جمعرات، 15 جون، 2017

rad e qadianiat

تحریر :۔ عبیداللہ لطیف فیصل آباد
عنوان:۔ مقام صحابہ اور فتنہ قادیانیت
 یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور دین اسلام نے بیت الخلاء میں جانے سے لے کر حکومتیں چلانے تک کے لیے ایک واضح لائحہ عمل دیاہے۔ اسلامی تعلیمات کو عوام تک پہنچانے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اگر اسلامی تاریخ اور اسلامی احکامات سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز زندگی کو نکال دیا جائے تو نہ صرف دین اسلام بالکل ادھورا رہ جاتا ہے بلکہ یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ دین اسلام کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی تو تھے جنہوں نے پیارے پیغمبر علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک بات کو اس طرح اپنی زندگیوں میں اپنایا کہ اللہ رب العزت نے ان کی عظمت کا تذکرہ قرآن مقدس میں کرتے ہوئے فرمایا؛
 وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْ ہُمْ بِاِحْسَانٍِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمْ (سورۃ التوبہ 100:)
 ترجمہ؛ اور جو مہاجرین و انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار ہیں اللہ تعالیٰ ان سب پہ راضی اور وہ اس پر راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ عظیم کامیابی ہے۔
 اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں فقط صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہی نہیں بلکہ ان کے پیروکاروں کو بھی دنیامیں ہی جنت کی خوشخبریاں سنا دی ہیں اور صحیح بخاری کتاب الایمان میں نبی رحمت علیہ السلام کا فرمان عالیشان اس طرح موجود ہے کہ
حُبُّ الْاَ انْصَارِ آیَۃُ الْاِیْمَانِ وَبُغْضُ الْاَنْصَارِ آیَۃُ النِّفَاقْ
یعنی انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے اور انصار سے بغض نفاق کی علامت ہے۔
ایک اور مقام پر پیارے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بہتر 72فرقے تھے اور میری قوم میں تہتر 733فرقے ہوں گے اور ان میں سے فقط ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ گروہ کونسا ہو گا؟تو نبی رحمت علیہ السلام نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر چلے گا۔
(رواہٗ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سنن ابو داؤد ‘ جامع ترمذی)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا
لَاتَسُبُّوْااَصْحَابِیْ فَلَوْاَنَّاَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍذَھَبًامَابَلَغَ مُدًّااَحَدِھِمْ وَلَانَصِیْفَہُ (متفق علیہ)
 کہ تم میرے صحابہ کوگالی نہ دو اگرتم میں سے کوئی احدپہاڑکی مثل سوناخرچ کرے وہ ان میں سے کسی ایک کے مد اورنہ ہی آدھے مد(خرچ کرنے کے ثواب)کوپہنچ سکتا ہے
حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا
اَکْرِمُوْااَصْحَابِیْ فَاَنَّھُمْ خِیَارُکُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ
 یعنی تم میرے صحابہ کی تکریم کروپس وہ بے شک تم میں سے بہترلوگ ہیں پھر وہ جوان سے متصل ہوں گے پھروہ جوان سے متصل ہوں گے۔
(مشکوٰۃ المصابیح باب مناقب الصحابہ رضی اللہ عنھم اجمٰعین)
 محترم قارئین ! مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام کی عظمت کا اقرار ‘عزت کی حفاظت اوران کی پیروی کرنا ایمان کا حصہ ہے اور جو کوئی شخص کسی ایک صحابی رسول کے بارے میں بھی غلط عقیدہ رکھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذ اللہ غبی یا احمق وغیرہ قرار دے تو وہ مسلمان اور مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔
 محترم قارئین ! اللہ تعالی قرآن مقدس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں فرماتا ہے کہ
اُوْلٰءِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوَی (الحجرات : ۳)
ترجمہ :۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقوی کے لیے منتخب کر لیا ہے
انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں آنجہانی مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ
 ’’ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس غلط عقیدہ میں مبتلا تھے کہ گویا حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں آئیں گے ‘‘
( حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۵ مندرجہ قادیانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۵)
چنانچہ مرزا قادیانی رقمطراز ہے کہ
* ’’بعض نادان صحابی جن کودرایت سے کچھ حصہ نہ تھا‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم مندرجہ قادیانی خزائن جلد 21ص 285)
 محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی ملعون نے جہاں پر اپنے آپ کو ابن اللہ یعنی اللہ کا بیٹا قرار دینے کی ناپاک جسارت کی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا باطل دعویٰ کیا ہے وہیں پر اس انگریز کے خود کا شتہ پودے نے امت مسلمہ میں انتشار و افتراق پیدا کرنے اور دین اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بھی کیچڑ اچھالا ہے ‘ آئیے ذرا اس کذاب قادیانی اور اس کی ذریت کی طرف سے توہین صحابہ پر مبنی چند نمونے ملاحظہ فرمائیں تاکہ ان کا ظاہر و باطن واضح ہو سکے۔
مرزا قادیانی محمدرسول اللہﷺ اور اصحاب مرزا ،اصحاب محمدﷺ ؟
 محترم قارئین !یہاں پریہ بھی یادرہے کہ قادیانیوں کے نزدیک آنجہانی مرزاقادیانی خودمحمدرسول اللہ ﷺہے کیونکہ مرزا قادیانی خودمحمدرسول اللہ ﷺ ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
 ’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺکے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺکا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺکی نبوت محمدہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ قادیانی کذاب لکھتا ہے کہ
 ’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد(ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اوراسی کانام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3تا5مندرجہ قادیانی خزائن جلد 8 1صفحہ207 تا209)
مرزاقادیانی کابیٹامرزابشیراحمداپنی ایک مقام پرلکھتاہے کہ
 ’’اورچونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اورنبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجودبھی ایک وجودکاہی حکم رکھتے ہیں جیساکہ خودمسیح موعودنے فرمایاکہ صاروجودی وجودہ (دیکھوخطبہ الہامیہ صفحہ171)اورحدیث میں بھی آیاہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایاکہ مسیح موعود میری قبرمیں دفن کیاجائے گا۔جس سے یہی مرادہے کہ وہ میں ہی ہوںیعنی مسیح موعودنبی کریم سے الگ کوئی چیزنہیں ہے بلکہ وہی ہے جوبروزی رنگ میں دوبارہ دنیامیںآئے گاتاکہ اشاعت اسلام کاکام پوراکرے اورھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پراتمام حجت کرکے اسلام کودنیاکے کونوں تک پہنچاوے تواس صورت میں کیااس بات میں کوئی شک رہ جاتاہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھرمحمدؐکواتاراتاکہ اپنے وعدہ کوپوراکرے جواس نے آخرین منھم لم یلحقوابھم میں فرمایاتھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
 محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول اﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد نبی آخر الزمان علیہ السلامنہیں ہوتا بلکہ مرزا قادیانی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
 آئیے! مذیدقادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل عبارت کو بھی ملاحظہ کریں:
 ’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ او ریہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتاتو ضرور ت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ158از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
مرزاقادیانی ایک اورمقام پرلکھتاہے کہ
’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچاناہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
یہی وجہ ہے کہ مرزاقادیانی اپنی جماعت کوصحابہ کی جماعت قرار دیتے ہوئے رقمطرازہے کہ
 ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہو گا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہو گا اس لیے اس کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کہلائیں گے‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی ص 68مندرجہ قادیانی خزائن جلد 22ص 502)
 * ’’پس وہ جومیری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا‘‘
(خطبہ ا لہامیہ صفحہ 171مندرجہ قادیانی خزائن جلد 16صفحہ 258)
مقامِ ابوبکرؓوعمرؓاورفتنہ قادیانیت:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا
 ((مَالِاَحَدٍعِنْدَنَاوَقَدْکَافَےْنَاہُ مَاخَلَااَبَابَکْرٍفَاِنَّ لَہُ عِنْدَنَایَدَایُّکَافِیْہِ اللّٰہُ بِھَایَوْمَ الْقِیَامَۃِوَمَانَفَعَنِیْ مَالُ اَحَدٍقَطُّ مَانَفَعَنِیْ مَالُ اَبِیْ بَکْرٍوَّلَوْکُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا لا تَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍخَلِیْلًااَلَاوَاِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیْلُ اللّٰہِ))
 کہ ہم پرکسی کا احسان نہیں مگرہم نے اس کابدلہ دے دیا ہے سوائے ابوبکرؓ کے اس کاہم پراحسان ہے پس بے شک اللہ تعالیٰ روزقیامت اس کابدلہ دے گااور اگر میں کسی کوخلیل بناتاتوابوبکرؓ کوبناتا۔آگاہ ہوجاؤ کہ تمہاراصاحب(محمدﷺ) اللہ کاخلیل ہے۔
(رواہ ترمذی کتاب المناقب‘باب مناقب ابوبکرؓ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
((لَوْکَانَ نَبِیٌ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمَرَبْنُ الْخَطَابِ))
کہ اگرمیرے بعدکوئی نبی ہوتا تو عمر ابن خطاب ہوتا۔
(رواہ ترمذی کتاب المناقب ‘باب مناقب عمرؓبن خطاب )
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا
 ((مَامِنْ نَبِیِّ اِلَّاوَلَہُ وَزِیْرَانِ مِنْ اَہْلِ السَّمَاءِ وَوَزِیْرَانِ اَہْلِ الْاَرْضِ فَاَمَّاوَزِےْرَایَ مِنْاَہْلِ السَّمَاءِ فَجِبْرَاءِیْلُ وَمِیْکَاءِیْلُ وَاَمَّاوَزِیْرَایَ مِنْ اَہْلِ الْاَرْضِ فَاَبُوْبَکَرٍوَعُمَرُ))
 کہ کوئی نبی ایسا نہیں جن کے دو وزیر نہ ہوںآسمان والوں سے اوردوزمین والوں سے اورمیرے دووزیرآسمان والوں سے جبرائیل اورمیکائیل ہیں اورزمین والوں سے ابوبکروعمرہیں
(رواہ ترمذی کتاب المناقب ‘باب مناقب ابوبکر رضی اللہ عنہ)
 محترم قارئین!یہ توتھا ابو بکروعمر رضی اللہ عنھم اجمٰعین کامقام ومرتبہ اب مرزاقادیانی اوراس کی ذریت کی طرف سے جناب ابوبکرؓوعمرؓکی شان اقدس میں کی جانے والی گستاخی کی ناپاک جسارت بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
 * ’’ میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکر کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکر تو کیا بعض انبیاء سے بہتر ہے‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد دوئم ص 396طبع چہارم از مرزاقادیانی)
 * مرزا قادیانی کی ذریت کا عقیدہ ابو بکرو عمر رضوان اﷲعلیہم اجمعین کے بارے میں حکیم محمد حسین لاہوری کی اس تحریرسے ملاحظہ فرمائیں۔
 ’’مجھے اہل بیت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص محبت اور عاشقانہ تعلق تھا ۔مجھے اس وقت بھی تمام خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دلی ارادت ہے اور میں ان سب کی کفش برداری اپنا فخر سمجھتا ہوں مجھے اس خاندان کے طفیل سے بڑے بڑے نفع ہوئے ہیں ۔ میں ان کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتا ۔ میرے ایک محب تھے جو اس وقت مولوی فاضل بھی ہیں اور اہل بیت مسیح موعود کے خاص رکن رکین ہیں انہوں نے مجھے ایک دفعہ فرمایا کہ سچ تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بھی اتنی پیشگوئیاں نہیں جتنی مسیح موعود (مرزاقادیانی)کی ہیں۔پھر انہوں نے ایک اور بھی ایسا ہی دکھ دینے والا فقرہ بولاکہ ابوبکر و عمر کیا تھے وہ تو حضرت غلام احمد (قادیانی) کی جوتیوں کے تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہ تھے‘‘۔(معاذ اللہ)
(’’ المہدی‘‘ نمبر 2,3 ، 1915 ؁ء صفحہ 57 مؤلف حکیم محمد حسین قادیانی لاہوری منقول
از قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ از پروفیسرالیاس برنی رحمۃاللہ علیہ صفحہ 298,299 )
مقام علی رضی اللہ عنہ اورفتنہ قادیانیت:۔
 سیدناعلی رضی اللہ نہ صرف نبی کریم ﷺکے چچاکے بیٹے تھے بلکہ نبی کریم علیہ السلام کی سب سے چھوٹی اورچہیتی بیٹی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر بھی تھے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کوبچوں میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوااورحضرت علیؓ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بھی تھے۔صحیح بخاری باب مناقب علیؓ میں سعدؓبن ابی وقاصؓسے روایت موجود ہے کہ
 اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ خَرَجَ اِلَی تَبُوْکَ وَاسْتَخَلَّفَ عَلِیًّافَقَالَ اَتُخَلِّفُنِیْ فِیْ الصِبْےَانِ وَالنِّسَاءِ ؟قال : ((اَلَاتَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی ؟ اِلَّا اَنَّہُ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ))
 رسول اللہﷺ غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے توآپ ﷺ نے حضرت علیؓکو مدینہ میں اپنا نائب مقررکیاتوحضرت علیؓ نے عرض کیاکہ آپ ﷺ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟آنحضرت ﷺنے فرمایا((کیاتم اس پرخوش نہیں ہوکہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے ۔لیکن فرق صرف اتناہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا))
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ تبوک )
 حضرت علیؓ کو ایک مجوسی عبدالّرحمان بن ملجم نے شہیدکیااورشھداء کے بارے میں رب ذوالجلال قرآن مقدس میں فرماتاہے کہ
وَلَاتَقُوْلُوْالِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ*
اورجواللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں انہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں اور تم نہیں سمجھتے
(سورۃ البقرہ :154)
 محترم قارئین !مرزاقادیانی قرآنی حکم کی مخالفت کرتے ہوئے حضرت علیؓ کومردہ قرار دیتے ہوئے لکھتاہے کہ
 * ’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی خلافت لو ایک زندہ علی (مرزاقادیانی) تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو‘‘
(ملفوظات جلد اول ص 400طبع چہارم از مرزا قادیانی)
مقام امہات المومنین اور فتنہ قادیانیت:۔
 * عزیز مسلمان ساتھیو! قادیانی گروہ مرزا قادیانی کی بیوی نصرت بیگم کو ام المومنین کہتا ہے * چنانچہ مرزاقادیانی کے ملفوظات پرمشتمل کتاب میں لکھاہے :
 ’’ام المومنین کالفظ جومسیح موعودکی بیوی کی نسبت استعمال کیاجاتاہے اس پربعض لوگ اعتراض کرتے ہیں۔حضرت اقدس علیہ السلام نے سن کرفرمایا:
 نبیوں کی بیویاں اگرامہات المومنین نہیں ہوتی ہیں توکیاہوتی ہیں؟خداتعالیٰ کی سنت اورقانونِ قدرت کے اس تعامل سے بھی پتہ لگتاہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی ہم کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے جواعتراض کرتے ہیں کہ ام المومنین کیوں کہتے ہو؟ پوچھنا چاہیے کہ تم بتاؤجومسیح موعود تمہارے ذہن میں اورجسے تم سمجھتے ہوکہ وہ آکرنکاح بھی کرے گا۔کیااس کی بیوی کوام المومنین کہوگے کہ نہیں؟‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ555طبع چہارم)
 محترم قارئین!سیدہ خدیجہؓ سے نبی کریم ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ جب تک آپؓ زندہ رہیں نبی کریمﷺ نے دوسری شادی نہیں کی ۔حضرت خدیجہؓ کینبی کریمﷺ سے محبت کااندازہ سیدہ عائشہؓ کے اس بیان سے بھی بخوبی ہوتاہے جو جامع ترمذی میں موجودہے چنانچہ سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ
 ’’مجھ کو نبیﷺ کی ازواج میں سے کسی پراتنارشک نہیںآیاجتناحضرت خدیجہؓ پرآیا۔اگر میں ان کواپن زندگی میں پاتی تومیراکیاحال ہوتا میراان سے رشک کا سبب یہ تھاکہ نبیﷺان کوبہت یادکرتے اورجب بکری ذبح کرتے توڈھونڈڈھونڈ کر خدیجہؓ کی سہیلیوں کوہدیہ دیتے۔‘‘
( جامع ترمذی کتاب المناقب ‘باب فی فضل خدیجہؓ)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
((خَیرُنِسَآءِ ھَاخَدِیْجَۃُ بِنْتِ خُوَیْلِدٍوَّخَیْرُنِسَآءِ ھَامَرْیَمُ بِنْتِ عِمْرَانَ))
 کہ دنیاکی عورتوں میں اپنے زمانہ میں سب سے بہترخدیجہ رضی اللہ عنہاتھیں اوراسی طرح مریم بنت عمران اپنے زمانہ میں سب سے بہتر عورت تھیں
( جامع ترمذی کتاب المناقب ‘باب فی فضل خدیجہؓ)
 * محترم قارئین! مرزاقادیانی نصرت بیگم کوسیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاسے تشبیہ دینے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے رقمطرازہے کہ
’’اشکرنعمتی رئیت خدیجتی۔ براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸۸ ترجمہ :۔ میراشکرکرکہ تونے میری خدیجہ کوپایا۔ یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی۔جوسادات کے گھرمیں دہلی میں ہواجس سے بفضلہ تعالیٰ چارلڑکے پیداہوئے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ146مندرجہ قادیانی خزائن جلد18صفحہ 524ازمرزاقادیانی)
سیدہ فاطمہؓ اورفتنہ قادیانیت:۔
امام بخاریؒ مسوربن خزیمہؓسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
((فَاطِمۃُ بَضْعَۃُمِنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَافَقَدْاَغْضَبَنِیْ))
کہ فاطمہ میرے جگرکاٹکڑاہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
(صحیح بخاری :3411)
 سیّدہ فاطمہؓ شرم وحیاکی پیکرتھیں۔جب آپؓ مرض الموت میں مبتلاء ہوئیں توحضرت ابوبکرؓ کی اہلیہ محترمہ اسماء بنت عمیسؓآپؓ کی تیمارداری کے لیے تشریف لائیں توآپؓ نے نحیف آوازمیں کہاکہ عورتوں کاجنازہ تیار کرتے ہوئے بس ایک کپڑااوپرڈال دیاجاتاہے جس سے سترمکمل نہیں ہوتاجسم کے اعضاء کاابھارنمایاں دکھائی دیتاہے ۔یہ بات سن کر اسماء بنت عمیسؓ نے کہا۔کیامیںآپ کووہ طریقہ نہ بتاؤں جوحبشہ میں ہم نے دیکھاہے؟سیدہ فاطمہؓ کہنے لگیں ضروربتائیں۔
 اسماء بنت عمیسؓ درخت کی ٹہنیاں لے کرچارپائی پرخم دے کرباندھ دیں اورٹہنیوں کے اوپر کپڑاڈال دیا ۔چارپائی یوں دکھائی دینے لگی جیسے ہودج یاڈولی بن گئی ہو ۔
 فاطمہؓ یہ دیکھ کربہت خوش ہوئیں اورفرمایا!’’یہ طریقہ بہت اچھا ہے یہ دیکھ کرپتہ چل جائے گا کہ یہ عورت کی میت ہے ۔اللہ تعالیٰ اسی طرح تیرے پردے رکھے جس طرح تونے میرے پردے کا اہتمام کیاہے پھرفرمایاجب میں فوت ہوجاؤں تومجھے تم اور علیؓ بن طالب غسل دیں اورمیرے قریب کوئی نہ آئے۔‘‘
 سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبیﷺکی وفات کے تقریبًاچھ ماہ بعداپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں اوران کی وصیت کے مطابق انہیں رات کے سنّاٹے میں جنت البقیع میں دفن کیاگیا۔انہی دختر رسول سیدہ فاطمہؓکے بارے میں مرزاقادیانی لکھتاہے کہ
 * ’’حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ (حاشیہ ) صفحہ 9مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18صفحہ 213)
 محترم قارئین !اس اعتراض کاجوب دیتے ہوئے اکثرقادیانی یہ کہتے ہیں کہ ایک تویہ کشفی واقعہ ہے اسے ظاہرپرمحمول نہیں کیاجاسکتا دوسرااس کے حاشیہ میں مرزاصاحب نے وضاحت فرمائی ہے کہ انہوں نے مادرمہربان کی طرح میراسراپنی ران پررکھاتھا تاکہ ثابت ہوسکے کہ میں ان کی نسل میں سے ہوں۔
 آئیے ! مرزاقادیانی کاکشف کے بارے میں عقیدہ بھی ملاحظہ فرمالیں چنانچہ مرزاقادیانی رقمطراز ہے کہ
 ’’حالانکہ کشف اورخواب بھی ہرایک کے یکساں نہیں ہوتے ۔وہ کامل کشف جس کو قرآن شریف میں اظہارعلی الغیب سے تعبیرکیاگیاہے جودائرہ کی طرح پورے علم پرمشتمل ہوتاہے وہ ہرایک کوعطانہیں کیاجاتا‘صرف برگزیدوں کودیاجاتاہے اورناقصوں کاکشف اورالہام ناقص ہوتاہے جوبالآخران کوبہت شرمندہ کرتاہے۔‘‘
(حقیقت المہدی صفحہ16مندرجہ قادیانی خزائن جلد14صفحہ442)
 ’’اصل بات یہ ہے کہ مقدس اورراستبازلوگ مرنے کے بعدزندہ ہوجایاکرتے ہیں اوراکثرصاف باطن اورپرمحبت لوگوں کوعالمِ کشف میں جو بعینہ عالم بیداری ہے نظرآ جایا کرتے ہیں چنانچہ اس بارہ میں خودیہ عاجز صاحبِ تجربہ ہے بارہاعالم بیداری میں بعض مقدس لوگ نظرآتے ہیں اور بعض مراتب کشف کے ایسے ہیں کہ میں کسی طورکہہ نہیں سکتاکہ ان میں کوئی حصہ غنودگی یاخواب یاغفلت کاہے بلکہ پورے طورپربیداری ہوتی ہے اور بیداری میں گذشتہ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اورباتیں بھی ہوتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ254مندرجہ قادیانی خزائن جلد3صفحہ354)
 ’’میں کئی بارلکھ چکاہوں اورپھربھی لکھتاہوں کہ اہل کشف کے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مقدس اورراستباز لوگ مرنے کے بعدپھرزندہ ہوجایاکرتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ255مندرجہ قادیانی خزائن جلد3صفحہ355)
 ’’میرایہ بھی مذہب ہے کہ اگرکوئی امرخداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پرظاہر کیاجاتاہے مثلاًکسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق توگوعلمائے ظواہر اورمحدثین اس کوموضوع یامجروح ٹھہراویں مگرمیں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کوموضوع کہوں گا اگرخداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پرظاہر کردی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِےْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگرمجھ پرخداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اوریہ میرا مذہب میراہی ایجادکردہ مذہب نہیں بلکہ خودیہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یااہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقیدحدیث کے محتاج اورپابندنہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ45طبع چہارم)
 محترم قارئین !مرزاقادیانی کی مندرجہ بالاتحریروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کشف کی حالت بھی عین بیداری کی حالت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں کیا مرزاقادیانی کے عقیدہ کے مطابق سیّدہ فاطمہؓ نے معاذاللہ عین بیداری کی حالت میں مرزاقادیانی ملعون کاسر اپنی ران پررکھاتھا؟جہاں تک تعلق ہے لفظ مادرمہربان کاتو کیاسیدہ فاطمہؓ مرزاقادیانی کی محرم تھیں یقینًا نہیں توپھرمرزا قادیانی کیاثابت کرناچاہتا ہے۔یہاںیہ بات بھی قابل غورہے کہ نبیﷺ کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہونے کے باوجودغیرمحرموں سے پردہ ہی کرتی رہیں تو سیدہ فاطمہؓ کے بارے میں توایساسوچناہی جرم ہوگاکہ وہ کسی غیرمحرم کواپناچہرہ بھی دکھائیں توکہاں مرزاقادیانی کی ناپاک جسارت؟
مقام حسنؓ وحسینؓ اورفتنہ قادیانیت:۔
حضرت اسامہ بن زیدبیان کرتے ہیں کہ
 ’’ایک شب میں نبی ﷺ کے دولت کدہ پرحاضرہوااوردروازہ کھٹکھٹایا‘ آپ ﷺ باہرتشریف لائے‘ توآپ ﷺنے کسی چیزپرچادرلپیٹی ہوئی تھی‘میں نے عرض کیا:حضورﷺآپ نے کس شئے کولپیٹ رکھاہے؟آپ ﷺ نے چادر اٹھادی تودوخوبصورت بچے آپ ﷺ کے پہلوؤں سے لگے ہوئے تھے وہ حسنؓ وحسینؓ تھے آپﷺ نے فرمایا!یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اورمیری بیٹی فاطمہؓکے بیٹے ہیں۔ اورمیرے دوست علیؓکے بیٹے ہیں جوان سے محبت کرے میں بھی اس سے محبت کرتاہوں‘‘
(جامع ترمذی کتاب المناقب)
نبی ﷺنے حضرات حسن وحسین رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی شان میں فرمایاکہ
((اِنَّہُمَارَیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا))
’’ یہ دونوں(حسنؓ وحسینؓ)تودنیامیں میرے پھول ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری ‘فضائل اصحاب النبی ‘باب مناقب الحسن والحسین)
جب نبی ﷺ حضرت حسن وحسین رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کودوش مبارک پرسوارکرتے توفرماتے:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُمَافَاَحِبَّہُمَاوَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہُمَا))
 ’’اے اللہ!جس طرح میں ان دونوں سے محبت رکھتاہوں‘توبھی ان سے محبت رکھ اورجوان دونوں کومحبوب رکھے توبھی اس کومحبوب بنالے۔‘‘
(جامع ترمذی کتاب المناقب)
 یہ سعادت بھی تو حضرت حسنؓ وحسینؓ کاہی مقدر اور نصیب ہے کہ بچپن میں جب آپؓ شدت پیاس سے روئے تو نبیﷺ نے اپنی زبان اقدس آپؓ کے منہ میں ڈالدی جسے چوس کر آپؓ نے اپنی پیاس بجھائی (بحوالہ طبرانی معجم الکبیر‘مجمع الزوائد)انہی حسینؓ کوان کے 72ساتھیوں سمیت شقی القلب ظالم کوفیوں نے اہل خانہ سمیت میدان کربلا میں مظلومانہ طورپرشہید کردیاحضرت حسینؓکے ساتھ میدان کربلامیں ان کے خاندان کے جوافرادشہیدہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں
(۱)جعفربن عقیل بن ابی طالب (۲)عبدالرحمان بن عقیل بن ابی طالب (۳۳)عبداللہ بن عقیل بن ابی طالب(۴)محمدبن ابی سعیدبن عقیل بن ابی طالب (۵)عبداللہ بن مسلم بن عقیل بن ابی طالب (۶) محمدبن عبداللہ بن جعفرؓطیار بن ابی طالب آپ حضرت زینبؓ کے بیٹے اورسیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھانجے تھے (۷)عون بن عبداللہ بن جعفرطیارؓ (۸)ابوبکر بن حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب آپ سیدناحسینؓ کے حقیقی بھتیجے تھے (۹)عمر بن حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب ‘آپ بھی سیدنا حسینؓ کے حقیقی بھتیجے تھے (۱۰)عبداللہ بن حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب (۱۱) قاسم بن حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب ‘آپ دونوں بھی حضرت حسینؓ کے حقیقی بھتیجے تھے (۱۲)محمد بن علیؓ بن ابی طالب (۱۳)عثمان بن علیؓ بن ابی طالب (۱۴) ابوبکر بن علیؓ بن ابی طالب (۱۵)جعفربن علیؓبن ابی طالب (۱۶)عباس بن علیؓ بن ابی طالب (۱۷)عبداللہ بن علیؓ بن ابی طالب ‘آپ سب حضرت حسینؓ کے علاتی بھائی تھے ۔علاتی بھائی اسے کہتے ہیں جن کی ماں الگ الگ ہواورباپ ایک ہو (۱۸)علی اکبربن حسینؓبن علیؓ بن ابی طالب ‘(۱۹)علی اصغر بن حسینؓ بن علیؓ بن ابی طالب ‘آپ کاصحیح نام عبداللہ تھا (۲۰)فیروزیہ حضرت حسینؓ کے باوفا غلام تھے
 محترم قارئین!اب میں اہل تشیع کے بہت بڑے اورمعروف عالم ملاں باقرمجلسی کی کتاب ’’بحارالانوارمیں دی گئی شہداء کربلا کے ناموں کی مکمل فہرست تحریر کیے دیتا ہوں لہٰذاملاں باقرمجلسی رقمطراز ہے کہ:۔
شہدائے بنی ہاشم در کربلا
1:۔ * حضر ت سید الشہدا ء امام حسین ؑ
2:۔ عباس بن امیر المومنین ؑ (حضرت علیؒ )
3:۔عبداللہ بن امیرالمومنینؑ
4:۔جعفربن امیر المومنین ؑ
5:۔عثمان بن امیر المومنینؑ
6:۔محمدبن امام حسینؑ
7:۔علی اکبر بن امام حسین ؑ
8:۔عبداللہ رضیع بن امام حسینؑ
9:۔ابوبکربن امام حسینؑ
10:۔قاسم بن امام حسین ؑ
11:۔عبداللہ بن امام حسن ؑ
12:۔عون بن عبداللہ بن جعفر
13:۔محمد بن عبداللہ بن جعفر
14:۔جعفر بن عقیل
15:۔عبدالرحمن بن عقیل
16:۔عبداللہ بن مسلم بن عقیل
17:۔ابو عبداللہ بن مسلم بن عقیل
188:۔محمد بن سعد بن عقیل
* (نوٹ از مؤلف )سید الشھدا کا لقب صرف اور صرف حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے مخصوص ہے چنانچہ حضرت
جابر رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ
سیدالشھدائی حمزۃورجل قائم الی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ(المستدرک حاکم195/3)
 اس لئے محض اپنی مرضی اور محبت کی وجہ سے کسی بھی ہستی کو وہ لقب نہیں دے سکتے جو نبی کریم علیہ السلام نے کسی کے لئے مخصوص کیا ہو
انصار حسین ؑ بحساب حروف ابجد
1:۔انس بن کامل اسدی
2:۔اسلم بن کثیرازدی الاعرج
3:۔ابوتمامہ عمر بن عبداللہ صائدی
4:۔بشربن عمیر حضرمی
5:۔جویربن مالک ضبع
6:۔جندب بن حجر خولانی
7:۔جبلہ بن علی شیبانی
8:۔حبیب بن مظاہر اسدی
9:۔حربن یزید ریاحی
10:۔حجاج بن یزید سعدی
11:۔حجاج بن مسروق جعفی
12:۔حیان بن حارث ازدی
13:۔حنظلہ بن اسعد شیبانی
14:۔زہیر بن قیس بجلی
15:۔زہیر بن بشرخثمعی
16:۔زاہر غلام عمروبن حمق خزاعی
17:۔سلیمان غلام امام حسین ؑ
18:۔سالم غلام عامر بن مسلم
19:۔ سیف بن مالک
20:۔سعید غلام عمر بن خالد صیداوی
21:۔سالم کلبی غلام بنی مدنےۃالکلبی
22:۔سوار بن بن ابوحمیر فہمی(مجروع)
23:۔شبیب بن عبداللہ نہشلی
24:۔شبیب بن حارث بن سریع
25:۔شوزب غلام شاکری
26:۔ضرغام بن مالک
27:۔ عبداللہ حنفی
28:۔ عمروبن کعب انصاری
29:۔ عمر بن قرطہ انصاری
30:۔عبدالرحمن بن عمیر کلبی
31:۔عبداللہ عروہ غفاری
32:۔عبدالرحمن بن عروہ غفاری
33:۔عبدالرحمن بن عبداللہ ارجی
34:۔عماربن ابوسلامہ
35:۔عابس بن ابوشبیب شاکری
36:۔عامر بن مسلم
37:۔عون بن جون غلام ابو ذرغفاری
38:۔عمرو بن عبداللہ جندعی
39:۔عمیر بن ضبیعہ
40:۔عبداللہ بن ثبیت قیسی
41:۔عبیداللہ بن ثبیت قیسی
ؔ 42:۔عمار بن حسان طاعی
43:۔ عمر بن خالد صیداوی
44:۔عمر بن جندب
45:۔عمرو بن عبداللہ جندعی
46:۔ قارب غلام امام حسینؑ
47:۔قیس بن سیہرصیداوی
48:۔ قاسط بن ظہرتغلبی
49:۔قعنت بن عمرو بن نمری
50:۔ قاسم بن حبیب ازدی
51:۔کرش بن ظہیر
52:۔ کنانہ بن عتیق
53:۔ منہج غلام امام حسینؑ
54:۔مسعود بن حجاج
55:۔ ابن مسعود بن حجاج
56:۔مجمع بن عبداللہ
57:۔مالک بن عبداللہ سریع
58:۔نعیم بن عجلان انصاری
59:۔نافع بن بلال بجلی
60:۔یزید بن حسین ہمدانی
611:۔یزید بن ثبیت قیسی*
نوٹ:۔ یہ فہرست زیارت ناجیہ سے اخذ کی گئی ہے اس لیے صرف ان ناموں کولکھا ہے جو ان میں مذکور ہیں۔ورنہ ممکن ہے کچھ شہداء باقی رہ گئے ہوں ۔
(بحارالانوار،ازملاں باقر مجلسی جلداول صفحہ287تا289اردو
مترجم طبع کردہ محفوظ بک ایجنسی امام بارگاہ مارٹن روڈ کراچی نمبر5)
انہی حسینؓ کے بارے میں مرزاقادیانی اپنی خباثت کامظاہرہ کرتے ہوئے لکھتاہے کہ
* کربلائے است سیرہرآنم
صد حسین است درگریبانم
ترجمہ؛ میری سیرہر وقت کربلا میں ہے سو 100حسین ہروقت میری جیب میں ہیں‘‘
(نزول المسیح ص 99مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18ص 477از مرزا قادیانی)
 *محترم قارئین! ذرا سوچیے ! اگر صحابہ رضی اللہ عنھم ،تابعین،تبع تابعین حتی کہ شھدائے کربلا کانام بھی یزید ہو سکتا ہے تو آج کے مسلمانوں کا کیوں نہیں؟
* ’’اور انہوں نے کہا کہ اسی شخص (مرزا قادیانی) نے امام حسن اور حسین سے اپنے تئیں اچھا سمجھا میں کہتا ہوں کہ ہاں میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا‘‘
(اعجاز احمدی ص 52مندرجہ قادیانی خزائن جلد 19ص 164از مرزا قادیانی)
* ’’اور میں خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے ‘‘
(اعجا ز احمدی ص 81مندرجہ قادیانی خزائن جلد 19ص 193از مرزا قادیانی)
 * ’’تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا اور تمہارا اور دصرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے پس یہ اسلام پر مصیبت ہے کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ(نجاست) کاڈھیر(ذکر حسین) ہے‘‘
(اعجاز احمدی ص 82مندرجہ قادیانی خزائن جلد 19ص 194از مرزاقادیانی)
 * ’’اے عیسائی مشنریو! اب ربنا المسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کر ہے اور اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے‘‘
(دافع البلاء ص 17مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18ص 233ازمرزا قادیانی)
 * ’’امام حسین کی شہادت سے بڑھ کر حضرت مولوی عبداللطیف صاحب (قادیانی) کی شہادت ہے جنہوں نے صدق اور وفا کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جن کا تعلق شدید بوجہ استقامت سبقت لے گیا تھا‘‘
(ملفوظات جلد چہارم ص 364طبع چہارم ‘ مرزا قادیانی)
 * ’’صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی نسبت حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ ایک اسوہ حسنہ چھوڑ گئے ہیں اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کا واقعہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔،،
(ملفوظات جلد سوئم ص 496طبع چہارم از مرزا قادیانی)
 * ’’ایسا ہی خداتعالی اور اس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خداتعالی کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اس کو تمام انبیاء کے صفات کاملہ کامظہر ٹھہرایا ہے اب سوچنے کے لائق ہے امام حسین کو اس سے کیا نسبت ؟ یہ اور بات ہے کہ سنی یا شیعہ مجھ کو گالیاں دیںیامیرانام کذاب،دجال،بے ایمان رکھیں لیکن جس کو خداتعالی بصیرت عطاکرے گا وہ مجھے پہچان لے گا کہ میں مسیح موعود ہوں‘‘
(نزول المسیح صفحہ 48,49مندرجہقادیانیخزائن جلد18 صفحہ426,427)
مقام اصحاب بدر اورفتنہ قادیانیت:۔
 محترم قارئین !اصحاب بدرکی عظمت اورشان توکسی سے پوشیدہ نہیں کیونکہ نبی کریمﷺکا فرمان اقدس ومقدس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کودیکھ کرفرمایا
((اِعْمَلُوْامَاشِءْتُمْ فَقَدْوَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃاَوْفَقَدْغَفَرْتَ لَکُمْ))
یعنی تم جیسے چاہو کام کروتمہارے لیے توجنت واجب ہوگئی یامیں نے تم کوبخش دیا
(صحیح بخاری کتاب المغازی )
رفاعہ رضی اللہ عنہ جوبدری صحابہ سے ہیں روایت کرتے ہیں کہ
 جَاءَ جِبْرِیْلَ اِلیٰ النَّبِیِّ فَقَالَ((مَاتَعُدُّوْنَ اَہْلَ بَدْرٍفِیْکُمْ قَالَ: مِنْ اَضَلِ الْمُسْلِمِیْنَ اَوْکَلِمَۃٍنَحْوَھَاقَالْ: وَکَذَالِکَ مَنْ شَہِدَبَدْرًامِنَ الْمَلَاءِکَۃِ))
(صحیح بخاری ‘کتاب المغازی)
 یعنی جبرائیل علیہ السلام نبیﷺ کے پاس آئے کہنے لگے آپ ﷺ بدروالوں کوکیا سمجھتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا!سب مسلمانوں میں افضل یاایساہی کوئی کلمہ کہاتو جبرائیل علیہ السلام کہنے لگے اسی طرح وہ فرشتے جوجنگ بدر میں حاضر ہوئے تھے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔
* محترم قارئین ! مرزا قادیانی ملعون نے اصحاب بدر کے مقابل اپنے پیروکاروں میں سے 3133لوگوں کی فہرست اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم ص 40تا ص 45پر اور روحانی خزائن جلد 11ص 325تا ص 328پر دی ہے ۔اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد جسے قادیانی گروہ قمر الانبیاء کے لقب سے یاد کرتا ہے اپنی کتاب ’’سیرت المہدی‘‘ میں لکھتا ہے کہ
 ’’میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست تیار کی تو بعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ حضور ہمارا نام بھی اس فہرست میں درج کیا جائے یہ دیکھ کر ہم کو بھی خیال پیدا ہوا کہ حضور علیہ السلام سے دریافت کریں کہ آیا ہمارا نام درج ہو گیا ہے یا کہ نہیں تب ہم تینوں برادران مع منشی عبدالعزیز صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا اس پر حضور نے فرمایا کہ میں نے آپ کے نام پہلے ہی درج کئے ہوئے ہیں مگر ہمارے ناموں کے آگے ’’مع اہل بیت‘‘ کے الفاظ بھی زائد کیے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1896-977ء میں تیار کی تھی اور اسے ضمیمہ انجام آتھم میں درج کیا تھا۔ احادیث میں سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک دفعہ اس طرح اپنے اصحاب کی فہرست تیار کروائی تھی نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ تین سو تیرہ کا عدد اصحاب بدر کی نسبت سے چنا گیا تھا کیونکہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مہدی کے ساتھ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق 313اصحاب ہوں گے جن کے اسماء ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے‘‘
(سیرت المہدی از مرزا بشیر احمد جلد اول ص 633روایت نمبر 692طبع چہارم)
محترم قارئین!مرزاقادیانی نے انجام آتھم میں اصحاب بدر کے مقابل جو3133افراد کی فہرست ترتیب دی ہے اس کے آغازمیٍں مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
 ’’اب ظاہرہے کہ کسی شخص کوپہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہواکہ وہ مہدی موعو د ہونے کا دعویٰ کرے اوراس کے پاس چھپی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘میں تین سو تیرہ نام درج کرچکاہوں اوراب دوبارہ اتمام حجت کے لیے ۳۱۳تین سوتیرہ نام ذیل میں درج کرتاہوں تاہرایک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اوربموجب منشاء حدیث کے یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفا رکھتے ہیں اورحسب مراتب جس کواللہ تعالیٰ بہترجانتاہے بعض بعض سے محبت انقطاع الی اللہ اورسرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کواپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم کرے ۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ41مندرجہ قادیانی خزائن جلد11صفحہ325)
مندرجہ بالاتحریرمیں مرزاقادیانی نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کابھی ذکرکیاہے کہ ان 3133 افراد کے نام اس کتاب میں بھی شامل ہیں اس کتاب کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے اس کتاب کے آخر میں ایک اشتہاردیاہے جس میں مرزاقادیانی لکھتاہے
 ’’اخیرمیںیہ بات بھی لکھناچاہتاہوں کہ اس کتاب کی تحریرکے وقت دودفعہ جناب رسول اللہﷺکی زیارت مجھ کوہوئی اور آپ ﷺنے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آوازسے لوگوں کے دلوں کواس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے ھٰذاکتاب مبارک فقومواللاجلال والاکرام یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ652مندرجہ قادیانی خزائن جلد5صفحہ652)
محترم قارئین !آنجہانی مرزاقادیانی نے اصحاب بدر کے مقابل جو 3133افراد کی فہرست مرتب کی ہے اس فہرست میں159ویں نمبرپرایک نام ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کا بھی ہے جومرزاقادیانی کے نزدیک صاحب صدق وصفاہے اور اس کانام اس کتاب(آئینہ کمالات اسلام)میں بھی درج ہے جسے بقول مرزاقادیانی تحریرکرتے ہوئے نبی کریمﷺ کی دومرتبہ زیارت ہوئی ہے اوراس کتاب کے اکرام وعزت میں فرشتوں کو قیام کرنے کاحکم ملا ہے ۔یہی ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی قادیانیت سے تائب ہو کرمسلمان ہواتومرزاقادیانی نے اس کے بارے میں لکھاکہ
 ’’ایک شخص (عبدالحکیم)ہے جوبیس برس تک میرامریدرہاہے اورہرطرح سے میری تائید کرتارہاہے اورمیری سچائی پراپنی خوابیں سناتارہاہے ۔اب مرتدہوکراس نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام اس نے میری طرف منسوب کر کے کانادجال رکھاہے۔‘‘
(ملفوظات جلد5صفحہ397طبع چہارم)
مزیدآنجہانی مرزاقادیانی ایک اشتہار بعنوان ’’خداسچے کاحامی ہو‘‘میں لکھتاہے کہ
 ’’ڈاکٹرعبدالحکیم صاحب جوتخمیناًبیس برس تک میرے مریدوں میں داخل رہے چنددنوں سے مجھ سے برگشتہ ہوکرسخت مخالف ہوگئے ہیں اوراپنے رسالہ مسیح الدجال میں میرانام کذاب‘مکار‘شیطان ‘دجال‘شریر‘حرام خوررکھاہے اورمجھے خائن اورشکم پرست اوراورنفس پرست اورمفسداورمفتری اورخداپرافتراء کرنے والاقراردیاہے ۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ672طبع چہارم ازمرزاقادیانی)
مزیدایک مقام پر مرزاقادیانی لکھتاہے کہ
 ’’عبدالحکیم نامی ایک شخص جو پٹیالہ کی ریاست میں اسسٹنٹ سرجن ہے جوپہلے اس سے ہمارے سلسلہ بیعت میں داخل تھامگربباعث کمی ملاقات اورقلت صحبت دینی حقائق سے محضبے خبراورمحروم تھااورتکبراورجہل مرکب اوررعونت اوربدظنی کی مرض میں مبتلاء تھا۔(یادرہے کہ انہی عبدالحکیم پٹیالوی کومرزاقادیانی اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں صاحب صدق وصفابھی قراردے چکا ہے اور ان کے لیے ثابت قدمی کی دعاکرچکاہے مذیداپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں بھی ان کا نام درج کرچکاہے اوریہ وہی کتاب ہے جسے تحریر کرتے وقت بقول آنجہانی مرزاقادیانی دومرتبہ نبی کریم ﷺکی زیارت ہوئی اورآپﷺنے اس کتاب کی تحریر پر مسرت کااظہارفرمایا) اپنی بدقسمتی سے مرتدہوکراس سلسلہ کادشمن ہوگیاہے۔‘‘
(حقیقت الوحی صفحہ112مندرجہ قادیانی خزائن جلد22صفحہ112)
 مندرجہ بالا تحریروں اوربحث کے بعدسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا اصحاب بدر میں بھی کوئی ایسی شخصیت تھی جومرتدہوگئی ہو اگرایسانہیں ہوااوریقیناًنہیں ہواتو پھرمرزاقادیانی نبی کریمﷺکاظل اوربروزکیونکرہوسکتاہے؟جبکہ اس نے جن لوگوں کواصحاب بدر کے مقابل کھڑاکیا تھااورجن کوصاحب صدق وصفاقراردیاتھا انہی میں سے ایک شخص(ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی)کومرتد قراردے رہاہے۔
 دوسرے نمبر پریہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے کے لیے دعابھی کی تھی کہ ’’ اللہ تعالیٰ ان سب (انجام آتھم میں شائع ہونے والی فہرست میں شامل افراد)کواپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم رکھے‘‘تواس کے باوجود ڈاکٹر پٹیالوی بقول مرزاقادیانی مرتد کیوں ہوگیاجبکہ دوسری طرف مرزاقادیانی اس بات کابھی دعویدار ہے کہ اس کی دعاردنہیں ہوتی چنانچہ مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
 ’’اوردعا کے بعد یہ الہام ہوا اجیب کلّ دعائک الافی شرکائک میں تمہاری ساری دعائیں قبول کروں گامگرشرکاء کے بارے میں نہیں۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ82مندرجہ قادیانی خزائن جلد15صفحہ210)
 سوال یہ پیداہوتاہے کہ ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے حق میں مرزاقادیانی کی دعاقبول کیوں نہ ہوئی جبکہ وہ اس کا شریک بھی نہیں تھا؟کیاہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ مرزاقادیانی کامندرجہ بالا الہام جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میں تمہاری ساری دعائیں قبول کروں گامگرشرکاء کے بارے میں نہیں۔‘‘اﷲتعالیٰ کی ذات پرافتراء ہے ۔اگرافتراء نہیں توڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی مرزائیت سے تائب ہوکرمسلمان (بقول مرزامرتد) کیوں ہوا؟
 محترم قارئین !ڈاکٹرپٹیالوی جب قادیانیت سے تائب ہواتواس نے بھی دعویٰ کیاکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرزاقادیانی کے متعلق الہام ہواہے کہ مرزاقادیانی تین سال کے اندراندرہلاک ہوجائے گاقطع نظراس بات کے کہ ڈاکٹرپٹیالوی کایہ دعویٰ سچاتھایاباطل ‘اس سلسلہ میں ہم مرزاقادیانی کی مذیدتحریریں ملاحظہ کرتے ہیں۔
مرزاقادیانی نے 16اگست1906ء کوایک اشتہارشائع کیااس میں مرزاقادیانی نے لکھاکہ
 ’’میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیشگوئی جواخویم مولوی نورالدین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں ’’مرزاکے خلاف 12جولائی 1906ء کویہ الہامات ہوئے ہیں۔ مرزا مسرف کذاب اورعیار ہے صادق کے سامنے شریر فناہوجائے گااوراس کی میعادتین سال بتائی گئی ہے۔‘‘
 اس کے مقابل پروہ پیشگوئی ہے جوخداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں
 ’’خداکے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اوروہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں ان پرکوئی غالب نہیںآسکتا۔فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوارتیرے آگے ہے پرتونے وقت کو پہچانانہ دیکھانہ جانا۔رب فرق بین صادق وکاذب انت تریٰ کل مصلح صادق۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ673‘6744طبع چہارم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں