ وہ بے چارہ مسلمان ہوچکا اس کی موت اسلام پر ہوئی اور مسلمانوں نے اس کا جنازہ پڑھا۔ اور بعض کا قول ہے کہ دجال کلیسا میں قید ہے یعنی کسی گرجا میں محبوس ہے اور آخر اسی میں سے نکلے گا۔ یہ آخری قول تو صحیح تھا مگر افسوس کہ اس کے معنی باوجود واضح ہونے کے بگاڑ دیے گئے۔ اس میں کیا شک ہے دجال جس سے مراد عیسائیت کا بھوت ہے۔ ایک مدت تک گرجا گھر میں قید رہا ہے اور اپنے دجالی تصرفات سے رکا رہا ہے مگر اب آخری زمانہ میں اس نے قید سے پوری رہائی پائی ہے اور اس کی مشکیں کھول دی گئی ہیں تاکہ جو جو حملے کرنا اس کی تقدیر میں ہے کر گزرے اور بعض کا خیال ہے کہ دجال نوع انسان میں سے نہیں بلکہ شیطان کا نام ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، ص : 42، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 44، 45)
محترم قارئین! یہ بات درست ہے کہ بعض لوگ ابن صیاد کو ہی دجال قرار دیتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ اس کی موت اسلام پر ہوئی اور مسلمانوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی صریح کذب بیانی ہے کیونکہ کسی بھی صحیح الاسناد روایت میں ابن صیاد کی اسلام پر موت اور مسلمانوں کی طرف سے نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ واقعہ حرہ کے بعد وہ غائب ہوگیا اور اس کے بعد کسی کو بھی نظر نہیں آیا۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ بعض نے اسے شیطان قرار دیا ہے تو اس ضمن میں میں پہلے بھی کچھ عرض کرچکا ہوں لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے شیطان سے مراد بھی عیسائیت کا بھوت لیا ہے لہٰذا اس تحریر کے حاشیہ میں لکھتا ہے کہ:
’’اس شیطان کا نام دوسرے لفظوں میں عیسائیت کا بھوت ہے یہ بھوت آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانہ میں عیسائی گرجا میں قید تھا اور صرف جساسہ کے ذریعے سے اسلامی اخبار معلوم کرتا تھا۔ پھر قرون ثلاثہ کے بعد بموجب خبر انبیاءo کے اس بھوت نے رہائی پائی اور ہر روز اس کی طاقت بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں بڑے زور سے اس نے خروج کیا اسی بھوت کا نام دجال ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے اور اسی بھوت سے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے اخیر میں ولا الضالین کی دعا میں ڈرایا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، حاشیہ ص 45)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’قرآن شریف اس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرح سے حکایت کرکے فرماتا ہے کہ قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنo قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَo یعنی شیطان نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ میں اس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مردے جس کے دل مرگئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں خدا نے کہا کہ میں نے تجھے اس وقت تک مہلت دی سو وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہے۔ جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، ص : 41، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 41)
مزید ایک جگہ پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس۔ پس لفظ ناس سے مراد اس جگہ بھی دجال ہے۔‘‘
(ایام الصلح، مندرجہ روحانی خزائن جلد 14، ص 296)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی دجال کو ایک واحد شخص ماننے سے انکاری ہے، حالانکہ نبی کریمe نے اسے ایک شخص قرار دیا ہے اسی لیے مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’ہم پہلے اس سے قرآن شریف سے بھی ثابت کرچکے ہیں کہ دجال ایک گروہ کا نام ہے نہ یہ کہ کوئی ایک شخص اور اس حدیث مذکورہ بالا میں جو دجال کے لیے جمع کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں جیسے یختلون اور ریبسون اور یفترون اور یجترون اور اولئک اور منہم یہ بھی بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ دجال ایک جماعت ہے نہ ایک انسان۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17، ص 236)
اسی تناظر میں ایک اور مقام پر تحریف حدیث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’وہ احادیث واضحہ جو قرآن کی منشاء کے موافق دجال کی حقیقت ظاہر کرتی ہیں وہ اگرچہ بہت ہیں مگر ہم اس جگہ بطور نمونہ ان میں سے درج کرتے ہیں، وہ حدیث یہ ہے: یخرج فی أخر الزماں دجال یختلفون الدنیا بالدین یلبسون للناس جلود الضان من الدین السنتہم احلی من العسل وقلوبہم قلوب الذیاب یقول اللّٰہ عزوجل ابي یغیترون ام علی یجترون حتی حلف لا بعثن علٰی اولئک منہم فتنۃ. (الخ) (کنز العمال جلد نمبر 7، ص 174) یعنی آخری زمانہ میں دجال ظاہر ہوگا وہ ایک مذہبی گروہ ہوگا جو زمین پر جابجا خروج کرے گا اور وہ لوگ دنیا کے طالبوں کو دین کے ساتھ فریب دیں گے یعنی ان کو اپنے دین میں داخل کرنے کے لیے بہت سا مال پیش کریں گے اور ہر قسم کے آرام اور نصرات دینوی کی طمع دیں گے اور اس غرض سے کہ کوئی ان کے دین میں داخل ہوجائے بھیڑوں کی پوستین پہن کر آئیں گے ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے اور خدائے عزوجل فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ میرے حلم پر مغرور ہورہے ہیں کہ میں ان کو جلد تر نہیں پکڑتا اور کیا یہ لوگ میرے پہ افتراء کرنے میں دلیری کر رہے ہیں یعنی میری کتابوں کی تحریف کرنے میں کیوں اس قدر مشغول ہیں میں نے قسم کھائی ہے کہ میں انہی میں سے اور انہی کی قوم میں سے ان پر ایک فتنہ کروں گا۔‘‘ (دیکھو کنز العمال جلد نمبر 7، صفحہ نمبر 174)
اب بتلاؤ کہ کیا اس حدیث سے دجال ایک شخص معلوم ہوتا ہے اور کیا یہ تمام اوصاف جو دجال کے لکھے ہیں یہ آج کل کس قوم پر صادق آرہی ہے یا نہیں؟
(تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 ص 235، 236)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے مندرجہ بالا تحریر میں تحریف حدیث کچھ اس طرح کی ہے کہ حدیث کے اندر جو اصل الفاظ ہیں وہ ’’دجال‘‘ نہیں بلکہ ’’رجال‘‘ ہیں اور یہ حدیث کنز العمال کے مرتب نے جامع ترمذی سے لی ہے۔ جامع ترمذی اور کنز العمال دونوں نسخوں میں لفظ ’’رجال‘‘ ہے نہ کہ دجال۔
محترم قارئین ! ایک مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی علمائے اسلام کو دجالیت کے درخت کی شاخیں قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’ابن صیاد کا آپ( ﷺ) دجال نام رکھا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کو کہا کہ تجھ میں عیسی کی مشابہت پائی جاتی ہے سو عیسی اور دجال کا تخم اسی وقت سے شروع ہوا اور مرور زمانہ کے ساتھ جیسی جیسی ظلمت فتنہ دجالیت کے رنگ میں کچھ زیادتی آتی گئی ویسی ویسی عیسویت کی حقیقت والے بھی اس کے مقابل پر پیدا ہوتے گئے یہاں تک کہ آخری زمانہ میں بباعث پھیل جانے فسق اور فجور اور کفر اور ضلالت اور بوجہ پیدا ہوجانے ان تمام بدیوں کے جو کبھی پہلے اس زور اور کثرت سے پیدا نہیں ہوئی تھیں بلکہ نبی کریم (ﷺ) نے آخری زمانہ ہی ان کا پھیلنا بطور پیشگوئی بیان فرمایا تھا دجالیت کاملہ ظاہر ہو گئی پس اسکے مقابل پر ضرور تھا کہ عیسویت کاملہ بھی ظاہر ہوتی یاد رہے کہ نبی کریم نے جن بد باتوں کے پھیلنے کی آخری زمانہ میں خبر دی ہے اسی مجموعہ کا نام دجالیت ہے جس کی تاریں یا یوں کہو کہ جس کی شاخیں صدہا قسم کی آنحضرت (ﷺ) نے بیان فرمائی ہیں ان میں سے مولوی بھی دجالیت کے درخت کی شاخیں ہیں جنہوں نے لکیر کو اختیار کیا اور قرآن کو چھوڑ دیا۔‘‘
(نشان آسمانی ص 8,9مندرجہ روحانی خزائن جلد 4ص 368,369)
محترم قارئین! اب تک آپ مرزا غلام احمد قادیانی کے دجال کے بارے میں جو موقف ملاحظہ کرچکے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1: دجال سے مراد باقبال قومیں۔
2: دجال سے مراد عیسائی پادری۔
3: دجال سے مراد عیسائیت کا بھوت۔
4: دجال سے مراد شیطان جو کہ ایک شخص ہے۔
5: ناس سے مراد دجال۔
6: دجال ایک جماعت ایک گروہ کا نام۔
7: مولوی دجالیت کے درخت کی شاخیں
اب ہم آپ کو ان سب سے مختلف اور الگ تھلگ مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک اور موقف پیش کرتے ہیں چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’یہ تحقیق شدہ امر ہے اور یہی ہمارا مذہب ہے کہ دراصل دجال شیطان کا اسم اعظم ہے جو بمقابل خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کے لیے جو اللہ الحی القیوم ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ نہ حقیقی طور پر دجال یہود کو کہہ سکتے ہیں نہ نصاریٰ کے پادریوں کو اور نہ کسی اور قوم کو کیونکہ یہ سب خدا کے عاجز بندے ہیں۔ خدا نے اپنے مقابل پر ان کو کچھ اختیار نہیں دیا پس کسی طرح ان کا نام دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 حاشیہ، ص 269)
محترم قارئین! دجال کے بارے میں اتنے سارے مختلف موقف اور نظریات اس مخبوط الحواس شخص کے ہیں جس کا لکھنا ہے کہ دجال، ابن مریم اور یاجوج ماجوج کی حقیقت نبی کریم علیه علیه السلام پر نہیں کھولی گئی تھی۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ مرزا قادیانی خود رقمطراز ہے کہ:
’’اگر آنحضرت صلی الله علیه وسلم پہ ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسیء نمونہ کے موبمو منکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باغ کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کما ہی ظاہر فرمائی گئی ہو اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی خوبی کے ممکن ہے اجمالی طور پر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں؟‘‘
(ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن، جلد 3، ص 473)
محترم قارئین! جیسا کہ میں نے ابتداء میں بتایا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مقصد دین اسلام کے مدمقابل ایک ایسے مذہب کا احیاء کرنا تھا جس کا دین اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد روس اور انگریز ہیں، دجال کے گدھے سے مراد ریل گاڑی اور عیسیٰ ابن مریم سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی خوداور دو زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں جو مرزا قادیانی کو لاحق تھیں جن کے بارے میں خود لکھتا ہے کہ:
’’احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپر کے حصے میں اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصے میں۔ سو میں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ بوجہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین مندرجہ روحانی خزائن، جلد 20، ص 46)
قارئین کرام! قابل غور بات تو یہ ہے کہ حدیث میں دو زرد چادروں کا ذکر ہوا ہے اور مرزا صاحب شکار ہیں تین بیماریوں کے۔ ایک سر کی بیماری دوسری کثرت پیشاب اور تیسری دستوں کی بیماری۔ کثرت پیشاب کا بھی یہ حال کہ بعض دفعہ دن میں سو سو مرتبہ پیشاب کرتا۔ یہ بھی میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ:
’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفہ ایک ایک دن میں پیشاب آتا ہے۔‘‘
(نسیم دعوت مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، ص 434)
محترم قارئین! عرض کر رہا تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک زرد چادروں سے مراد بیماریاں اور لد سے مراد لدھیانہ ہیں تو ایسے میں اگر مرزا غلام احمد قادیانی نے دجال کے کئی ایک معنی کردیے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ ایک ہی مسئلہ پر اتنی متناقض اور متضاد گفتگو کرنے والے کے بارے میں ہم اپنی طرف سے کسی قسم کا فتوی صادر کرنے کی بجائے قادیانیوں کے خود ساختہ نبی جس کے کئی نام مثلاً کرشن کنہیا، جے سنگھ بہادر، آریوں کا بادشاہ وغیرہ ہیں اور جس کے خدا کے نام یلاش، کالا، کالو وغیرہ اس سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب ست بچن میں لکھتا ہے:
’’جو پرلے درجے کا جاہل ہو جو اپنے کلام میں متناقض بیانوں کو جمع کرے اور اس پر اطلاع نہ رکھے۔‘‘
(روحانی خزائن، جلد 10، ص 141)
قادیانی حضرات! آپ خود بھی سوچیے کہ آپ کس شخص کی پیروی کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کر رہے ہیں جو اپنی ہی تحریروں کے تناظر میں نہ صرف پرلے درجے کا جاہل قرار پاتا ہے بلکہ مخبوط الحواس بھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق دے۔ آمین
*۔۔۔*۔۔۔*
تحریر: عبیداللہ لطیف فیصل آباد
Email : ubaidullahlatif@gmail.com
Whatsapp No: 00923046265209, Cell No :00923136265209
محترم قارئین! قبل اس کے کہ آپ پر حقیقت دجال اور دجال کے بارے میں قادیانیت کا نظر یہ بیان کروں پہلے چند ایک حوالہ جات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلام کے نام پر ہی اسلام کے متضاد ایک نیا مذہب متعارف کروایا ہے؟ اس ضمن میں سب سے پہلے لیلتہ القدر جو کہ ایک رات ہے جس کے بارے میں نبی کریم علیه السلام نے فرمایا کہ:
((تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ))
(صحیح بخاری: 2017)
’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
لیکن مرزا غلام احمد قادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ:
’’وہ خدا تعالیٰ سورۃ القدر میں بیان فرماتا ہے بلکہ مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ اس کا کلام اس کا نبی لیلتہ القدر میں آسمان سے اتارا گیا ہے۔ اور یہ ایک مصلح اور مجدد جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلۃ القدر میں ہی اترتا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ لیلتہ القدر کیا چیز ہے۔ لیلتہ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے اس سے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کرے اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلتہ القدر رکھا گیا ہے۔ مگر در حقیقت یہ رات نہیں ہے۔ یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے۔‘‘
(فتح اسلام، صفحہ: 54 مندرجہ روحانی خزائن جلد: 3، صفحہ: 32)
محترم قارئین ! دین اسلام میں انسان جہاں نماز پڑھنے پر اجرو ثواب کا مستحق ہوتا ہے وہیں پر نماز نہ پڑھنے پر عذاب کا حق دار ٹھہرتا ہے لیکن اس کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک نماز پڑھنی چاہیے لیکن اس کا اجر و ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر کوئی عذاب ہو گااسی ضمن سیرت المہدی کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں جس میں مرزا بشیر احمد ابن مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’مائی بھاگو اور مائی بھانو صاحبہ قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیاں بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مائی بھاگو اور بھانو ایک دن مسیح موعود کو پنکھا ہلارہی تھیں کہ مائی بھانو نے دریافت کیا کہ حضور نماز پڑھنے کا ثواب ہوگا ؟ تو حضور نے فرمایا کہ ’’نہ ثواب ہو گا نہ عذاب ہوگا ۔ پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑنی چاہئے ۔‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 195,196روایت نمبر 1302)
محترم قارئین! یہ تو تھا مرزا غلام احمد قادیانی کا لیلة القدر اور نماز کے اجرو ثواب کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس نظریہ۔ قارئین کرام ! اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے عیسیٰ علیه السلام کے قرآن مجید میں مذکور تمام تر معجزات کا نہ صرف انکار کیا ہے بلکہ ان معجزات کو بھی ماننا اور ان پر ایمان لانا مشرکانہ عقیدہ قرار دیا ہے۔ اور دجال اور یاجوج ماجوج اور دجال کے گدھے کے بارے میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی مکمل طور پر اسلام کے برعکس عقیدہ رکھتا ہے۔
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد انگریز اور روس ہیں۔ اور دجال سے کبھی دنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھیں نہیں رکھتے، تو کبھی علمائے اسلام تو کبھی عیسائی پادری مراد ہیں۔ اسی طرح خرد دجال سے مراد ریل گاڑی ہے۔ الغرض مرزا غلام احمد قادیانی نے دین اسلام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اور اسلام کے نام پر ہی اسلام کے متوازی ایک نیا دین متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔
محترم قارئین! عیسیٰ علیه السلام کے تمام تر معجزات سے انکار اور معجزات کا من و عن ایمان لانے والے عقائد کو مشرکانہ قرار دینے کی تحریریں پیش کرنے سے گریز کر رہا ہوں اگر کسی کو بھی اگر کوئی حوالہ درکار ہو تو میرے وٹس اپ نمبر اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کر سکتا ہے جو مضمون کے شروع میں دیا گیا ہے۔ اب آتے ہیں دجال کی حقیقت کی طرف فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے کہ:
((عَنْ عَامِرُ بْنُ شَرَاحِیلَ الشَّعْبِیُّ شَعْبُ ہَمْدَانَ اَنَّہٗ سَاَلَ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ اُخْتَ الضَّحَّاکِ بْنِ قَیْسٍ وَکَانَتْ مِنَ الْمُہَاجِرَاتِ الْاُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِینِی حَدِیثًا سَمِعْتِیہٖ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ لَا تُسْنِدِیہٖ اِلَی اَحَدٍ غَیْرِہٖ فَقَالَتْ لَنْ شِءْتَ لَاَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَہَا اَجَلْ حَدِّثِینِی فَقَالَتْ نَکَحْتُ ابْنَ الْمُغِیرَۃِ وَہُوَ مِنْ خِیَارِ شَبَابِ قُرَیْشٍ یَوْمَءِذٍ فَاُصِیبَ فِیْ اَوَّلِ الْجِہَادِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَلَمَّا تَاَیَّمْتُ خَطَبَنِی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فِیْ نَفَرٍ مِنْ اَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہﷺ وَخَطَبَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَلَی مَوْلَاہٗ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ وَکُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ مَنْ اَحَبَّنِی فَلْیُحِبَّ اُسَامَۃَ فَلَمَّا کَلَّمَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ قُلْتُ اَمْرِی بِیَدِکَ فَاَنْکِحْنِی مَنْ شِءْتَ فَقَالَ انْتَقِلِی اِلَی اُمِّ شَرِیکٍ وَاُمُّ شَرِیکٍ امْرَاَۃٌ غَنِیَّۃٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ عَظِیمَۃُ النَّفَقَۃِ فِیْ سَبِیلِ اللّٰہِ یَنْزِلُ عَلَیْہَا الضِّیفَانُ فَقُلْتُ سَاَفْعَلُ فَقَالَ ((لَا تَفْعَلِی اِنَّ اُمَّ شَرِیکٍ امْرَاَۃٌ کَثِیرَۃُ الضِّیفَانِ فَاِنِّی اَکْرَہٗ اَنْ یَسْقُطَ عَنْکِ خِمَارُکِ اَوْ یَنْکَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَیْکِ فَیَرٰی الْقَوْمُ مِنْکِ بَعْضَ مَا تَکْرَہِینَ وَلٰکِنِ انْتَقِلِی اِلَی ابْنِ عَمِّکِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ اُمِّ مَکْتُومٍ)) وَہُوَ رَجُلٌ مِّنْ بَنِی فِہْرٍ فِہْرِ قُرَیْشٍ وَہُوَ مِنَ الْبَطْنِ الَّذِی ہِیَ مِنْہٗ فَانْتَقَلْتُ اِلَیْہِ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِی سَمِعْتُ نِدَآءَ الْمُنَادِی مُنَادِی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ یُنَادِی الصَّلَاۃَ جَامِعَۃً فَخَرَجْتُ اِلَی الْمَسْجِدِ فَصَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَکُنْتُ فِیْ صَفِّ النِّسَآءِ الَّتِی تَلِی ظُہُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضٰی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ صَلٰوتَہٗ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَہُوَ یَضْحَکُ فَقَالَ ((لِیَلْزَمْ کُلُّ اِنْسَانٍ مُصَلَّاہٗ)) ثُمَّ قَالَ ((اَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُکُمْ)) قَالُوا اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ اَعْلَمُ قَالَ اِنِّی وَاللّٰہِ مَا جَمَعْتُکُمْ لِرَغْبَۃٍ وَلَا لِرَہْبَۃٍ وَلٰکِنْ جَمَعْتُکُمْ لِاَنَّ تَمِیمًا الدَّارِیَّ کَانَ رَجُلًا نَصْرَانِیًّا فَجَآءَ فَبَایَعَ وَاَسْلَمَ وَحَدَّثَنِی حَدِیثًا وَافَقَ الَّذِی کُنْتُ اُحَدِّثُکُمْ عَنْ مَسِیحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِی اَنَّہٗ رَکِبَ فِیْ سَفِینَۃٍ بَحْرِیَّۃٍ مَعَ ثَلَاثِینَ رَجُلًا مِّنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِہٖمْ الْمَوْجُ شَہْرًا فِیْ الْبَحْرِ ثُمَّ اَرْفَءُوا اِلَی جَزِیرَۃٍ فِیْ الْبَحْرِ حَتّٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِیْ اَقْرُبْ السَّفِینَۃِ فَدَخَلُوا الْجَزِیرَۃَ فَلَقِیَتْہُمْ دَابَّۃٌ اَہْلَبُ کَثِیرُ الشَّعَرِ لَا یَدْرُونَ مَا قُبُلُہٗ مِنْ دُبُرِہٖ مِنْ کَثْرَۃِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَیْلَکِ مَا اَنْتِ فَقَالَتْ اَنَا الْجَسَّاسَۃُ قَالُوا وَمَا الْجَسَّاسَۃُ قَالَتْ اَیُّہَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا اِلَی ہٰذَا الرَّجُلِ فِیْ الدَّیْرِ فَاِنَّہٗ اِلَی خَبَرِکُمْ بِالْاَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْہَا اَنْ تَکُونَشَیْطَانَۃً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتّٰی دَخَلْنَا الدَّیْرَ فَاِذَا فِیہِ اَعْظَمُ اِنْسَانٍ رَاَیْنَاہٗ قَطُّ خَلْقًا وَاَشَدُّہٗ وِثَاقًا مَجْمُوعَۃٌ یَدَاہٗ اِلَی عُنُقِہٖ مَا بَیْنَ رُکْبَتَیْہٖ اِلَی کَعْبَیْہٖ بِالْحَدِیدِ قُلْنَا وَیْلَکَ مَا اَنْتَ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَی خَبَرِی فَاَخْبِرُونِی مَا اَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ اُنَاسٌ مِّنَ الْعَرَبِ رَکِبْنَا فِیْ سَفِینَۃٍ بَحْرِیَّۃٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِینَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَہْرًا ثُمَّ اَرْفَاْنَا اِلَی جَزِیرَتِکَ ہَذِہٖ فَجَلَسْنَا فِیْ اَقْرُبِہَا فَدَخَلْنَا الْجَزِیرَۃَ فَلَقِیَتْنَا دَابَّۃٌ اَہْلَبُ کَثِیرُ الشَّعَرِ لَا یُدْرٰی مَا قُبُلُہٗ مِنْ دُبُرِہٖ مِنْ کَثْرَۃِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَیْلَکِ مَا اَنْتِ فَقَالَتْ اَنَا الْجَسَّاسَۃُ قُلْنَا وَمَا الْجَسَّاسَۃُ قَالَتْ اعْمِدُوا اِلَی ہٰذَا الرَّجُلِ فِیْ الدَّیْرِ فَاِنَّہٗ اِلَی خَبَرِکُمْ بِالْاَشْوَاقِ فَاَقْبَلْنَا اِلَیْکَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْہَا وَلَمْ نَاْمَنْ اَنْ تَکُونَ شَیْطَانَۃً فَقَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ نَخْلِ بَیْسَانَ قُلْنَا عَنْ اَیِّ شَاْنِہَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ اَسْاَلُکُمْ عَنْ نَخْلِہَا ہَلْ یُثْمِرُ قُلْنَا لَہٗ نَعَمْ قَالَ اَمَا اِنَّہٗ یُوشِکُ اَنْ لَا تُثْمِرَ قَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ بُحَیْرَۃِ الطَّبَرِیَّۃِ قُلْنَا عَنْ اَیِّ شَاْنِہَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ ہَلْ فِیہَا مَآءٌ قَالُوا ہِیَ کَثِیرَۃُ الْمَآءِ قَالَ اَمَا اِنَّ مَآءَہَا یُوشِکُ اَنْ یَّذْہَبَ قَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ عَیْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ اَیِّ شَاْنِہَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ ہَلْ فِیْ الْعَیْنِ مَآءٌ وَہَلْ یَزْرَعُ اَہْلُہَا بِمَآءِ الْعَیْنِ قُلْنَا لَہٗ نَعَمْ ہِیَ کَثِیرَۃُ الْمَآءِ وَاَہْلُہَا یَزْرَعُونَ مِنْ مَآءِہَا قَالَ اَخْبِرُونِی عَنْ نَبِیِّ الْاُمِّیِّینَ مَا فَعَلَ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَکَّۃَ وَنَزَلَ یَثْرِبَ قَالَ اَقَاتَلَہٗ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ کَیْفَ صَنَعَ بِہٖمْ فَاَخْبَرْنَاہٗ اَنَّہٗ قَدْ ظَہَرَ عَلَی مَنْ یَلِیہٖ مِنَ الْعَرَبِ وَاَطَاعُوہٗ قَالَ لَہُمْ قَدْ کَانَ ذٰلِکَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ اَمَا اِنَّ ذَاکَ خَیْرٌ لَہُمْ اَنْ یُّطِیعُوہٗ وَاِنِّی مُخْبِرُکُمْ عَنِّی اِنِّی اَنَا الْمَسِیحُ وَاِنِّی اُوشِکُ اَنْ یُّؤْذَنَ لِی فِیْ الْخُرُوجِ فَاَخْرُجَ فَاَسِیرَ فِیْ الْاَرْضِ فَلَا اَدَعَ قَرْیَۃً اِلَّا ہَبَطْتُہَا فِیْ اَرْبَعِینَ لَیْلَۃً غَیْرَ مَکَّۃَ وَطَیْبَۃَ فَہُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَیَّ کِلْتَاہُمَا کُلَّمَا اَرَدْتُ اَنْ اَدْخُلَ وَاحِدَۃً اَوْ وَاحِدًا مِنْہُمَا اسْتَقْبَلَنِی مَلَکٌ بِیَدِہٖ السَّیْفُ صَلْتًا یَصُدُّنِی عَنْہَا وَاِنَّ عَلَی کُلِّ نَقْبٍ مِّنْہَا مَلَآءِکَۃً یَحْرُسُونَہَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہﷺ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِہٖ فِیْ الْمِنْبَرِ ہَذِہٖ طَیْبَۃُ ہَذِہٖ طَیْبَۃُ ((ہَذِہٖ طَیْبَۃُ یَعْنِی الْمَدِینَۃَ اَلَا ہَلْ کُنْتُ حَدَّثْتُکُمْ ذٰلِکَ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَاِنَّہٗ اَعْجَبَنِی حَدِیثُ تَمِیمٍ اَنَّہٗ وَافَقَ الَّذِی کُنْتُ اُحَدِّثُکُمْ عَنْہٗ وَعَنِ الْمَدِینَۃِ وَمَکَّۃَ اَلَا اِنَّہٗ فِیْ بَحْرِ الشَّاْمِ اَوْ بَحْرِ الْیَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ)) وَاَوْمَاَ بِیَدِہٖ اِلَی الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ))
! صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، رقم : ۷۳۸۶. [طبع: دارالسلام]
’’ابن بریدہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے عامر بن شراحیل شعبی نے، جن کا تعلق ہمدان سے تھا، حدیث بیان کی، انہوں نے ضحاک بن قیسؓ کی ہمشیرہ سیدہ فاطمہ بنت قیسr سے سوال کیا، وہ اولین ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں، کہ آپ مجھے رسول اللہﷺ سے (بلاواسطہ) سنی ہو، آپﷺ کے علاوہ کسی اور کی طرف اسے منسوب نہ کریں۔ انہوں نے کہا: اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں ایسا ہی کروں گی۔ انہوں نے ان (حضرت فاطمہ بنت قیسؓ) سے کہا: بہت بہتر، سنائیے۔ انہوں نے کہا: میرا نکاح (عبد الحمید بن حفص) ابن مغیرہ سے ہوا۔ وہ اس وقت قریش کے بہترین نوجوانوں میں سے تھے۔ وہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ (اپنے) پہلے جہاد میں زخمی بھی ہوئے تھے۔ جب میری شاد ی ختم ہو گئی (طلاق ہو گئی) تو رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے کئی لوگوں کے ساتھ ساتھ عبد الرحمان بن عوفؓ نے بھی مجھے نکاح کا پیغام بجھوایا۔ رسول اللہﷺ نے مجھے اپنے آزاد کردہ غلام (کے بیٹے) اسامہ بن زیدؓ کے لیے نکاح کا پیغام دیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے وہ اسامہ سے بھی محبت کرے۔‘‘ جب رسول اللہﷺ نے میرے ساتھ گفتگو فرمائی تو میں نے آپ سے کہہ دیا: میرا معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ام شریک کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔‘‘ ام شریکؓ انصار میں سے ایک مال دار خاتون تھیں، ان کے ہاں مہمان آتے رہتے تھے۔ میں نے کہا: میں ایسا ہی کروں گی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے (دوبارہ یہ) فرمایا: ’’تم ایسا نہ کرو۔ ام شریک ایسی خاتون ہیں جن کے ہاں زیادہ مہمان آتے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تمہاری اوڑھنتی گر جائے یا تمہاری پنڈلی سے کپڑا ہٹ جائے تو لوگوں میں سے کسی کی نظر (ایسی جگہ) پڑے جو تمہیں ناگوار ہو، بلکہ تم اپنے چچا زاد عبد اللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔‘‘ وہ قبیلہ فہر، یعنی قریش کے فہر سے تے۔ وہ اسی قبیلے میں سے تھے جس سے وہ تعلق رکھتی تھیں، تو میں ان کی طرف منتقل ہوگئی۔
جب میری عدت گزر گئی تو میں نے ایک اعلان کرنے والے کی آواز سنی، رسول اللہﷺ کا اعلان کرنے والا کہہ رہا تھا: ’’نماز کی جماعت ہونے والیہے۔‘‘ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں عورتوں کی اس صفت میں تھی جو مردوں کی پشت پر (عورتوں کی پہلی صف) تھی۔ جب رسول اللہﷺ نے نماز ادا فرمالی تو آپ (خوشی کے عالم میں) ہنستے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمای: ’’ہر انسان اپنی نماز ہی کی جگہ پر بیٹھا رہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تم لوگوں کو کیوں اکٹھا کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہیں۔ آپe نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں نہ (کسی خاص بات کی) رغبت دلانے کے لیے اکٹھا کیا ہے، نہ (کسی خاص چیز) سے ڈرانے کے لیے۔ میں نے تمہیں اس لیے اکٹھا کیا ہے کہ تمیم داری نے، جو ایک نصرانی شخص تھے، آئے ہیں اور انہوں نے بیعت کی ہے اور اسلام لائے ہیں، (انہوں نے) مجھے ایک بات سنائی ہے جو اس کے مطاق ہے جو میں تمہیں مسیح دجال (جھوٹے مسیح) کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لخم اور جذام کے تیس لوگوں ے ساتھ ایک سمندری بیڑے میں سوار ہوئے۔ سمندر کی موج (سمندری طوفان) مہینہ بھر انہیں سمندر میں ادھر ادھر پٹختی رہی، یہاں تک کہ (ایک دن) غروب آفتاب کے وقت وہ سمندر میں ایک جزیرے کے کنارے جا لگے، وہ بیڑے کی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھے، اور جزیرے میں داکل ہو گئے تو انہیں موٹے اور گھنے بالوں والا ایک جاندار ملا۔ بالوں کی کثرت کی بناء پر لوگوں کو اس کے آگے پیچھے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ انہوں نے اس سے کہا: تیری خرابی! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (بہت زیادہ جاسوسی کرنے والی) ہوں، انہوں نے کہا: جساسہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم لوگ دیر( راہبوں کی عمارت) میں موجود اس شخص کی طرف چلو، وہ تمہاری خبروں کا سخت مشتاق ہے۔ جب اس نے ایک شخص کا نام لیا تو ہمیں اس کے بارے میں خوف ہوا کہ یہ (جساسہ) کوئی شیطان ہے۔ انہوں نے کہا: ہم تیزی سے چلتے ہوئے اس دیر میں داخل ہوئے تو ہاں، جو ہم نے کبھی دیکھا ہو، اس سے زیادہ عظیم الخلقت انسان تھا جو انتہائی سختی سے بندھا ہوا تھا، اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندے ہوئے تھے، اس کے گھٹنوں سے لے کر تخنوں تک کا حصہ لوہے (کی زنجیروں) کے ساتھ جکڑا ہو اتھا۔ ہم نے کہا: تیرا برا ہو! توکون ہے؟ اس نے کہا: تمہیں میرے بارے میں جاننے کا موقع مل گیا، اس لیے تم مجھے بتاؤ کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، ہم سمندر میں (بیڑے پر) سوار ہوئے اور اتفاقا ہم اس وقت سمندر میں اترے جب اس میں بڑا طوفان اتھا، ایک مہینے تک موجیں ہمارے ساتھ کھیلتی (ادھر ادھر پٹختی) رہیں، پھر ہم تمہارے اس جزیرے کے کنارے آ لگے، ہم اس (بیڑے) کی کشیتوں میں بیٹھے اور جزیرے میں آگئے۔ ایک موٹے گھنے والوں والا جاندار ملا، بالوں کی کثرت کی بنا پر ہمیں اس کے آگے پیچھے کا بھی پتہ نہیں چلا۔ ہم نے کہا: تمہار برائی ہو! تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساساہ ہوں۔ ہم نے کہا: اور جساسہ کیا؟ اس نے کہا: اس آدمی کی طرف چلو جو اس دیر کی عمار ت میں ہے، وہ تمہاری خبروں کا سخت مشتاق ہے۔ ہم جلدی سے تمہارے پاس پہنچ گئے ہیں، اس سے ہمیں سخت ڈر لگا ہے، ہم اس بات سے خود کو محفوظ نہیں سمجھتے کہ وہ کوئی مادہ شیطان ہو۔
اس نے کہا: مجھے (علاقہ) بیسان کی کھجوروں کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: تم ان کی کس بات کی خبر معلوم کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں تم اسے اس کے کھجور کے درختوں کے بارے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ پھل دیتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا: ہاں، اس نے کہا: وہ وقت قریب ہے کہ وہ پھل نہیں دیں گے۔ اس نے کہا: مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: اس کی کس بات کی خبر چاہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا اس میں پانی ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں بہت پانی ہے، اس نے کہا؛ قریب ہے کہ اس کا پانی (گہرائی میں) چلا جائے۔ اس نے کہا: مجھے (شام کے علاقے) زغر کے چشمے کے بارے میں بتاؤ، انہوں نے کہا: اس کی کس بات کی خبر چاہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا چشمے میں پانی ہے اور کیا وہاں کے باشندے چشمے کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں؟ ہم نے اسے کہا: ہاں، اس میں بہت پانی ہے اور اس کے باشندے اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اس نے کہا: مجھے امیوں (اہل عرب) کے نبی (ﷺ) کے بارے میں بتاؤ، اس نے کیا کی؟ انہوں نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ میں سکونت پذیر ہو گئے ہیں۔ اس نے کہا: کیا عرب نے اس کے ساتھ جنگیں لڑیں؟ ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: اس نبیﷺ نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ تو ہم نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ارد گرد کے عربوں پر غالب آگئے ہیں۔ اور انہوں نے آپﷺ کی اطاعت اختیار کر لی ہے۔۔۔ انہوں نے کہا۔۔۔ اس نے ان سے کہا: یہ ہو چکا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں۔
؛اس نے کہا: یہ بات ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس نبیﷺ کی اطاعت کریں اور میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں ہی مسیح دجال ہوں اور مجھے عنقریب نکلنے کی اجازت مل جائے۔ گی۔ میں نکل کر زمین میں (ہر جگہ) جاؤں گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا کوئی بستی نہیں چھوڑوں گا، چالیس راتوں کے اندر سب (بستیوں) میں اتروں گا۔ وہ دونوں (مکہ اور مدینہ) میرے لیے حرام کر دیے گئے ہیں۔ میں جب بھی کسی ایک میں یا (کہا:) دونوں میں سے ایک میں داخل ہونا چاہوں گا، ایک فرشتہ میرے سامنے آجائے گا جس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تلوار ہو گی۔ وہ مجھے اس (میں جانے) سے روک دے گا۔ اس کے ہر راستے پر فرشتے اس کا پہرہ دے رہے ہوں گے۔ (فاطمہ بنت قیسؓ نے) کہا: رسول اللہﷺ نے اپنے عصائے مبار ک کو منبر پر مارا اور فرمایا:’’یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے۔‘‘ آپﷺ کی مراد مدینہ سے تھی۔ ’’خبردار! کیا میں نے تمہیں یہ باتیں بتائیں نہ تھیں؟‘‘ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے تمیم کی ات اچھی لگی، وہ اسی کے مطابا ہے جو میں نے تم لوگوں کو بتایا تھا اور جو کچھ مکہ اور مدینہ کے متعلق بتایا تھا۔ یاد رکھو! وہ شام کے سمندر میں ہو سکتا ہے یا یمن کے سمندر میں ہو سکتا ہے، نہیں بلکہ مشرق کی طرف ہوگا،جو بھی وہ ہے، مشرق کی طرف ہو گا، جو بھی وہ ہے، مشرق کی طرف ہو گا، جو بھی وہ ہے۔‘‘ اور آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ انہوں نے (حضرت فاطمہ بنت قیسؓ) نے کہا: میں نے یہ (حدیث) رسول اللہﷺ سے (سن کر) حفظ کر لی۔‘‘
((عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ أَخَّرَ الْعِشَاءَ الْآخِرَۃَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ إِنَّہُ حَبَسَنِی حَدِیثٌ کَانَ یُحَدِّثُنِیہِ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ عَنْ رَجُلٍ کَانَ فِی جَزِیرَۃٍ مِنْ جَزَاءِرِ الْبَحْرِ فَإِذَا أَنَا بِامْرَأَۃٍ تَجُرُّ شَعْرَہَا قَالَ مَا أَنْتِ قَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَۃُ اذْہَبْ إِلَی ذَلِکَ الْقَصْرِ فَأَتَیْتُہُ فَإِذَا رَجُلٌ یَجُرُّ شَعْرَہُ مُسَلْسَلٌ فِی الْأَغْلَالِ یَنْزُو فِیمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقُلْتُ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا الدَّجَّالُ خَرَجَ نَبِیُّ الْأُمِّیِّینَ بَعْدُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَطَاعُوہُ أَمْ عَصَوْہُ قُلْتُ بَلْ أَطَاعُوہُ قَالَ ذَاکَ خَیْرٌ لَہُمْ))
(رواہ ابوداؤد کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب فی الحسانہ 3626/2)
’’حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اکرمﷺ عشاء کی نماز کے لیے دیر سے تشریف لائے اور فرمایا: مجھے تمیم داری (ایک عیسائی عالم جو بعد میں مسلمان ہوگئے) کی ان باتوں نے روک لیا تھا جو وہ مجھ سے کر رہا تھا۔ تمیم نے ایک آدمی کے حوالے سے مجھے بتایا کہ وہ آدمی سمندر کے کسی جزیرہ پر (کشتی کے سمندری طوفان میں پھنس جانے کی وجہ سے) پہنچ گیا جہاں اسے ایک عورت ملی جو اپنے بالوں کو کھینچ رہی تھی۔ اس آدمی نے عورت سے پوچھا: تو کون ہے؟ عورت نے جواب دیا میں (دجال کی) جاسوس ہوں تو ذرا اس محل کی طرف آ۔ میں اس محل میں چلا گیا وہاں میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو بالوں کو کھینچ رہا تھا طوق و سلاسل میں جکڑا ہوا تھا اور زمین و آسمان کے درمیان اچھل کود کر رہا تھا میں نے پوچھا: تو کون ہے؟ اس آدمی نے جواب دیا: میں دجال ہوں۔ پھر دجال نے پوچھا: کیا امیوں کے نبی ظاہر ہوگئے؟ اس آدمی نے جواب دیا: ہاں۔ دجال نے پوچھا: لوگوں نے اس کی اطاعت کی ہے یا نافرمانی؟ اس آدمی نے کہا: اطاعت۔ دجال نے کہا یہ ان کے لیے اچھا ہے۔‘‘
دوسری حدیث میں موجود ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس صاف ابن صیاد پر بھی دجال ہونے کا شبہ کیا، تو وہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں۔
((عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَمَرَرْنَا بِصِبْیَانٍ فِیہِمْ ابْنُ صَیَّادٍ فَفَرَّ الصِّبْیَانُ وَجَلَسَ ابْنُ صَیَّادٍ فَکَاَنَّ رَسُولَ اللّٰہﷺکَرِہَ ذٰلِکَ فَقَالَ لَہٗ النَّبِی ﷺ تَرِبَتْ یَدَاکَ اَتَشْہَدُ اَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ فَقَالَ لَا بَلْ تَشْہَدُ اَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ذَرْنِی یَا رَسُولَ اللّٰہِ حَتّٰی اَقْتُلَہٗ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اِنْ یَّکُنِ الَّذِی تَرٰی فَلَنْ تَسْتَطِیعَ قَتْلَہٗٗ.)) (رواۃ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر ابن صیاد)
’’حضرت عبد اللہ (بن مسعودؓ) کہتے ہیں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ہمارا گزر بچوں سے ہوا جن میں ابن صیاد بھی تھا۔ تمام بچے بھاگ گئے لیکن ابن صیاد بیٹھا رہا۔ آپﷺ کو یہ بات بری لگی۔ آپﷺ نے فرمایا: تیرے ہاتھ غبار آلود ہوں کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہون؟ وہ بولا: نہیں۔ پھر ابن صیاد کہنے لگا کیا تو (یعنی حضرت محمدﷺ) گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت عمرؓ (جو کہ آپﷺ کے ساتھ تھے) نے کہا: یارسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیں میں اسے قتل کردوں۔ (ارتداد کی وجہ سے) رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر یہ وہی ہے جس کا تجھے شک ہے (یعنی دجال) تو پھر تو اسے قتل نہیں کرسکتا۔ (اور اگر کوئی اور ہے تو اسے قتل کرنے کا فائدہ نہیں)۔‘‘
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ:
((عَنْ اَبِی سَعِیدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ لِی ابْنُ صَآءِدٍ وَاَخَذَتْنِی مِنْہٗ ذَمَامَۃٌ ہٰذَا عَذَرْتُ النَّاسَ مَا لِی وَلَکُمْ یَااَصْحَابَ مُحَمَّدٍ اَلَمْ یَقُلْ نَبِیُّ اللّٰہِ ﷺ اِنَّہٗ یَہُودِیٌّ وَقَدْ اَسْلَمْتُ قَالَ وَلَا یُولَدُ لَہٗ وَقَدْ وُلِدَ لِی وَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ عَلَیْہِ مَکَّۃَ وَقَدْ حَجَجْتُ قَالَ فَمَا زَالَ حَتّٰی کَادَ اَنْ یَّاْخُذَ فِیَّ قَوْلُہٗ قَالَ فَقَالَ لَہٗ اَمَا وَاللّٰہِ اِنِّی لَاَعْلَمُ الْآنَ حَیْثُ ہُوَ وَاَعْرِفُ اَبَاہٗ وَاُمَّہٗ قَالَ وَقِیلَ لَہٗ اَیَسُرُّکَ اَنَّکَ ذَاکَ الرَّجُلُ قَالَ فَقَالَ لَوْ عُرِضَ عَلَیَّ مَا کَرِہْتُ.))
(رواۃ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر ابن صیاد)
’’حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں ابن صائد نے مجھ سے کچھ باتیں کیں جن کی وجہ سے مجھے (اسے برا کہنے میں) شرم محسوس ہوئی کہنے لگا: میں نے اپنے بارے میں لوگوں سے معذرت کی (کہ میں دجال نہیں( لیکن اے اصحابِ رسولﷺ! معلوم نہیں تمہیں میرے بارے میں کیا (گمان) ہوگیا ہے کیا رسول اللہﷺ نے نہیں فرمایا کہ دجال یودی ہوگا اور میں تو مسلمان ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دجال کی اولاد نہیں ہوگی اور میری اولاد ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے دجال کا مکہ میں داخل ہونا حرام کیا ہے اور میں نے تو حج کیا ہے۔ وہ ایسی باتیں کرتا رہا قریب تھا کہ میں اس کی باتوں پر یقین کرلیتا لیکن ساتھ ہی اس نے کہا: واللہ! میں اچھی طرح جانتا ہوں دجال اس وقت کہاں ہے؟ اس کے ماں باپ کو پہچانتا ہوں۔ لوگوں نے ابن صائد سے پوچھا: تجھے پسند ہے کہ تو ہی دجال ہو؟ کہنے لگا: اگر مجھے بنایا جائے تو میں ناپسند نہیں کروں گا۔‘‘
محترم قارئین! بعض لوگ ابن صیاد کو ہی دجال سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریمﷺ نے واضح طور پر اسے دجال قرار نہیں دیا بلکہ اس پر صرف شبہ کا اظہار کیا ہے اگر ہم ابن صیاد کو ہی دجال قرار دیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مسلمان بھی ہوا اس کی اولاد بھی ہوئی اور وہ مکہ میں بھی داخل ہوا تو پھر وہ دجال کیسے، کیونکہ فرمان رسولﷺ کے مطابق تو دجال کی اولاد بھی نہیں ہونا تھی اور نہ ہی وہ مکہ میں داخل ہو سکتا تھا تو اس کا جواب بھی صحیح مسلم کی روایت کے آخر میں موجود ہے کہ جب ابن صیاد سے لوگوں نے پوچھا کہ تجھے پسند ہے کہ تو ہی دجال ہو؟ کہنے لگا اگر مجھے بنایا جائے تو میں نا پسند نہیں کروں گا۔ جبکہ ایک اور روایت میں ہے کہ واقعہ حرہ کے بعد وہ غائب ہو گیا تھا تو کیا اس بات کا امکان نہیں ہو سکتا کہ اللہ رب العزت نے اسے ہی دجال بنا کر ایک جزیرے پر جکڑ دیا ہو۔
اس بات پر دوسری طرف سے اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ تمیم داریؓ والی حدیث میں واضح طور پر موجود ہے کہ اس نے ان سے سوال کیا کہ امیوں کے نبی کا کیا ہوا؟ دجال کا یہی سوال کرنا ان تمام دلائل کو رد کرتا ہے جو ابن صیاد کو دجال قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہو چکی ہے کہ ابن صیاد تو مسلمان ہو چکا تھا اور پھر اس کی ملاقات بھی نبی کریمﷺ سے ہوئی تو پھر دجال کا یہ سوال کرنا نہیں بنتا کہ امیوں کے نبی کا کیا ہوا۔ اس تمام بحث سے پتہ چلا کہ ابن صیاد پر بھی شیطان ہاوی تھا اور وہ مکمل طور پر اپنے شیطان کے زیر اثر تھا جن وجہ سے اس پر شبہ کا اظہار کیا گیا نہ کہ اسے سو فیصد دجال قرار دیا گیا۔ اس بحث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریمﷺ پر دجال کے بارے میں علم بھی بتدریج دیا گیا نہ کہ ایک ہی وقت میں یہی وجہ تھی کہ ابن صیاد کے بارے میں صرف شبہ کا اظہار کیا گیا لیکن جب تمیم داریؓ کا واقعہ پیش آیا تو نبی کریمﷺ نے واضح کر دیا کہ جو جزیرے میں قید ہے وہی دجال ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دجال انسانوں میں سے ہو گا یا شیاطین میں سے اس پر بھی علمائے کرام کا اختلاف ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کا اس بارے میں کوئی فرمان موجود نہیں ہے کہ جس میں صریح لفظوں میں انسان یا شیطان قرار دیا گیا ہو۔ اسی ضمن میں جو لوگ اسے انسان خیال کرتے ہیں وہ دجال کے انسان ہونے پر جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ تمیم داریؓ والی حدیث میں دجال کو دیکھنے پر تمیم داریؓ نے یہ الفاظ استعمال کیے۔
((فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتّٰی دَخَلْنَا الدَّیْرَ فَاِذَا فِیہِ اَعْظَمُ اِنْسَانٍ رَاَیْنَاہٗ قَطُّ)) (مسلم)
’’ہم جلدی سے اس گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی شکل آدمی دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی آدمی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
اسی طرح دجال کو انسان سمجھنے والے یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ مسند احمد میں ہے کہ :
((یَخْرُجُ الدَّجَال مِنْ یَھُوْدِیَّہِ اصْبَھَانَ، مَعَہُ یَبْعُوْن الْغَاء مِنَ الْیَھُوْدِ عَلَیْھِمْ الیجان))
’’دجال کا خروج سر زمین اصبہان ہے اور یہودیہ نامی قبیلے سے ہو گا اور یہود میں سے ستر ہزار ایسے افراد دجال کی پیروی کریں گے جن پر سبز چادریں ہوں گی۔‘‘
محترم قارئین! یہ تمام دلائل اپنی جگہ لیکن دوسری طرف صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ
((عَنْ اَبِی سَعِیدٍ قَالَ لَمَّا رَجَعَ النَّبِیّﷺ مِنْ تَبُوکَ سَاَلُوہٗ عَنِ السَّاعَۃِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہﷺ لَا تَاْتِی مِاءَۃُ سَنَۃٍ وَعَلَی الْاَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَۃٌ الْیَوْمَ)) (صحیح مسلم: 6485)
’’حضرت ابو سعید خدریؓ کے روایت ہے کہ جب نبیﷺ غزوہ تبوک سے واپس آئے تو اس کے بعد لوگوں نے آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کیا رسول اللہﷺ نے فرمایا: سو سال نہیں گزریں گے کہ آج زمین پر سانس لیتا ہوا کوئی شخص موجود ہو (اس سے پہلے یہ سب ختم ہو جائیں گے)۔
((اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ ذَاتَ لَیْلَۃٍ صَلٰوۃَ الْعِشَآءِ فِیْ آخِرِ حَیَاتِہٖ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ اَرَاَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ہَذِہٖ فَاِنَّ عَلَی رَاْسِ مِاءَۃِ سَنَۃٍ مِنْہَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ہُوَ عَلَی ظَہْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَوَہَلَ النَّاسُ فِیْ مَقَالَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ تِلْکَ فِیمَا یَتَحَدَّثُونَ مِنْ ہَذِہٖ الْاَحَادِیثِ عَنْ مِاءَۃِ سَنَۃٍ وَاِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ہُوَ الْیَوْمَ عَلَی ظَہْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ یُرِیدُ بِذٰلِکَ اَنْ یَّنْخَرِمَ ذٰلِکَ الْقَرْن))
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہؓ حدیث: 6479)
’’عبداللہ بن عمرؓ نے کہا : نبیﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخر ی حصے میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا تم لوگوں نے اپنی اس رات کو دیکھا ہے؟ (اسے یاد رکھو) بلاشبہ اس رات سے سو سال کے بعد جو لوگ (اس رات میں) روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں ہو گا۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا: (بعض) لوگ رسول اللہﷺ کے فرمان کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہوئے ہیں جو اس میں سو سال کے حوالے سے مختلف باتیں کر رہے ہیں (کہ سو سال بعد زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا) رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا تھا آج جو لوگ روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے کوئی باقی نہیں ہو گا۔ آپﷺ کا مقصود یہ تھا کہ اس قرن (اس دور میں رہنے والے تمام لوگوں) کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘
((عَنْ سَالِمٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ نَبِیُّ اللّٰه ﷺ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَۃٍ تَبْلُغُ مِاءَۃَ سَنَۃٍ فَقَالَ سَالِمٌ تَذَاکَرْنَا ذٰلِکَ عِنْدَہٗ اِنَّمَا ہِیَ کُلُّ نَفْسٍ مَخْلُوقَۃٍ یَوْمَءِذٍ))
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہؓ حدیث: 6486)
’’جابر بن عبداللہؓ سے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے (آج) سانس لیتا ہوا شخص سو سال (کی مدت تک نہیں پہنچے گا)۔ سالم نے کہا: ہم نے ان (حضرت جابرؓ) کے سامنے اس کے بارے میں گفتگو کی اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اس وقت بیدار ہو چکا تھا۔‘‘
محترم قارئین! ان احادیث کے بعد اگر ہم دجال کو انسان تسلیم کریں خواہ وہ ابن صیاد ہو یا جسے تمیم داریؓ نے جزیرے میں قید دیکھا تو سو سال کے اندر اندر اس پر موت کا وارد ہونا لازمی قرار ہوتا ہے۔
محترم قارئین ! یہی وجہ ہے کہ صحیح مسلم کی انہی احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’لیکن گرجا سے نکلنے والا دجال جس کے بارے میں امام مسلم نے اپنی صحیح میں فاطمہ بنت قیس سے روایت کی اور جس کو نہایت درجہ قوی ہیکل اور زنجیروں سے جکڑا ہوا بیان کیا ہے اور اس کے جساسہ کی بھی خبر لکھی ہے اور یہ دجال وہ ہے جس کو تمیم داری نے کسی جزیرہ کے ایک گرجا میں دیکھا کہ خوب مضبوط بندھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ اس کی گردن کی طرف جکڑے ہوئے تھے اس دجال پر علماء کی بہت نظر ہے کہ درحقیقت یہی دجال ہے جو آخری زمانہ میں نکلے گا اور یہ تو کسی کا بھی مذہب نہیں کہ آخری زمانہ میں دجال تولد کے طور پر کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہو گا بلکہ بالاتفاق سلف و خلف یہی کہتے آئے ہیں کہ دجال معہود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں زندہ موجود تھا اور پھر آخری زمانہ میں بڑی قوت کے ساتھ خروج کرے گا اور اب تک وہ زنمدہ ہے ہرگز صحیح نہیں ہے مسلم کی دو حدیثیں اس خیال کی بکلی استیصال کرتی ہیں اور وہ یہ ہیں
(۱) عن جابر قال سمعت النبی ﷺ قبل ان یموت بشھر تسئلونی ون الساعۃ و انما علمھا عنداللہ و اقسم باللہ ما علی الارض من نفسہ منفوسۃ یاتی علیھا ماءۃ سنۃ وھی حیۃ یومئذ (رواہ مسلم )
یعنی روایت ہے جابر سے کہ کہا سنا میں نے پیغمبر خدا ﷺ سے فرماتے تھے مہینہ بھر پہلے اپنی وفات سے جو تکمیل مقاصد دین اور اظہار بقایا اسرار کا وقت تھا کہ تم مجھ سے پوچھتے ہو قیامت کب آئے گی اور بجز خدائے تعالی کے کسی کو اس کا علم نہیں اور میں اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں جو پیدا کیا گیا ہو اور موجود ہو اور پھر آج سے سو برس اس پر گزرے اور وہ زندہ رہے ۔
(۲) پھر دوسری حدیث صحیح مسلم کی یہ ہے
وعن ابی سعید عن النبی ﷺ لا یاتی ماءۃ سنۃ و علی الارض نفس منفوسۃ (رواہ مسلم)
یعنی ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں آویگی سو برس اس حال میں زمین پر کوئی شخص بھی آج کے لوگوں میں سے زندہ موجود ہو ۔
اب ان دونوں حدیثوں کی رو سے جن میں سے ایک میں ہمارے سید و مولی نبی ﷺ نے قسم بھی کھائی ہے اگر ہم تکلفات سے تاویلیں نہ کریں تو صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جساسہ والا دجال بھی ابن صیاد کی طرح فوت ہو گیا ہے اس کی نسبت علماء کا خیال ہے کہ آخری زمانہ میں نکلے گا اور حال یہ ہے اگر اس کو آج تک زندہ فرض کیا جائے تو رسول اللہ ﷺ کی حتمی حدیثوں کی تکذیب لازم آتی ہے ۔اور اس حدیث میں دجال کا یہ قول انی اناالمسیح وانی ان یوشک ان یوذن لی فی الخروج جو زیادہ تر اس کے مسیح دجال ہونے پر دلالت کرتا ہے بظاہر اس شبہ میں ڈالتا ہے کہ آخری زمانہ میں وہ نکلنے والا ہے لیکن بہت آسانی سے یہ شبہ رفع ہو سکتا ہے جبکہ اس طرح پر سمجھ لیں کہ یہ عیسائی بطور مورث اعلی کے اس دجال کے لئے ہے جو عیسائی گروہ میں ہی پیدا ہو گا اور گرجا میں سے ہی نکلے گا اور ظاہر ہے کہ وارث اور مورث کا وجود ایک ہی حکم رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس بیان میں استعارات ہوں اور زنجیروں سے مراد وہ موانع ہوں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں عیسائی واعظوں کو روک رہے تھے اور وہ مجبور ہو کر گویا ایک جگہ بند تھے اور یہ اشارہ ہو کہ آخری زمانہ میں بڑی قوت کے ساتھ ان کا خروج ہو گاجیسا کہ آج کل ہے اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ حدیث مذکورہ بالا میں اس دجال نے خدائی کا دعوی نہیں کیا بلکہ فقرہ ان یوشک ان یوذن لی صاف دلالت کررہا ہے کہ دجال کو خدایتعالی کے وجود کا اقرار ہے اور حدیثوں میں کوئی ایسا لفظ پایا نہیں جاتا جس سے معلوم ہو کہ جساسہ والا دجال اپنے آخری ظہور کے وقت میں خالق السموات والارض ہونے کا دعوی کرے گا ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تکبّر کی راہ سے خداوند خداوند کہلائے گا جیسے ان لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے جو خدایتعالی کو بکلی فراموش کر دیتے یءں اور اس کی پرستش اور اطاعت سے کچھ غرض نہیں رکھتے اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو ربّی ربّی کہیں یعنی خداوند خداوند کر کے پکاریں اور ایسی ان کی اطاعت کریں جیسے خداتعالی کی کرنی چاہئے ۔ اور یہی بدمعاشی اور غفلت کا اعلی درجہ ہے کہ خداتعالے کی تحقیر دل میں بیٹھ جائے ۔مثلاً ایک ایسا امیر ہے کہ نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے کہ واہیات کام ہے اس سے کیا فائدہ اور روزہ پر ٹھٹھا کرتا ہے اور خدا تعالےٰ کی عظمت کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا اور اس کی آسمانی تقدیروں کا قائل نہیں بلکہ اپنی تدبیروں اور مکروں کو تمام کامیابیوں کا مدار سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ ایسے اس کے آگے جھکیں جیسا کہ خدایتعالےٰ کے آگے جھکنا چاہئے اور خدایتعالے کی فرمانبرداری پر چڑتا ہے اور اس کے احکام کو ذلیل اور خضوار سمجھتا ہے اور اپنے احکام کو قابل عزت خیال کرتا ہے اور اپنی اطاعت کو خدا تعالےٰ کی اطاعت پر مقدم رکھنا چاہتا ہے وہ حقیقت میں خدائی کا دعوی کر رہا ہے اگرچہ قال سے نہیں مگر حال سے ضرور یہ دعوی اس سے صادر ہوتا ہے بلکہ قال سے بھی دعوی کرتا ہے کیونکہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کو خداوند خداوند کہیں سو اسی قسم کا دجال کا دعوی معلوم ہوتا ہے ۔
اس تمام تقریر سے معلوم ہوا کہ مسیح ابن مریم کی طرح دجال کا بھی مثیل ہی آنے والا ہے یعنی ایسا گروہ جو باعتبار اپنی سیرت و خاصیت کے پہلے دجال کا ہمرنگ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس تحقیق سے ظاہر ہو گیا کہ جیسے مثیل مسیح کو مسیح ابن مریم کہا گیا اس امر کو نظر میں رکھ کر کہ اس نے مسیح ابن مریم کی روحانیت کو لیا اور مسیح کے وجود کو باطنی طور پر قائم کیا ایسا ہی وہ دجال جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں فوت ہو چکا ہے اس کی ظل اور مثال نے اس آخری زمانہ میں اس کی جگہ لی اور گرجا سے نکل کر مشارق و مغارب میں پھیل گیا ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 258تا261مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 358تا361)
محترم قارئین !اگر دیکھا جائے تو مرزا غلام احمد قادیانی کی اس طویل تحریر میں دجال کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا گیا ہے اس کی اصل بنیادایک تو دجال کا ابن آدم ہونا اور دوسرا صحیح مسلم کی وہ احادیث ہیں جن میں سو سال کے اندر اندر اس وقت کے ذندہ لوگوں کا مرنا ثابت ہوتا ہے ۔ اس ساری بحث کے دو طرح سے جوابات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔
اول یہ کہ دجال کو ابن آدم سمجھنے سے انکار کر دیا جائے اور اسے شیاطین میں سے تصور کر لیا جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے کسی بھی حدیث میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں دجال کو ابن آدم یا شیطان قرار نہیں دیا تو یہ گمان بھی کیا جا سکتا ہے کہ دجال شیاطین میں سے ہو اور اسی بات کی تائید مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ایک مقام پر اس طرح کی ہے کہ
’’یہ تحقیق شدہ امر ہے اور یہی ہمارا مذہب ہے کہ دراصل دجال شیطان کا اسم اعظم ہے جو بمقابل خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کے لیے جو اللہ الحی القیوم ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ نہ حقیقی طور پر دجال یہود کو کہہ سکتے ہیں نہ نصاریٰ کے پادریوں کو اور نہ کسی اور قوم کو کیونکہ یہ سب خدا کے عاجز بندے ہیں۔ خدا نے اپنے مقابل پر ان کو کچھ اختیار نہیں دیا پس کسی طرح ان کا نام دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 حاشیہ، ص 269)
دوسرا اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تمیم داری رضی اللہ عنہ والی حدیث کو مدنظر رکھا جائے تو دجال کو صحیح مسلم کی سو سال والی احادیث سے خود بخود ہی استثناء مل جاتا ہے کیونکہ دجال کے بارے میں تمام احادیث سے ثابت ہے کہ دجال کے ظہور سے قبل قیامت نہیں آسکتی کیونکہ دجال کا ظہور علامات قیامت میں سے ہے۔ جس طسے واضح ہوتا ہے کہ اس کا ظہور ہر حال میں ہو گا ۔اور تمیم داری رضی اللہ عنہ والی روایت سیان کاموں کے بارے میں بھی رہنمائی ملتی ہے جو دجال اپنے ظہور کے بعد کرے گا ۔اب دجال کی موت کا شبہ صرف اور صرف سو سال والی حدیث میں موجود لفظ ’’تمام ‘‘ سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ سوال پیدا ہوگا کہ حدیث میں لفظ تمام لوگ جو اس وقت تک زندہ تھے سو سال کے اندر ان پر موت وارد ہونے کا ذکر ہے تو دجال کو ان تمام سے کیونکر استثناء حاصل ہے آئیے یہ بات بھی آپ کو قرآن کریم سے ہی سمجھاتا ہوں قرآن کریم کا بھی یہ اسلوب ہے کہ اگر کسی چیز کے لئے تمام کا لفظ آیا ہے اور دوسری جگہ اس چیز کو دوسروں سے الگ بیان کیا گیا ہے تو اسے اس تمام سے الگ ہی سمجھا جائے گا۔مثلاً اللہ تعالی قرآن کریم فرماتا ہے کہ
(کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ) (الانبیاء : ۳۵)
’’تمام نفس (جاندار)موت کا ذائقہ چکھنے والے ہیں۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تعالی اپنے لئے بھی نفس کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
(لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo)
(آل عمران : ۲۸)
’’مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنے نفس (ذات)سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
اب خود اندازہ کیجئے کہ ایک طرف تو اللہ تعالی تمام نفوس کے بارے میں فرما رہا ہے کہ وہ موت کاذائقہ چکھنے والے ہیں اور دوسری طرف اپنی ذات کے لئے بھی لفظ ’’نفس‘‘ کا اطلاق فرما رہا ہے اور یہ بھی ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی کو موت تو درکنار ہلکی سی اونگھ بھی نہیں آتی ۔ اب جس طرح موت کا ذائقہ چکھنے والے تمام نفوس سے اللہ تعالی کو استثناء حاصل ہے بالکل اسی طرح سو سال کے اندر اندر موت کا شکار ہونے والے تمام لوگوں سے دجال کو استثناء حاصل ہے ۔
قارئین کرام ! اب قرآن کریم سے ہی ایک اور مثال آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
(اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ) (الانبیاء : ۳۰)
’’کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟‘‘
محترم قارئین! سورۃ الانبیاء کی مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالی نے تمام زندہ چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں پانی سے پیدا کیا ہے لیکن جب حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر آتا ہے تو قرآن کریم سے ہی پتہ چلتا ہے کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں آدم وعلیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے کہ
(اِِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِینٍ) (ص : ۷۱)
’’جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘
اور دوسرے مقام پر ابلیس کا قول موجود ہے کہ اس نے کس وجہ سے آدم علیہ السلام کو تعظیمی سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا چنانچہ قرآن کریم ہے کہ
(قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ) (الاعراف : ۱۲)
’’حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے جب کہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا۔‘‘
محترم قارئین ! جس طرح تمام زندہ چیزوں کے پانی سے پیدا ہونے میں آدم علیہ السلام کو استثناء حاصل ہے بالکل اسی طرح دضال کو بھی صحیح مسلم کی سو سال میں اس وقت تک تمام زندہ لوگوں پر موت وارد ہونے والی احادیث سے استثناء حاصل ہے ۔اب جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ دجال کو ان احادیث سے استثناء حاصل ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی کی عیسائی پادریوں کو دجال قرار دینے والی یہ طویل بحث بالکل لا یعنی ثابت ہو جاتی ہے ۔ لیکن پھر بھی چند ایک اعتراضات کا جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ حدیث مذکورہ بالا میں اس دجال نے خدائی کا دعوی نہیں کیا بلکہ فقرہ ان یوشک ان یوذن لی صاف دلالت کررہا ہے کہ دجال کو خدایتعالی کے وجود کا اقرار ہے اور حدیثوں میں کوئی ایسا لفظ پایا نہیں جاتا جس سے معلوم ہو کہ جساسہ والا دجال اپنے آخری ظہور کے وقت میں خالق السموات والارض ہونے کا دعوی کرے گا‘‘
(ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ259)
محترم قارئین ! دیگر احادیث نبویہﷺ سے واضح ہوتا ہے کہ فتنہ دجال ایک بہت بڑی آزمائش ہے جس کا ظہور قرب قیامت ہو گا اور وہ لوگوں کے سامنے دعوی خدائی کرے گا کمزور ایمان کے لوگ اسے خدا سمجھ بیٹھیں گے ۔ اب یہ دعوی خدائی تو اس نے قرب قیامت کرنا ہے اور نبی رحمت ﷺ نے اسے ہی دجال قرار دے دیا ہے تو اس پر یہ اعتراض کرنا ہی بالکل فضول ہے کہ تمیم داری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں دجال نے اپنے دعوی خدائی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا جب آقا کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے فرمادیا کہ وہ دعوی خدائی کرے گا اور یہ بات صحیح الاسناد احادیث مبارکہ سے ثابت بھی ہے تو پھر مرزا قادیانی کے ایسے اعتراضات کو دین اسلام کے اصل حلئے کو تبدیل کرنے کی ناپاک سازش قرار نہ دیں تو اور کیا کہیں ؟
مرزا غلام احمد قادیانی صحیح مسلم کی حدیث میں بیان کردہ دجال کی علامت کہ اس کی پیشانی پر ک۔ف۔ر لکھا ہوا ہوگا اس پراعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’امام مسلم صاحب تو یہ لکھتے ہیں کہ دجال معہود کی پیشانی پر’’ ک۔ف۔ر ‘‘لکھا ہوا ہو گا مگر یہ دجال تو انہیں کی حدیث کی رو سے مشرف باسلام ہو گیا پھر مسلم صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ دجال معہود بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہوتی ہے مشرق مغرب میں پھیل جائے گا مگر یہ دجال (ابن صیاد)تو جب مکہ سے مدینہ کی طرف گیا توابی سعید سے کچھ زیادہ نہیں چل سکا جیسا کہ مسلم کی حدیث سے ظاہر ہے۔ایسا ہی کسی نے اس کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہوا نہیں دیکھا اگر ابن صیاد کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہوا ہوتا تو آنحضرت ﷺ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل کرنے سے منع کیوں کرتے اور کیوں فرماتے کہ ہمیں اس کے حال میں ابھی اشتباہ ہے اگر یہی دجال معہود ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ بن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا ہم اس کو قتل نہیں کر سکتے تعجب تو یہ ہے کہ اگر ابن صیاد کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘لکھا ہوا نہیں تھا تو اس پر شک کرنے کی کیا وجہ تھی اور اگر لکھا ہوا تھا تو پھر اس کو دجال معہود یقین نہ کرنے کا کیا سبب تھا ۔ لیکن دوسری حدیثوں سے ظاہر ہے کہ بالآخر اس پر یقین کیا گیا کہ یہی دجال معہود ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی آخر یقین کر لیا۔مگر یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے کہ دجال کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہوا ہوگا تو پھر اوائل دنوں میں ابن صیاد کی نسبت کیوں شک اور تردد میں رہے اور کیوں یہ فرمایا کہ شاید یہی دجال معہود ہو اور یا شاید کوئی اور ہو گمان کیا جاتا ہے کہ شاید اس وقت ’’ک۔ف۔ر‘‘ اس کی پیشانی پر نہیں ہو گا میں سخت متعجب اور حیران ہوں کہ اگر سچ مچ دجال معہود آخری زمانہ میں پیدا ہونا تھا یعنی اس زمانہ میں کہ جب مسیح ابن مریم ہی آسمان سے اتریں تو پھر قبل از وقت یہ شکوک و شبہات پیدا ہی کیوں ہوئے اور زیادہ تر عجیب یہ کہ ابن صیاد نے ایسا کام بھی نہیں دکھایا کہ جو دجال معہود کی نشانیوں میں سے سمجھا جاتا یعنی یہ کہ بہشت اور دوزخ کا ساتھ ہونا اور خزانوں کا پیچھے پیچھے چلنااور مردوں کا زندہ کرنا اور اپنے حکم سے مینہ کو برسانا اور کھیتوں کا اگانا اور ستر باع کے گدھے پر سوار ہونا ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 112،113مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 212، 213)
محترم قارئین ! قبل اس کے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیدا کئے گئے شبہات کا رد کروں پہلے آپ کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہوں گا کہ کس طرح سے ان احادیث میں تناقض ظاہر کر کہ اس نے لوگوں کو احادیث نبویہ ﷺ سے متنفر کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے کیونکہ یہود و نصاری کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح دین اسلام کی اصل روح کو مسخ کر کے لوگوں کو دین اسلام سے متنفر کیا جائے اور اس سلسلہ میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار احادیث نبویہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنا رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ ہی اسلامی تعلیمات کا اصل مآخذ ہے اگر احادیث نبویہ ﷺ کو دین اسلام سے نکال دیا جائے تو اسلا کا حلیہ ہی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی تو انگریز کا لگایا گیا خود کاشتہ پودا تھا جس کا اسے خود بھی اعتراف ہے ۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی اس کے بعد لکھتا ہے کہ
’’اب بڑی مشکلات یہ در پیش آتی ہیں کہ اگر ہم بخاری اور مسلم کی ان حدیثوں کو صحیح سمجھیں جو دجال کو آخری زمانہ میں اتار رہی ہیں تو یہ حدیثیں ان کو موضوع ٹھہراتی ہیں اور اگر ان حدیثوں کو صحیح قرار دیں تو پھر ان کا موضوع ہونا ماننا پڑتا ہے اگر یہ متعارض اور متناقض حدیثیں صحیحین میں نہ ہوتیں صرف دوسری صحیحوں میں ہوتیں تو شاید ہم ان دونوں کتابوں کی زیادہ تر پاس خاطر کر کے ان دوسری حدیثوں کو موضوع قرار دیتے مگر اب مشکل تو یہ آپڑی ہے کہ انہیں دونوں کتابوں میں یہ دونوں قسم کی حدیثیں موجود ہیں ۔
اب جب ہم ان دونوں قسم کی حدیثوں پر نظر ڈال کر گرداب حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ کس کو صحیح سمجھیں اور کس کو غیر صحیح تب عقل خداداد ہم کو یہ طریق فیصلہ کا بتاتی ہے کہ جن احادیث پر عقل اور شرع کا کچھ اعتراض نہیں انہیں کو صحیح سمجھنا چاہئے ۔‘‘
محترم قارئین ! آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس طریقے سے مرزا غلام احمد قادیانی احادیث نبویہ کو متعارض اور متناقض قرار دیتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں چکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے اب آپ کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کا رد پیش کرتا ہوں اس کے بعد آپ کے سامنے احادیث کی صحت اور ضعف کے بارے میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی کا نظریہ پیش کروں گا ۔ان شاء اللہ
محترم قارئین اب مرزا قادیانی کے پھیلائے گئے شبہات کا جواب ملاحظہ فرمائیے لیکن اس سے پہلے اس بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے کہ نبی کریم ﷺ پر دجال کے بارے میں بیک وقت سارا علم نہیں دیا گیا بلکہ بتدریج اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی کی گئی ہے یہی وجہ تھی کہ نبی کریم علیہ السلام کی طرف سے ابن صیاد پر صرف شبہ کا اظہار کیا گیااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسے قتل کرنے سے بھی منع کیا گیا تھا نہ کہ اسے حقیقت میں دجال قرار دیا گیا ۔ یہ جو مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ ’’لیکن دوسری حدیثوں سے ظاہر ہے کہ بالآخر اس پر یقین کیا گیا کہ یہی دجال معہود ہے۔‘‘ یہ بالکل سفید جھوٹ ہے کسی بھی صحیح حدیث میں یہ بات موجود نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یقین کر لیا تھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اب آتے ہیں اس کے دوسرے شبے کی طرف کہ ابن صیاد کے ماتھے پر ’’ک ۔ف ۔ر‘‘ نہیں لکھا تھا تو اسے دجال کیوں سمجھ لیا گا اس ضمن گذارش ہے کہ جب دجال قرب قیامت ظاہر ہو گا یہ ساری علامات اس وقت ظاہر ہونی ہیں نہ قیامت سے ہزاروں سال قبل ۔ایک اور بات جو مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی اس تحریر میں لکھی ہے کہ ’’میں سخت متعجب اور حیران ہوں کہ اگر سچ مچ دجال معہود آخری زمانہ میں پیدا ہونا تھا یعنی اس زمانہ میں کہ جب مسیح ابن مریم ہی آسمان سے اتریں تو پھر قبل از وقت یہ شکوک و شبہات پیدا ہی کیوں ہوئے‘‘ اس میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک بہت بڑا دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ دجال کے آخری زمانہ میں پیدا ہونا لکھا ہے جبکہ کسی بھی حدیث میں دجال کے آخری زمانہ میں پیدا ہونے کا ذکر نہیں بلکہ دجال کے ظھور کا ذکر ہے آخری گذارش یہ کہ صحیحین کی ان احادیث میں قطعًا کوئی تعارض یا تناقض نہیں بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ نبی کریم ﷺ کو دجال کے بارے میں بتدریج علم دیا گیا تھا جب تک دجال کے بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے واضح بات نہیں بتائی گئی تھی اس وقت ابن صیاد پر دجال کا شبہ کیا گیا لیکن جب تمیم داری رضی اللہ عنہ والا واقعہ رونما ہوا تو اس وقت اللہ تعالی کے حکم سے واضح لفظوں میں بتا دیا کہ وہی حقیقی دجال ہے جو قرب قیامت ظاہر ہو گا ۔
محترم قارئین !اب ایک اور شبے کا ازالہ کرتا چلوں کہ اگر دجال کے ماتھے پر ’’ک۔ف۔ر‘‘لکھا ہو گا تو لوگ اس پر ایمان کیونکر لائیں گے ؟ اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ جس طرح لوگ آج کل کے زمانے میں سگریٹ کی ڈبی پر واضح طور پر مضر صحت لکھا ہوا ہونے کے باوجود سگریٹ نوشی کرتے ہیں اسی طرح لوگ دجال کی پیشانی پر ’’ک۔ف۔ر‘‘ لکھا ہونے کے باوجود ایمان لے آئیں گے۔
محترم قارئین! اب میں آپ کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کا احادیث کی صحت جانچنے کا میعار اسی کی ایک تحریر سے پیش کرتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’میرایہ بھی مذہب ہے کہ اگرکوئی امرخداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پرظاہر کیاجاتا ہے مثلاًکسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق توگوعلمائے ظواہر اورمحدثین اس کوموضوع یامجروح ٹھہراویں مگرمیں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کوموضوع کہوں گا اگرخداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پرظاہر کردی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگرمجھ پرخداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اوریہ میرا مذہب میراہی ایجادکردہ مذہب نہیں بلکہ خودیہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یااہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقیدحدیث کے محتاج اورپابندنہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ45طبع چہارم)
محترم قارئین! اب آپ کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب سے چند تحریریں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ قادیانیت جو کہ اسلام کے متصادم الگ مذہب ہے۔ میں دجال کے بارے میں مزیدکیا نظریات پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی رقمطراز ہے کہ:
’’اور ہمارے نزدیک ممکن ہے کہ دجال سے مراد باقبال قومیں ہوں اور گدھا ان کا یہی ریل ہو جو مشرق اور مغرب کے ملکوں میں ہزارہا کوسوں تک چلتے دیکھتے ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 3، صفحہ: 174)
محترم قارئین! جیسا کہ آپ نے مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا تحریر سے ملاحظہ کیا کہ اس کے نزدیک دجال سے مراد باقبال قومیں اور خردجال سے مراد ریل گاڑی ہے۔ اب اس کا دوسرا مؤقف بھی ملاحظہ کیجیے چنانچہ ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’ایک بڑی بھاری علامت دجال کی اس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ سترباع کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑی کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ دخان کے زور سے چلتی ہیں جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے۔ اس جگہ ہمارے نبی کریم علیه السلام نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے۔ جن کا امام و مقتدا یہی دجالی گروہ ہے اس لیے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام، صفحہ: 393، مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 3، صفحہ: 493)
مزید مرزا احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’لہٰذا اس بات پر قطع اور یقین کرنا چاہیے کہ وہ مسیح دجال جو گرجا سے نکلنے والا ہے یہی لوگ ہیں جن کے سحر کے مقابل پر معجزہ کی ضرورت تھی۔۔۔ اور بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ مسیح دجال جس کے آنے کا انتظار تھا یہی پادریوں کا گروہ ہے جو ٹڈی کی طرح دنیا میں پھیل گیا ہے، سو اے بزرگو! دجال معہود یہی ہے جو آ چکا مگر تم نے اسے شناخت نہیں کیا؟‘‘
(ازالہ اوہام، صفحہ:266، مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 3، صفحہ: 366)
مزید ایک مقام پر عیسائی پادریوں کو دجال اکبر قرار دیتے ہوئے مراز غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’قرآن نے تو اپنے صریح لفظوں میں دجال اکبر پادریوں کو ٹھہرایا ہے اور ان کے دجل کو ایسا عظیم الشان دجل قرار دیا کہ قریب ہے جو اس سے زمین و آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور حدیث نے مسیح موعود کی حقیقی علامت یہ بتلائی کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہو گا اور وہ دجال اکبر کو قتل کرے گا۔ ہمارے ناداں مولوی نہیں سوچتے کہ جبکہ مسیح موعود کا خاص کام کسر صلیب اور قتل دجال اکبر ہے اور قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ بڑا دجل اور بڑا فتنہ جس سے قریب ہے کہ نظام اس عالم کو درہم برہم ہو جائے اور خاتمہ اس دنیا کا ہو جائے وہ پادریوں کا فتنہ ہے تو اس سے صاف طور پر کھل گیا کہ پادریوں کے سوا اور کوئی دجال اکبر نہیں ہے اور جو شخص اب اس فتنہ کے ظہور کے بعدکسی اور کی انتظار کرے وہ قرآن کا مکذب ہے۔‘‘
(انجام آتھم، صفحہ: 47 مندرجہ روحانی خزائن، جلد: 11، صفحہ: 47)
محترم قارئین! اسی تحریر سے قبل مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’دجال بہت گزرے ہیں اور شاید آگے بھی ہوں مگر وہ دجال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ یہی گروہ مشت خاک کو خدا بنانے والا ہے۔ خدا نے یہودیوں اور مشرکوں اور دوسری قوموں کے طرح طرح کے دجل قرآن شریف میں بیان فرمائے مگر یہ عظمت کسی کے دجل کو نہیں دی کہ اس دجل سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ پس جس گروہ کو خدا نے اپنے پاک کلام میں دجال اکبر ٹھہرایا ہمیں نہیں چاہیے کہ اس کے سوا کسی اور کا نام دجال اکبر رکھیں۔ نہایت ظلم ہو گا کہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور دجال اکبر تلاش کیا جائے۔ یہ بات کسی پہلو سے بھی درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دجال ہے جو ان سے بڑا ہے۔ کیونکہ جبکہ خدا نے اپنی پاک کلام میں سب سے بڑا یہی دجل بیان فرمایا ہے تو نہایت بے ایمانی ہوگی کہ خدا کے کلام کی مخالفت کرکے کسی اور کو بڑا دجال ٹھہرایا جائے۔‘‘
(انجام آتھم ص 46، 47، مندرجہ روحانی خزائن جلد: 11، ص46، 47)
محترم قارئین قرآن کریم میں کہیں بھی کسی بھی مقام پر عیسائی پادریوں کو دجال اکبر نہیں ٹھہرایا بلکہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کا قرآن کریم پہ افتراء ہے اگر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ:
(تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّاo اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًاo وَ مَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاo) (مریم : 90 تا 92)
’’قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کہ وہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے۔ شانِ رحمن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔‘‘
محترم قارئین! ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی کسی کو اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم قرار دیا گیا ہے کہ فرمایا قریب ہے اس جرم کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں یا زمین شق ہوجائے۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف صرف عیسائی پادریوں نے اولاد کو منسوب کیا تھا یا کسی اور نے بھی تو آئیے اس بارے میں بھی قرآن کریم سے ہی رہنمائی لیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مقدس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
(وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ) (التوبۃ : 30)
’’اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔‘‘
(اَفَاَصْفٰکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ اِنَاثًا اِنَّکُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًاo) (بنی اسرائیل : 40)
’’کیا بیٹوں کے لیے تو اللہ نے تمہیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لیے فرشتوں کو لڑکیاں بنالیا۔ بے شک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو۔‘‘
محترم قارئین! مندرجہ بالا آیات کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد صرف عیسائیوں نے ہی منسوب نہیں کی بلکہ یہودیوں اور مشرکین نے بھی یہ فعل بد کیا اور تو اور مرزا غلام احمد قادیانی خود بھی اس بدترین فعل کا مرتکب ہوا اور اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہوئے مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ اسے الہام ہوا کہ:
اے مرزا! اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ
ترجمہ: تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔
(بحوالہ تذکرہ، ص : 548، طبع چہارم)
مزید ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر 4 ص 19 (روحانی خزائن جلد 17، ص : 45) میں بابو الٰہی صاحب کی نسبت یہ الہام ہے:
یریدون ان یروا طمثک واللّٰہ یرید ان یریک انعامۃ الا نعامات المتواترۃ انت منِّیْ بمنزلۃ اولادی واللّٰہ ولیک وربک فقلنا یانارکونی بردا.
یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے ایسے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ پیدا ہوگیا ہے جو بمنزلہ اطفال اللہ ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی، ص : 143، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 581)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے جس بنیاد پر عیسائی پادریوں کو دجال اکبر قرار دیا تھا اس کی حقیقت آپ کے سامنے بتوفیق الٰہی کھول دی ہے کہ اس جرم کے مرتکب فقط عیسائی پادری ہی نہیں ہوئے بلکہ یہود،اورمشرکین کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی بذات خود بھی اسی جرم کا مرتکب ہوا ہے تو صرف عیسائی پادری ہی دجال اکبر کیوں؟ یہودی، مشرک اور مرزا غلام احمد قادیانی بذات خود کیوں نہیں؟
محترم قارئین! ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’دجال کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکہ دینے والا اور گمراہ کرنے والا اور خدا کے کلام کی تحریف کرنے والا ہو اس کو دجال کہتے ہیں۔ سو ظاہر ہے کہ پادری لوگ اس کام میں سب سے بڑھ کر ہیں۔‘‘
( تتمہ حقیقۃ الوحی، ص : 24، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، حاشیہ ص 456)
مزید اسی مقام پر مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’قرآن شریف نے ظاہر کردیا کہ وہ دجال پادریوں کا فرقہ ہے۔‘‘
(روحانی خزائن، جلد 22، ص 456)
محترم قارئین! اگر ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی بتائی ہوئی اس تعریف کے مطابق جائزہ لیں تو تب بھی بجائے عیسائی پادریوں کے مرزا غلام احمد قادیانی بذات خود دجال اکبر قرار پاتا ہے کیونکہ اس نے قدم قدم پر قرآن کریم کی نہ صرف معنوی تحریف کی ہے بلکہ لفظی تحریف کا مرتکب بھی ہوا ہے۔
معنوی تحریف کی مثال تو آپ ابتدا میں لیلۃ القدر کے حوالے سے دیکھ ہی چکے ہیں۔ اب ایک مثال لفظی تحریف کی بھی ملاحظہ کرلیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ:
(اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُo) (یٰس : 82)
’’وہ جو کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
اسی آیت کریمہ میں لفظی تحریف کرکے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنا ایک الہام کچھ یوں تشکیل دیا کہ:
اِِنَّمَا اَمْرُکَ اِِذَا اَرَادْتَ شَیْءًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
’’تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہوجاتی ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، ص : 108، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 108)
محترم قارئین! ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی عیسائیت کو دجال قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’پھر دجال کی نسبت بعض کا خیال ہے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اور وہ مخفی ہے اخیر زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ حالانکہ وہ بے چارہ مسلمان ہوچکا اس کی موت اسلام پر ہوئی اور مسلمانوں نے اس کا جنازہ پڑھا۔ اور بعض کا قول ہے کہ دجال کلیسا میں قید ہے یعنی کسی گرجا میں محبوس ہے اور آخر اسی میں سے نکلے گا۔ یہ آخری قول تو صحیح تھا مگر افسوس کہ اس کے معنی باوجود واضح ہونے کے بگاڑ دیے گئے۔ اس میں کیا شک ہے دجال جس سے مراد عیسائیت کا بھوت ہے۔ ایک مدت تک گرجا گھر میں قید رہا ہے اور اپنے دجالی تصرفات سے رکا رہا ہے مگر اب آخری زمانہ میں اس نے قید سے پوری رہائی پائی ہے اور اس کی مشکیں کھول دی گئی ہیں تاکہ جو جو حملے کرنا اس کی تقدیر میں ہے کر گزرے اور بعض کا خیال ہے کہ دجال نوع انسان میں سے نہیں بلکہ شیطان کا نام ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، ص : 42، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 44، 45)
محترم قارئین! یہ بات درست ہے کہ بعض لوگ ابن صیاد کو ہی دجال قرار دیتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ اس کی موت اسلام پر ہوئی اور مسلمانوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی صریح کذب بیانی ہے کیونکہ کسی بھی صحیح الاسناد روایت میں ابن صیاد کی اسلام پر موت اور مسلمانوں کی طرف سے نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ واقعہ حرہ کے بعد وہ غائب ہوگیا اور اس کے بعد کسی کو بھی نظر نہیں آیا۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ بعض نے اسے شیطان قرار دیا ہے تو اس ضمن میں میں پہلے بھی کچھ عرض کرچکا ہوں لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے شیطان سے مراد بھی عیسائیت کا بھوت لیا ہے لہٰذا اس تحریر کے حاشیہ میں لکھتا ہے کہ:
’’اس شیطان کا نام دوسرے لفظوں میں عیسائیت کا بھوت ہے یہ بھوت آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانہ میں عیسائی گرجا میں قید تھا اور صرف جساسہ کے ذریعے سے اسلامی اخبار معلوم کرتا تھا۔ پھر قرون ثلاثہ کے بعد بموجب خبر انبیاءo کے اس بھوت نے رہائی پائی اور ہر روز اس کی طاقت بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں بڑے زور سے اس نے خروج کیا اسی بھوت کا نام دجال ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے اور اسی بھوت سے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے اخیر میں ولا الضالین کی دعا میں ڈرایا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، حاشیہ ص 45)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’قرآن شریف اس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرح سے حکایت کرکے فرماتا ہے کہ قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنo قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَo یعنی شیطان نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ میں اس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مردے جس کے دل مرگئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں خدا نے کہا کہ میں نے تجھے اس وقت تک مہلت دی سو وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہے۔ جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، ص : 41، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 22، ص 41)
مزید ایک جگہ پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس۔ پس لفظ ناس سے مراد اس جگہ بھی دجال ہے۔‘‘
(ایام الصلح، مندرجہ روحانی خزائن جلد 14، ص 296)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی دجال کو ایک واحد شخص ماننے سے انکاری ہے، حالانکہ نبی کریمe نے اسے ایک شخص قرار دیا ہے اسی لیے مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’ہم پہلے اس سے قرآن شریف سے بھی ثابت کرچکے ہیں کہ دجال ایک گروہ کا نام ہے نہ یہ کہ کوئی ایک شخص اور اس حدیث مذکورہ بالا میں جو دجال کے لیے جمع کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں جیسے یختلون اور ریبسون اور یفترون اور یجترون اور اولئک اور منہم یہ بھی بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ دجال ایک جماعت ہے نہ ایک انسان۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17، ص 236)
اسی تناظر میں ایک اور مقام پر تحریف حدیث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’وہ احادیث واضحہ جو قرآن کی منشاء کے موافق دجال کی حقیقت ظاہر کرتی ہیں وہ اگرچہ بہت ہیں مگر ہم اس جگہ بطور نمونہ ان میں سے درج کرتے ہیں، وہ حدیث یہ ہے: یخرج فی أخر الزماں دجال یختلفون الدنیا بالدین یلبسون للناس جلود الضان من الدین السنتہم احلی من العسل وقلوبہم قلوب الذیاب یقول اللّٰہ عزوجل ابي یغیترون ام علی یجترون حتی حلف لا بعثن علٰی اولئک منہم فتنۃ. (الخ) (کنز العمال جلد نمبر 7، ص 174) یعنی آخری زمانہ میں دجال ظاہر ہوگا وہ ایک مذہبی گروہ ہوگا جو زمین پر جابجا خروج کرے گا اور وہ لوگ دنیا کے طالبوں کو دین کے ساتھ فریب دیں گے یعنی ان کو اپنے دین میں داخل کرنے کے لیے بہت سا مال پیش کریں گے اور ہر قسم کے آرام اور نصرات دینوی کی طمع دیں گے اور اس غرض سے کہ کوئی ان کے دین میں داخل ہوجائے بھیڑوں کی پوستین پہن کر آئیں گے ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے اور خدائے عزوجل فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ میرے حلم پر مغرور ہورہے ہیں کہ میں ان کو جلد تر نہیں پکڑتا اور کیا یہ لوگ میرے پہ افتراء کرنے میں دلیری کر رہے ہیں یعنی میری کتابوں کی تحریف کرنے میں کیوں اس قدر مشغول ہیں میں نے قسم کھائی ہے کہ میں انہی میں سے اور انہی کی قوم میں سے ان پر ایک فتنہ کروں گا۔‘‘ (دیکھو کنز العمال جلد نمبر 7، صفحہ نمبر 174)
اب بتلاؤ کہ کیا اس حدیث سے دجال ایک شخص معلوم ہوتا ہے اور کیا یہ تمام اوصاف جو دجال کے لکھے ہیں یہ آج کل کس قوم پر صادق آرہی ہے یا نہیں؟
(تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 ص 235، 236)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے مندرجہ بالا تحریر میں تحریف حدیث کچھ اس طرح کی ہے کہ حدیث کے اندر جو اصل الفاظ ہیں وہ ’’دجال‘‘ نہیں بلکہ ’’رجال‘‘ ہیں اور یہ حدیث کنز العمال کے مرتب نے جامع ترمذی سے لی ہے۔ جامع ترمذی اور کنز العمال دونوں نسخوں میں لفظ ’’رجال‘‘ ہے نہ کہ دجال۔
محترم قارئین ! ایک مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی علمائے اسلام کو دجالیت کے درخت کی شاخیں قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’ابن صیاد کا آپ( ﷺ) دجال نام رکھا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کو کہا کہ تجھ میں عیسی کی مشابہت پائی جاتی ہے سو عیسی اور دجال کا تخم اسی وقت سے شروع ہوا اور مرور زمانہ کے ساتھ جیسی جیسی ظلمت فتنہ دجالیت کے رنگ میں کچھ زیادتی آتی گئی ویسی ویسی عیسویت کی حقیقت والے بھی اس کے مقابل پر پیدا ہوتے گئے یہاں تک کہ آخری زمانہ میں بباعث پھیل جانے فسق اور فجور اور کفر اور ضلالت اور بوجہ پیدا ہوجانے ان تمام بدیوں کے جو کبھی پہلے اس زور اور کثرت سے پیدا نہیں ہوئی تھیں بلکہ نبی کریم (ﷺ) نے آخری زمانہ ہی ان کا پھیلنا بطور پیشگوئی بیان فرمایا تھا دجالیت کاملہ ظاہر ہو گئی پس اسکے مقابل پر ضرور تھا کہ عیسویت کاملہ بھی ظاہر ہوتی یاد رہے کہ نبی کریم نے جن بد باتوں کے پھیلنے کی آخری زمانہ میں خبر دی ہے اسی مجموعہ کا نام دجالیت ہے جس کی تاریں یا یوں کہو کہ جس کی شاخیں صدہا قسم کی آنحضرت (ﷺ) نے بیان فرمائی ہیں ان میں سے مولوی بھی دجالیت کے درخت کی شاخیں ہیں جنہوں نے لکیر کو اختیار کیا اور قرآن کو چھوڑ دیا۔‘‘
(نشان آسمانی ص 8,9مندرجہ روحانی خزائن جلد 4ص 368,369)
محترم قارئین! اب تک آپ مرزا غلام احمد قادیانی کے دجال کے بارے میں جو موقف ملاحظہ کرچکے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1: دجال سے مراد باقبال قومیں۔
2: دجال سے مراد عیسائی پادری۔
3: دجال سے مراد عیسائیت کا بھوت۔
4: دجال سے مراد شیطان جو کہ ایک شخص ہے۔
5: ناس سے مراد دجال۔
6: دجال ایک جماعت ایک گروہ کا نام۔
7: مولوی دجالیت کے درخت کی شاخیں
اب ہم آپ کو ان سب سے مختلف اور الگ تھلگ مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک اور موقف پیش کرتے ہیں چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’یہ تحقیق شدہ امر ہے اور یہی ہمارا مذہب ہے کہ دراصل دجال شیطان کا اسم اعظم ہے جو بمقابل خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کے لیے جو اللہ الحی القیوم ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ نہ حقیقی طور پر دجال یہود کو کہہ سکتے ہیں نہ نصاریٰ کے پادریوں کو اور نہ کسی اور قوم کو کیونکہ یہ سب خدا کے عاجز بندے ہیں۔ خدا نے اپنے مقابل پر ان کو کچھ اختیار نہیں دیا پس کسی طرح ان کا نام دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 حاشیہ، ص 269)
محترم قارئین! دجال کے بارے میں اتنے سارے مختلف موقف اور نظریات اس مخبوط الحواس شخص کے ہیں جس کا لکھنا ہے کہ دجال، ابن مریم اور یاجوج ماجوج کی حقیقت نبی کریم علیه علیه السلام پر نہیں کھولی گئی تھی۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ مرزا قادیانی خود رقمطراز ہے کہ:
’’اگر آنحضرت صلی الله علیه وسلم پہ ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسیء نمونہ کے موبمو منکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باغ کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کما ہی ظاہر فرمائی گئی ہو اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی خوبی کے ممکن ہے اجمالی طور پر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں؟‘‘
(ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن، جلد 3، ص 473)
محترم قارئین! جیسا کہ میں نے ابتداء میں بتایا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مقصد دین اسلام کے مدمقابل ایک ایسے مذہب کا احیاء کرنا تھا جس کا دین اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد روس اور انگریز ہیں، دجال کے گدھے سے مراد ریل گاڑی اور عیسیٰ ابن مریم سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی خوداور دو زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں جو مرزا قادیانی کو لاحق تھیں جن کے بارے میں خود لکھتا ہے کہ:
’’احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپر کے حصے میں اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصے میں۔ سو میں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ بوجہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین مندرجہ روحانی خزائن، جلد 20، ص 46)
قارئین کرام! قابل غور بات تو یہ ہے کہ حدیث میں دو زرد چادروں کا ذکر ہوا ہے اور مرزا صاحب شکار ہیں تین بیماریوں کے۔ ایک سر کی بیماری دوسری کثرت پیشاب اور تیسری دستوں کی بیماری۔ کثرت پیشاب کا بھی یہ حال کہ بعض دفعہ دن میں سو سو مرتبہ پیشاب کرتا۔ یہ بھی میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ:
’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفہ ایک ایک دن میں پیشاب آتا ہے۔‘‘
(نسیم دعوت مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، ص 434)
محترم قارئین! عرض کر رہا تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک زرد چادروں سے مراد بیماریاں اور لد سے مراد لدھیانہ ہیں تو ایسے میں اگر مرزا غلام احمد قادیانی نے دجال کے کئی ایک معنی کردیے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ ایک ہی مسئلہ پر اتنی متناقض اور متضاد گفتگو کرنے والے کے بارے میں ہم اپنی طرف سے کسی قسم کا فتوی صادر کرنے کی بجائے قادیانیوں کے خود ساختہ نبی جس کے کئی نام مثلاً کرشن کنہیا، جے سنگھ بہادر، آریوں کا بادشاہ وغیرہ ہیں اور جس کے خدا کے نام یلاش، کالا، کالو وغیرہ اس سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب ست بچن میں لکھتا ہے:
’’جو پرلے درجے کا جاہل ہو جو اپنے کلام میں متناقض بیانوں کو جمع کرے اور اس پر اطلاع نہ رکھے۔‘‘
(روحانی خزائن، جلد 10، ص 141)
قادیانی حضرات! آپ خود بھی سوچیے کہ آپ کس شخص کی پیروی کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کر رہے ہیں جو اپنی ہی تحریروں کے تناظر میں نہ صرف پرلے درجے کا جاہل قرار پاتا ہے بلکہ مخبوط الحواس بھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق دے۔ آمین
*۔۔۔*۔۔۔*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں