تحریر : عبیداللہ لطیف
عنوان : ہستی باری تعالی کے وجود کے دلاٸل
محترم قارٸین !اللہ تعالی کے وجود کے بارے میں آج میں آپ کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں ہر ایک کو اختلاف راۓ کا حق حاصل ہے لیکن دلاٸل کے ساتھ نہ کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ۔
محترم قارٸین ! میری تحقیقات کے مطابق ہر انسان خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ٗ مذہب کا پروکار ہو یا ملحد ایمان بالغیب کا لازمی طور پر قاٸل ہوتا ہے . مسلمان کے لیے تو ایمان بالغیب ویسے ہی بنیادی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایمان والوں کی صفات کا زکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ
الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ یعنی جو لوگ غیب کے ساتھ ایمان لاتے ہیں
ایک مسلمان نے اللہ تعالی کی ذات کو دیکھا نہیں لیکن اس کے باوجود ہستی باری تعالی پر ایمان لاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہی ہے جو اولاد دینے والا ہے وہی ہے جو رزق عطا کرنے والا ہے وہی ہے جو مشکلات حل کرنے والا ہے اس پروردگار عالم کے علاوہ نہ تو کسی کی عبادت کی جا سکتی اور نہ ہی کوٸی اس کا شریک ہے فقط وہ یکتا و اکیلا ہے جس نے یہ زمین و آسمان چاند سورج ستارے الغرض ساری کاٸنات کو پیدا فرمایا ہے
محترم قارٸین ! یہ تو ہو گیا مسلمانوں کا عقیدہ ایمان بالغیب اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ نہ صرف مذہب سے بے زار ہیں بلکہ اللہ تعالی کے وجود کے سرے سے ہی منکر ہیں تو وہ ایمان بالغیب کے کیسے قاٸل ہیں تو ناظرین ! سوچیے ذرہ وہ لوگ کسی نہ کسی کو تو اپنا باپ تسلیم کرتے ہی ہیں تو کیا انہوں نے اپنے ماں باپ کو اس وقت حقوق زوجیت ادا کرتے ہوۓ دیکھا کہ جس وقت ان کے والد کا نطفہ کہ جس سے وہ معرض وجود میں آۓ تھے ان کی والدہ کے رحم میں گرایا جا رہا تھا اگر نہیں دیکھا اور یقینًا کسی بھی انسان نے نہیں دیکھا تو اس کے باوجود کسی ایک شخص کو اپنا باپ قرار دے رہے ہوتے ہیں تو جناب عالی یہی ان کا ایمان بالغیب ہے اور جو لوگ ڈارون کے نظریے کے قاٸل ہیں کیا ان میں سے کوٸی کہہ سکتا ہے کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے بندر سے انسان بنتے ہوۓ دیکھا ہے اگر وہ بغیر دیکھے محض کسی کے بتانے کی وجہ سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان پہلے بندر تھا اور تغیرات زمانہ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بندر انسان بنتے گٸے اور بغیر دیکھے محض کسی کے بتانے پر یقین کر سکتے ہیں کہ ان کا باپ کون ہے تو پھر اس بات پر یقین کرنا کیسے مشکل ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جس نے اس ساری کاٸنات کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ کاٸنات میں موجود ساری مخلوقات کے لیے رزق کا بھی انتظام و انصرام فرمایا ہے اور وہ ہستی کوٸی اور نہیں صرف اور صرف اللہ تعالی کی زات ہے ۔
محترم قارٸین ! یہ تو واضح ہو گیا کہ دنیا میں ہر شخص ایمان بالغیب کا قاٸل ہے اور اللہ تعالی کے وجود پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے اس کے بعد سمجھنے کا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ دنیا کی کوٸی بھی چیز خودکار نظام کے تحت نہیں چلتی اگر آج کے دور میں اگر کوٸی کہے کہ فلاں مشینری خودکار سسٹم کے تحت چلتی ہے تو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ اس مشینری اور اس کے خودکار سسٹم کو تخلیق کرنے والا کوٸی نہ کوٸی ضرور ہے ۔ جب یہ بات ثابت ہو گٸی کہ اس نظام کاٸنات اور اس ساری کاٸنات کا کوٸی نہ کوٸی تخلیق کار ضرور ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ امت مسلمہ کے نزدیک اللہ تعالی ، ہندوٶں کے نزدیک رام وغیرہ ہیں تو میں بحثیت مسلم طالب علم اللہ تعالی کے وجود کے دلاٸل پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ وہی دلاٸل قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے اور اسلام کی صداقت کے دلاٸل بھی ثابت ہوں گے ان شاء اللہ
محترم قارٸین ! جب ہم آج ساٸنس اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں نٸے نٸے انکشافات سے روشناس ہو رہے ہیں اگر یہی انکشافات آج سے چودہ سو برس قبل جب اس ٹیکنالوجی کا وجود بھی نہیں تھا ایک اُمّی (ان پڑھ) شخص میری مراد جناب محمدرسول اللہ ﷺ اٹھ کر دعوی کریں کہ قرآن کریم کی یہ آیات مجھ پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوٸی ہیں اور ان آیات میں اللہ تعالی اپنے وجود پر دلیل ٹھہراۓ تو اس بات کی صداقت پر ایمان لاۓ بغیر کوٸی چارہ نہیں ہو گا ۔ اب میں اس ضمن میں صرف چار مثالیں پیش کرنا چاہوں گا اور اللہ تعالی سے دعاگو بھی ہوں گا کہ وہ سب کو حق بات کو سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین
1۔ساٸنس کہتی ہے کہ یہ چاند سورج اور دیگر سیارے اپنے اپنے مداروں میں گردش کر رہے ہیں اور ان کی یہ گردش ایسے ہے جیسے کوٸی چیز تیر رہی ہو اسی ضمن میں اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡن َ(سورة الأنبياء : 33)
وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔
اس آیت مبارکہ میں چاند اور سورج کی گردش کے لیے اللہ تعالی نے لفظ سبح استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں تیرنا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج سے چودہ سو برس پہلے ایک ان پڑھ شخص کو کس نے مکمل طور پر درست بات بتاٸی حتی کہ گردش کے لیے وہ لفظ بیان کیا جو اس کی اصل کیفیت سے آگاہ کرتا ہے جبکہ ساٸینس موجودہ دور میں چاند اور سورج کی گردش کی کیفیت بیان کر رہی ہے
2۔ زمین کی ماہیت و شکل کے بارے میں بھی ساٸنس دانوں کی طرف سے مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں کبھی کہا جاتا رہا کہ زمین چپٹی ہے تو کبھی زمین کو گول قرار دیا جاتا رہا اب جا کر اصل حقیقت واضح ہوٸی کہ زمین بیضوی شکل کی ہے اب ہم قرآن کریم سے بھی اس بات کا جاٸزہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم زمین کی شکل کے بارے میں کیا رہنماٸی کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ
ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾
کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ تعا لٰی نے اسے بنایا ۔
رَفَعَ سَمۡکَہَا فَسَوّٰىہَا ﴿ۙ۲۸﴾
اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا ۔
وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾
اسکی رات کو تاریک بنایا اور اسکے دن کو نکالا ۔
وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾
اوراس کے بعد زمین کو ( ہموار ) بچھا دیا ۔ (سورة النازعات:27تا 30)
ان آیات کریمہ زمین کو ہموار کرنے کے لیے لفظ دَحٰىہَا آیا ہے دَحٰىہَا کا مادہ دحوہ جس کے معنی ہیں شتر مرغ کا انڈہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ زمین کو اللہ رب العزت نے شتر مرغ کے انڈے کی شکل پر ہموار کیا ہے اور عام انڈے کو عربی میں بیضہ بھی کہتے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ زمین کے ہموار کرنے کی اصل ماہیت و شکل ایک اُمِّی (ان پڑھ) شخص کو کس نے بتاٸی جس کے بارے میں آج آ کر ساٸینس انکشاف کر رہی ہے
3۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ایٹم یعنی ذرہ ناقابل تقسیم ہے لیکن بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم قابل تقسیم ہے اور ایٹم کے اجزا نیوٹران ، پروٹران اور الیکٹران ہں جبکہ اللہ تعالی نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی قرآن کریم میں یہ اشارہ د ے دیا تھا کہ ذرہ قابل تقسیم ہے آٸیے آپ کو بتاتا چلوں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کس مقام پر ایٹم یعنی ذرے کے قابل تقسیم ہونے کا اشارہ دیا ہے اللہ تعالی قرآن کریم میں سورة یونس میں فرماتا ہے کہ
وَ مَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّ مَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّ لَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ وَ مَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرَ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿سورة يونس:61﴾
اور آپ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ۔
محترم قارٸین ! اس آیت میں ذرے سے چھوٹی چیز کا بھی ذکر ہے اگر ذرہ قابل تقسیم نہ ہوتا تو ذرے سے چھوٹی چیز کا کبھی ذکر نہ ہوتا۔
4۔ انسان تخلیق کے کن کن مراحل سے گزرتا ہے اس کے بارے میں آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جو معلومات حاصل کی جا رہی ہیں اللہ رب العزت نے اپنا وجود منوانے کے لیے ان کا تفصیلی تذکرہ آج سے چودہ سال قبل قرآن کریم میں کر دیا ہے اور اس کی تاٸید موجودہ دور کے ساٸنس دان بھی کرنے پر مجبور ہیں ۔ اللہ تعالی انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل بیان کرتے ہوۓ فرماتا ہے کہ
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ۔
ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ
پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا ۔
ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ {سورة المؤمنون: 12تا14}
پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا پھراس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا ، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کر دیا ۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔
محترم قارٸین ! یہ بات قابل غور ہے کہ ایک اُمِّی (ان پڑھ) شخص کو شکم مادر میں انسان کی تخلیق کے ان مراحل کے جنہیں آج صرف جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جانا جا رہا ہے کا علم آج سے چودہ سو برس پہلے کیسے ہوا جیسا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا دعوی ہے کہ ان پر وحی نازل ہوٸی اور اللہ تعالی نے ان کے بارے میں آگاہ کیا اور ساتھ ہی اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں ہی آپ سب کا خالق ہوں تو اس ذات باری تعالی کے وجود کو تسلیم کیے بغیر کوٸی چارہ نہیں۔ اللہ تعالی کی ذات کے منکر اپنی تخلیق پر ہی غور کر لیتے تو اللہ تعالی کی ذات کا کبھی انکار نہ کرتے اسی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالی ایک اور مقام پر فرماتا ہے کہ
خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ ؕ یَخۡلُقُکُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ
{سورة الزمر : 6}
اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے ( آٹھ نر و مادہ ) اتارے وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین اندھیروں میں ، یہی اللہ تعالٰی تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر تم کہاں بہک رہے ہو ۔
محترم قارٸین ! جن تین اندھیروں میں انسان کی بناوٹ کا مندرجہ بالا آیت میں ذکر کیا جا رہا ہے انہی کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور(Keith L. Moore) کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں تاریکی کے جن تین پردوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
١۔ شکم مادر کی اگلی دیوار
٢۔ رحمِ مادر کی دیوار
٣۔ غلافِ جنین اور اس کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (amnio-chorionic membrane)
محترم قارٸین ! پروفیسر مارشل جانسن (Marshal Johnson) جو کہ امریکہ کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فایلاڈلفیا امریکہ کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embroyology) سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ ابتداء میں انہوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ محمد ﷺ کے پاس کوئی طاقت ورخوردبین ہو ۔یہ یاد دلانے پرکہ کہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور خوردبینیں پیغمبر محمد ﷺ کے زمانے سے کئی صدیاں بعد ایجاد کی گئیں ۔پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسیلم کیا کہ ایجاد ہونے والی اولین خوردبین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ (image) دکھانے کے قابل نہیں تھی اور اسکی مدد سے واضح ( خردبینی) منظر بھی دیکھا نہیں جاسکتا تھا ۔ بعدازاں انہوں نے کہا : سردست مجھے اس تصوّر میں کوئی تنازعہ دکھائی نہیں دیتا کہ جب محمد ﷺ نے قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقینا کوئی آسمانی ( الہامی ) قوت بھی ساتھ میں کارفرما تھی ۔
ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشوونما کے مراحل کی وہ درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد ( نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتاہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر 2 وغیرہ۔ دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں، اسکی بنیاد جداگانہ اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوں یاساختوں پر ہیں۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین مرحلہ وار انداز میں گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں ( ساختیں) بھی سائنسی توضیحات ( وضاحتیں) فراہم کرتی ہیں۔جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتی ہیں ۔
محترم قارٸین ! بندہ نا چیز نے بفضلہ تعالی اللہ تعالی کے وجود اور دین اسلام کی حقانیت کے دلاٸل مختصرًا پیش کر دیے ہیں ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین
عنوان : ہستی باری تعالی کے وجود کے دلاٸل
محترم قارٸین !اللہ تعالی کے وجود کے بارے میں آج میں آپ کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں ہر ایک کو اختلاف راۓ کا حق حاصل ہے لیکن دلاٸل کے ساتھ نہ کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ۔
محترم قارٸین ! میری تحقیقات کے مطابق ہر انسان خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ٗ مذہب کا پروکار ہو یا ملحد ایمان بالغیب کا لازمی طور پر قاٸل ہوتا ہے . مسلمان کے لیے تو ایمان بالغیب ویسے ہی بنیادی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایمان والوں کی صفات کا زکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ
الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ یعنی جو لوگ غیب کے ساتھ ایمان لاتے ہیں
ایک مسلمان نے اللہ تعالی کی ذات کو دیکھا نہیں لیکن اس کے باوجود ہستی باری تعالی پر ایمان لاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہی ہے جو اولاد دینے والا ہے وہی ہے جو رزق عطا کرنے والا ہے وہی ہے جو مشکلات حل کرنے والا ہے اس پروردگار عالم کے علاوہ نہ تو کسی کی عبادت کی جا سکتی اور نہ ہی کوٸی اس کا شریک ہے فقط وہ یکتا و اکیلا ہے جس نے یہ زمین و آسمان چاند سورج ستارے الغرض ساری کاٸنات کو پیدا فرمایا ہے
محترم قارٸین ! یہ تو ہو گیا مسلمانوں کا عقیدہ ایمان بالغیب اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ نہ صرف مذہب سے بے زار ہیں بلکہ اللہ تعالی کے وجود کے سرے سے ہی منکر ہیں تو وہ ایمان بالغیب کے کیسے قاٸل ہیں تو ناظرین ! سوچیے ذرہ وہ لوگ کسی نہ کسی کو تو اپنا باپ تسلیم کرتے ہی ہیں تو کیا انہوں نے اپنے ماں باپ کو اس وقت حقوق زوجیت ادا کرتے ہوۓ دیکھا کہ جس وقت ان کے والد کا نطفہ کہ جس سے وہ معرض وجود میں آۓ تھے ان کی والدہ کے رحم میں گرایا جا رہا تھا اگر نہیں دیکھا اور یقینًا کسی بھی انسان نے نہیں دیکھا تو اس کے باوجود کسی ایک شخص کو اپنا باپ قرار دے رہے ہوتے ہیں تو جناب عالی یہی ان کا ایمان بالغیب ہے اور جو لوگ ڈارون کے نظریے کے قاٸل ہیں کیا ان میں سے کوٸی کہہ سکتا ہے کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے بندر سے انسان بنتے ہوۓ دیکھا ہے اگر وہ بغیر دیکھے محض کسی کے بتانے کی وجہ سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان پہلے بندر تھا اور تغیرات زمانہ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بندر انسان بنتے گٸے اور بغیر دیکھے محض کسی کے بتانے پر یقین کر سکتے ہیں کہ ان کا باپ کون ہے تو پھر اس بات پر یقین کرنا کیسے مشکل ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جس نے اس ساری کاٸنات کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ کاٸنات میں موجود ساری مخلوقات کے لیے رزق کا بھی انتظام و انصرام فرمایا ہے اور وہ ہستی کوٸی اور نہیں صرف اور صرف اللہ تعالی کی زات ہے ۔
محترم قارٸین ! یہ تو واضح ہو گیا کہ دنیا میں ہر شخص ایمان بالغیب کا قاٸل ہے اور اللہ تعالی کے وجود پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے اس کے بعد سمجھنے کا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ دنیا کی کوٸی بھی چیز خودکار نظام کے تحت نہیں چلتی اگر آج کے دور میں اگر کوٸی کہے کہ فلاں مشینری خودکار سسٹم کے تحت چلتی ہے تو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ اس مشینری اور اس کے خودکار سسٹم کو تخلیق کرنے والا کوٸی نہ کوٸی ضرور ہے ۔ جب یہ بات ثابت ہو گٸی کہ اس نظام کاٸنات اور اس ساری کاٸنات کا کوٸی نہ کوٸی تخلیق کار ضرور ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ امت مسلمہ کے نزدیک اللہ تعالی ، ہندوٶں کے نزدیک رام وغیرہ ہیں تو میں بحثیت مسلم طالب علم اللہ تعالی کے وجود کے دلاٸل پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ وہی دلاٸل قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے اور اسلام کی صداقت کے دلاٸل بھی ثابت ہوں گے ان شاء اللہ
محترم قارٸین ! جب ہم آج ساٸنس اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں نٸے نٸے انکشافات سے روشناس ہو رہے ہیں اگر یہی انکشافات آج سے چودہ سو برس قبل جب اس ٹیکنالوجی کا وجود بھی نہیں تھا ایک اُمّی (ان پڑھ) شخص میری مراد جناب محمدرسول اللہ ﷺ اٹھ کر دعوی کریں کہ قرآن کریم کی یہ آیات مجھ پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوٸی ہیں اور ان آیات میں اللہ تعالی اپنے وجود پر دلیل ٹھہراۓ تو اس بات کی صداقت پر ایمان لاۓ بغیر کوٸی چارہ نہیں ہو گا ۔ اب میں اس ضمن میں صرف چار مثالیں پیش کرنا چاہوں گا اور اللہ تعالی سے دعاگو بھی ہوں گا کہ وہ سب کو حق بات کو سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین
1۔ساٸنس کہتی ہے کہ یہ چاند سورج اور دیگر سیارے اپنے اپنے مداروں میں گردش کر رہے ہیں اور ان کی یہ گردش ایسے ہے جیسے کوٸی چیز تیر رہی ہو اسی ضمن میں اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡن َ(سورة الأنبياء : 33)
وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔
اس آیت مبارکہ میں چاند اور سورج کی گردش کے لیے اللہ تعالی نے لفظ سبح استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں تیرنا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج سے چودہ سو برس پہلے ایک ان پڑھ شخص کو کس نے مکمل طور پر درست بات بتاٸی حتی کہ گردش کے لیے وہ لفظ بیان کیا جو اس کی اصل کیفیت سے آگاہ کرتا ہے جبکہ ساٸینس موجودہ دور میں چاند اور سورج کی گردش کی کیفیت بیان کر رہی ہے
2۔ زمین کی ماہیت و شکل کے بارے میں بھی ساٸنس دانوں کی طرف سے مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں کبھی کہا جاتا رہا کہ زمین چپٹی ہے تو کبھی زمین کو گول قرار دیا جاتا رہا اب جا کر اصل حقیقت واضح ہوٸی کہ زمین بیضوی شکل کی ہے اب ہم قرآن کریم سے بھی اس بات کا جاٸزہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم زمین کی شکل کے بارے میں کیا رہنماٸی کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ
ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾
کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ تعا لٰی نے اسے بنایا ۔
رَفَعَ سَمۡکَہَا فَسَوّٰىہَا ﴿ۙ۲۸﴾
اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا ۔
وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾
اسکی رات کو تاریک بنایا اور اسکے دن کو نکالا ۔
وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾
اوراس کے بعد زمین کو ( ہموار ) بچھا دیا ۔ (سورة النازعات:27تا 30)
ان آیات کریمہ زمین کو ہموار کرنے کے لیے لفظ دَحٰىہَا آیا ہے دَحٰىہَا کا مادہ دحوہ جس کے معنی ہیں شتر مرغ کا انڈہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ زمین کو اللہ رب العزت نے شتر مرغ کے انڈے کی شکل پر ہموار کیا ہے اور عام انڈے کو عربی میں بیضہ بھی کہتے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ زمین کے ہموار کرنے کی اصل ماہیت و شکل ایک اُمِّی (ان پڑھ) شخص کو کس نے بتاٸی جس کے بارے میں آج آ کر ساٸینس انکشاف کر رہی ہے
3۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ایٹم یعنی ذرہ ناقابل تقسیم ہے لیکن بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم قابل تقسیم ہے اور ایٹم کے اجزا نیوٹران ، پروٹران اور الیکٹران ہں جبکہ اللہ تعالی نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی قرآن کریم میں یہ اشارہ د ے دیا تھا کہ ذرہ قابل تقسیم ہے آٸیے آپ کو بتاتا چلوں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کس مقام پر ایٹم یعنی ذرے کے قابل تقسیم ہونے کا اشارہ دیا ہے اللہ تعالی قرآن کریم میں سورة یونس میں فرماتا ہے کہ
وَ مَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّ مَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّ لَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ وَ مَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرَ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿سورة يونس:61﴾
اور آپ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ۔
محترم قارٸین ! اس آیت میں ذرے سے چھوٹی چیز کا بھی ذکر ہے اگر ذرہ قابل تقسیم نہ ہوتا تو ذرے سے چھوٹی چیز کا کبھی ذکر نہ ہوتا۔
4۔ انسان تخلیق کے کن کن مراحل سے گزرتا ہے اس کے بارے میں آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جو معلومات حاصل کی جا رہی ہیں اللہ رب العزت نے اپنا وجود منوانے کے لیے ان کا تفصیلی تذکرہ آج سے چودہ سال قبل قرآن کریم میں کر دیا ہے اور اس کی تاٸید موجودہ دور کے ساٸنس دان بھی کرنے پر مجبور ہیں ۔ اللہ تعالی انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل بیان کرتے ہوۓ فرماتا ہے کہ
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ۔
ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ
پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا ۔
ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ {سورة المؤمنون: 12تا14}
پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا پھراس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا ، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کر دیا ۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔
محترم قارٸین ! یہ بات قابل غور ہے کہ ایک اُمِّی (ان پڑھ) شخص کو شکم مادر میں انسان کی تخلیق کے ان مراحل کے جنہیں آج صرف جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جانا جا رہا ہے کا علم آج سے چودہ سو برس پہلے کیسے ہوا جیسا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا دعوی ہے کہ ان پر وحی نازل ہوٸی اور اللہ تعالی نے ان کے بارے میں آگاہ کیا اور ساتھ ہی اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں ہی آپ سب کا خالق ہوں تو اس ذات باری تعالی کے وجود کو تسلیم کیے بغیر کوٸی چارہ نہیں۔ اللہ تعالی کی ذات کے منکر اپنی تخلیق پر ہی غور کر لیتے تو اللہ تعالی کی ذات کا کبھی انکار نہ کرتے اسی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالی ایک اور مقام پر فرماتا ہے کہ
خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ ؕ یَخۡلُقُکُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ
{سورة الزمر : 6}
اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے ( آٹھ نر و مادہ ) اتارے وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین اندھیروں میں ، یہی اللہ تعالٰی تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر تم کہاں بہک رہے ہو ۔
محترم قارٸین ! جن تین اندھیروں میں انسان کی بناوٹ کا مندرجہ بالا آیت میں ذکر کیا جا رہا ہے انہی کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور(Keith L. Moore) کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں تاریکی کے جن تین پردوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
١۔ شکم مادر کی اگلی دیوار
٢۔ رحمِ مادر کی دیوار
٣۔ غلافِ جنین اور اس کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (amnio-chorionic membrane)
محترم قارٸین ! پروفیسر مارشل جانسن (Marshal Johnson) جو کہ امریکہ کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فایلاڈلفیا امریکہ کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embroyology) سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ ابتداء میں انہوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ محمد ﷺ کے پاس کوئی طاقت ورخوردبین ہو ۔یہ یاد دلانے پرکہ کہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور خوردبینیں پیغمبر محمد ﷺ کے زمانے سے کئی صدیاں بعد ایجاد کی گئیں ۔پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسیلم کیا کہ ایجاد ہونے والی اولین خوردبین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ (image) دکھانے کے قابل نہیں تھی اور اسکی مدد سے واضح ( خردبینی) منظر بھی دیکھا نہیں جاسکتا تھا ۔ بعدازاں انہوں نے کہا : سردست مجھے اس تصوّر میں کوئی تنازعہ دکھائی نہیں دیتا کہ جب محمد ﷺ نے قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقینا کوئی آسمانی ( الہامی ) قوت بھی ساتھ میں کارفرما تھی ۔
ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشوونما کے مراحل کی وہ درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد ( نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتاہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر 2 وغیرہ۔ دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں، اسکی بنیاد جداگانہ اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوں یاساختوں پر ہیں۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین مرحلہ وار انداز میں گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں ( ساختیں) بھی سائنسی توضیحات ( وضاحتیں) فراہم کرتی ہیں۔جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتی ہیں ۔
محترم قارٸین ! بندہ نا چیز نے بفضلہ تعالی اللہ تعالی کے وجود اور دین اسلام کی حقانیت کے دلاٸل مختصرًا پیش کر دیے ہیں ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں