تحریر :۔ عبیداللہ لطیف فیصل آباد عنوان:- مرزا قادیانی کے دعوی باطلہ ظل اور بروز کی حقیقت
نوٹ :۔ اس مضمون میں جتنی بھی قادیانی کتب کے حوالہ جات دئیے گئے ہیں وہ تمام کتب بفضلہ تعالی بندہ عاجز کے پاس موجود ہیں اگر کوئی دوست حوالہ دیکھنا چاہتا ہے تو درج ذیل نمبر پر مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے 0304.6265209
محترم قارئین ! یوں تو مرزا غلام احمد قادیانی متنبی قادیاں نے بے شمار دعوے کیے تھے کبھی مجدد ہونے کا دعوی کیا تو کبھی محدث ہونے کا اور کبھی مثیل مسیح کا تو کبھی خود ہی مریم اور بعدازاں عیسی بن مریم کا دعوی کر دیا ،کبھی محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعوی کیا تو کبھی تمام انبیا ء کے مجموعہ ہونے کا دعوی کر دیا ۔یہاں تک کہ ظل اور بروز ہونے کی آڑ لے کر ظلی نبی کا دعوی تو کیا ہی تھا ظلی طور پر اللہ تعالی ہونے کا دعوی بھی کر دیا چنانچہ مرزاقادیانی کے ملفوظات پر مشتمل کتاب میں مرزاقادیانی کا ایک ملفوظ کچھ اس طرح موجود ہے کہ ’’خدا کے ماموروں میں بھی کبریائی ہوتی ہے کیونکہ وہ ظلّ الٰہی ہوتے ہیں ۔‘‘ (ملفوظات جلد5صفحہ 513طبع جدید) اسی طرح مرزاقادیانی کا فرزند اور قادیانیوں کا خلیفہ دوم میاں بشیر الدین محمود رقمطراز ہے کہ ’’غرض رسول کریم صفات الہی کاکامل مظہر ہیں مگر مسیح موعود بھی بوجہ اس کے کہ وہ آپ ﷺ کاکامل ظل ہے آپ کے نور کو حاصل کر کے ظلیّ طور پر اس مقام کا مظہر ہے۔‘‘ (انوار العلوم جلد 6صفحہ 453,454) محترم قارئین! جیساکہ آپ جان چکے ہیں کہ آنجہانی مرزاقادیانی نے جہاں دیگر کئی دعوے کیے وہیں اس نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاظل اور بروز ہونے کا دعوی بھی کیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ قادیانی ذریت مرزاقادیانی کو ظلی اور بروزی نبی بھی تسلیم کرتی ہے ۔ قبل اس کے کہ مرزا قادیانی کے اس دعوی کی حقیقت کو جانچا جائے عقیدہ ختم نبوت اوراسلام میں ظل اور بروز کے تصورکے بارے میں جاننا ضروری ہے اس لیے جب میں ظل اور بروز ککے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو ظل اور بروز کی یہ ا صطلاح قرآن وحدیث میں مجھے کہیں بھی نظر نہیں آئی اور نہ ہے کوئی ایسا تصور مجھے قرآن وسنت یا صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کے اقوال و افعال سے مجھے کہیں ملا اسی تناظر میں جب میں نے قادیانی کتب کا مطالعہ کیا تو مرزا قادیانی نے ظل کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’’عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد ﷺاس کانبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگرجس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔ کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے۔ پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خداسے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبو ت کا خلل انداز نہیں۔ جیسا کہ جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘ (کشی نوح صفحہ 18، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ16) اسی طرح بروز کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’صوفیوں کا یہ مقرر شدہ مسئلہ ہے کہ بعض کاملین اسی طرح پر دوبارہ دنیا میں آ جاتے ہیں کہ ان کی روحانیت کسی اور پر تجلی کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ دوسرا شخص گویا پہلا شخص ہی ہو جاتا ہے ہندؤوں میں بھی ایسا ہی اصول ہے اور ایسے آدمی کا نام وہ اوتار رکھتے ہیں ۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 125مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 291) محترم قارئین ! قاضی نذیر احمد لائلپوری اپنی کتاب احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک کے صفحہ87پر بروز کی حقیقت بیان کرتے ہوے لکھتا ہے کہ ’’(1) شیخ محمد اکرم صابری اسی جگہ بروز کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں :۔ روحانیتِ کمَّلِ گاہے بر ارباب ریاضت چناں تصرف می فرمایدفاعلِ افعالِ اومی گرددوایں مرتبہ را صوفیہ بروزمی گویند۔ (اقتباس الانوار) ترجمہ :۔ کامل لوگوں کی روحانیت ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہے اس مرتبہ کو صوفیاء بروز کہتے ہیں ۔ (2) خواجہ غلام فرید چاچڑا ں شریف والے فرماتے ہیں وَالْبُرُوْزُاَنْ یُفِیْضَ رُوْحٌ مِنْ اَرْوْاحِ الْکُمَّلِ عَلیٰ کَامِلٍ کَمَا یُفِیْضُ عَلَیْہِ التَجَلّیَاتُ وَھُوَ یَصِیْرُ مَظْھَرَہُ وَیَقُوْلُ اَنَا ھُوَ۔ (اشارات فریدی حصہ دوم صفحۃ 110) ترجمہ:۔ بروز یہ ہے کہ کاملین کی ارواح میں سے کوئی روح کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ اس پر تجلیات کا افاضہ ہوتا ہے اور وہ اس کا مظہر بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں وہی ہوں ۔ (3) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کا بروز قرار دے کر کہتے ہیں ۔ ھَذَا وَجُوْدُ جَدِّ یْ مُحَمَّدٍ ﷺ لَا وَجُوْدَ عَبْدِالْقَادِرْ۔ (گلدستہ کرامات صفحہ 8مؤلفہ مفتی غلام سرور صاحب مطبوعہ افتخار دہلوی) ترجمہ :۔ میرا وجود میرے دادا محمد ﷺ کا وجود ہے عبدالقادر کاوجود نہیں۔ اس عبارت میں حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃ نے اپنا فنا فی الرسول ہونے کا مقام بیان کیا ہے گویا کہ فنا فی الرسول کا مقام حاصل کرنے کی وجہ سے آپ کا وجود بروزی طور پر آنحضرت ﷺ کا وجود بن گیا نہ کہ اصالتًا۔ چونکہ آنحضرت ﷺ کی وفات ثابت ہے اس لئے یہ امر استعارہ کے لئے قرینہ حالیہ ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃنے اپنے آپ کو فنا فی رسول ہونے کی وجہ سے بروزی طور پر استعارۃً محمد ﷺ قرار دیا ہے ۔‘‘ (احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک صفحہ 87,88از قاضی محمد نذیر لائلپوری) محترم قارئین ! جب ہم قاضی نذیر لائلپوری کی مندرجہ بالا تحریر کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قادیانیوں کے پاس مرزاقادیانی کو ظلی اور بروزی نبی منوانے کے لئے قرآن و سنت اور آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی ایک بھی دلیل میسر نہیں آئی تو انہوں نے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق بعض صوفیوں کی طرف منسوب اقوال کے حوالے پیش کئے آئیے ان حوالہ جات کا بھی جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کہا ں تک درست ہیں ۔ قاضی نزیر لائلپوری نے پہلا حوالہ ایک صوفی اکرم صابری کی کتاب اقتباس الانوار کا دیا ہے جو تمام تر کوششوں کے باوجود بندہ عاجز کہیں سے بھی نہیں مل سکی اور جبتک اصل کتاب نہ مل سکے اسوقت تک اس حوالے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ قادیانی ذریت کو اصل تحریر کو بدلنے کا ملکہ حاصل ہے جسکی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ مرزا قادیانی کے مخالفین میں سے ایک نام مولانا غلام دستگیر قصوری ؒ کا بھی ہے جنہوں نے مرزا قادیانی کے خلاف ایک کتاب بعنوان ’’فتح رحمانی ‘‘ لکھی اور اسی طرح ایک اور بزرگ تھے مولانا اسمعیل علیگڑھی ؒ انہوں نے بھی مرزاقادیانی کے خلاف ایک کتاب بعنوان ’’اعلاء الحق الصریح ‘‘ لکھی مولانا غلام دستگیر قصوری ؒ نے اپنی کتاب کے صفحہ 27پر گذشتہ زمانے کے ایک کاذب مہدی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ وہ محمد طاہر کی دعا سے ہلاک ہو گیا تھا اس کے بعد یوں لکھا کہ ’’یا مالک الملک جیسا کہ تونے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع البحار کی دعا اور سعی سے اس مہدی کاذب اور جعلی مسیح کا بیڑہ غارت کیا تھا ،ویسا ہی دعا اور التجا اس فقیر قصوری کان اللہ لہ سے ( جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے ) مرزاقادیانی اور اس کے حواریوں کو توبہ نصوح کی توفیق رفیق فرما ۔ اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا: فقطع دابر القوم الّذین ظلموا والحمدللہ رب العالمین انّک علی کلّ شئی قدیر و بالاجابۃ جدیر آمین۔ (فتح رحمانی صفحہ 27) اس دعا کا مدعا بالکل واضح ہے کہ یا الہی یا تو مرزاقادیانی کو توبہ کی توفیق نصیب فرما یا ہلاک کر دے ۔ مگر یہ دعوی مولانا قصوریؒ نے بالکل نہیں کیا کہ میری زندگی میں ہی اسے ہلاک کر اور نہ ہی یہ کہا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے بلکہ ان کی دعا میں تو یہ وسعت ہے کہ جب بھی مرزاقادیانی توبہ کے بغیر مرے گا تو مولانا قصوری ؒ کی دعا کو قبول سمجھا جائے گا ۔ پس ثابت ہوا کہ مولا نا قصوری ؒ کی دعا کامدعا یا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مرزاقادیانی میری زندگی میں ہی مرے گا یایہ کہ جو جھوٹا ہوگا وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو گا۔ مولانا اسمعیل علیگڑھیؒ کی کتاب میں تو اتنا بھی نہیں ہے اب ملاحظہ فرمائیں کہ مرزاقادیانی ان دونوں بزرگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی محمد اسمعیل علیگڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ اگر وہ کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا کیونکہ وہ کاذب ہے ۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر تو پھر بہت آپ ہی مر گئے اور اس طرح پر ان کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا۔‘‘ (اربعین نمبر 3صفحہ 9مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ394) مرزاقادیانی کی اس تحریر کا مدعا مولانا قصوری ؒ کی تحریر سے بالکل الگ ہے یہاں پر مرزاقادیانی کے جھوٹا ہونے کی صورت میں پہلے مرنے کے بارے میں قطعی حکم کو بیان کیا جارہا ہے لیکن اپنی اسی کتاب اربعین میں آگے جاکر مرزاقادیانی اپنی سابقہ تحریر کے برعکس لکھتا ہے کہ ’’ ان نادان ظالموں سے مولوی غلام دستگیر قصوری اچھا رہا کہ اس نے اپنے رسالہ میں کوئی میعاد نہیں لگائی (یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی میعاد نہیں لگائی اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلا فقرہ ملاحظہ کریں۔مؤلف)یہی دعا کی کہ یا الہی اگر میں مرزا غلام احمد کی تکذیب میں حق پر نہیں تو اسے مجھ سے پہلے موت دے اور اگر مرزا غلام احمد اپنے دعوی میں حق پر نہیں تو اسے مجھ سے پہلے موت دے ۔ بعد اس کے بہت جلد خدا نے اس کو موت دے دی ۔دیکھو کیسی صفائی سے فیصلہ ہو گیا ۔‘‘ (اربعین نمبر 3صفحہ 11مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 397) مندرجہ بالا تحریر میں مرزاقادیانی نے کیسی ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے کہ مولانا قصوری ؒ کے بارے میں لکھ دیا کہ انہوں دعا ہی یہ کی تھی ۔اب ایک اور مقام سے اسی ضمن میں مرزاقادیانی کی ایک اور تحریرملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ ’’ مولوی غلام دستگیر قصوری کی کتاب تو دور نہیں مدت سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے ۔ دیکھو وہ کس دلیری سے لکھتا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا اور پھر آپ ہی مر گیا۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ46) ’’ ایسا ہی جب مولوی غلام دستگیر قصوری نے کتاب تالیف کر کے تمام پنجاب میں مشہور کر دیا تھا کہ میں نے یہ طریق فیصلہ قراردے دیا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے گا تو کیا اس کو خبر تھی کہ یہی فیصلہ اس کے لئے لعنت کا نشانہ ہو جائے گا ۔اور وہ پہلے مر کر دوسرے ہم مشریوں کا بھی منہ کالا کرے گا اور آئندہ ایسے مقابلات میں ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور بزدل بنا دے گا۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 10مندرجہ روحانی خزائن جلد 17حاشیہ صفحہ52) محترم قارئین !آپ نے مرزاقادیانی کا دجل و فریب تو ملاحظہ کر لیا کہ کس طرح اس نے مولانا غلام دستگیر قصوری ؒ کی تحریر کونہ صرف غلط رنگ دے کر بلکہ مکمل طور پر تحریف کر کے مولانا قصوری ؒ کی وفات کو اپنا نشان ظاہر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ جب تک ہمیں اکرم صابری صاحب کی کتاب میسر نہیں آتی اس وقت تک ہم قادیانی ذریت کی کسی تحریر پر اعتبار نہیں کر سکتے اور اگر اصل تحریر ہوبھی اسی طرح تو ہمارے لئے حجت قرآن وحدیث ہے نہ کہ کسی صوفی کا قول ۔ اب آتے قاضی نزیر لائلپوری کے پیش کئے گئے دوسرے حوالہ جات کی طرف ۔جہاں تک تعلق ہے اشارات فریدی نامی کتاب کا تو یہ کتاب بابا فریدؒ کے ملفوظات پر مشتمل ہے جو مولوی رکن الدین نے ترتیب دئیے ہیں نہ کہ بابا فرید ؒ کی اپنی تحریر ہے اور اسی طرح قاضی نذیر لائلپوری نے جو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا قول پیش کیا ہے وہ بھی ان کی طرف محض منسوب ہے نہ کہ انکی کوئی اپنی تحریر اس لئے یہ دونوں تحریریں ناقابل اعتبار ہیں ۔اگر کہا جائے ہر منسوب درست ہوگی تو ہم بھی مرزاغلام احمد قادیانی کی طرف ایک قول منسوب کر دیتے ہیں کہ اس نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھا تھا کہ انگریز کو رب مانو یا یہ کہیں کہ مرزاقادیانی نے لکھاتھا کہ زناجائز ہے اورقادیانیوں نے کتاب میں ردوبدل کر دیا ہے تو کیا قادیانی ذریت اس بات کو مان لے گی جب کہ ہمارے پاس ایک ٹھوس دلیل بھی موجود ہے وہ ملاحظہ فرمائیں مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ ’’براہین احمدیہ میں قریب سولہ برس پہلے بیان کیا گیا تھا کہ خدا تعالی میری تائید میں خسوف کسوف کا نشان ظاہر کرے گا ۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 8مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 48) میں نے براہین احمدیہ کا مکمل مطالعہ کیا لیکن براہین احمدیہ میں سے خسوف کسوف کاذکر نہیں ملا میں نے کئی قادیانی مربیوں کو بھی کہا کہ براہین احمدیہ میں سے مجھے خسوف کسوف کا ذکر دکھا دیں لیکن وہ بھی نہیں دکھا سکے اب بھی میرا پوری قادیانی ذریت کو چیلنج ہے کہ مجھے براہین احمدیہ میں سے خسوف کسوف ذکر دکھا دیں اگر نہ دکھا سکیں تو مان لیں کہ مرزاقادیانی نے کذب بیانی کا مظاہرہ کیا ہے یا پھر قادیانیوں نے براہین احمدیہ میں تحریف کی ہے ۔ آئیے اب لغت کے اعتبار سے بھی جائزہ لے لیں کہ ظل اور بروز کا کیا مطلب ہے ؟ ظل عربی کا لفظ ہے ۔صاحب المنجد نے الظل کا معنی سایہ اوربروزًا کا معنی میدان کی طرف نکلنا بیان کیا ہے۔ اسی طرح اگر ہم یہ کہیں کہ یہ دونوں لفظ فارسی کے ہیں تو تب بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صاحب فیروزاللغات نے ظل کا معنی سایہ اور بروز کا معنی نظر آنا ،ظاہر ہونا، نمایاں ہونا اور آشکار ہونا بیان کیا ہے ۔ قبل اس کے کہ مرزا قادیانی کے اس دعوی کی حقیقت کو جانچا جائے عقیدہ ختم نبوت کے بارے قرآن وحدیثکی روشنی میں چند دلائل کو ملاحظہ فرمائیں عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں:۔ پہلی آیت :۔ محترم قارئین ! اﷲ رب العزت نے اپنے تمام انبیاء و رسل کو ایک جگہ جمع کرکے وعدہ لیا کہ اگر تمھاری نبوت کے دوران میرا آخری نبی آجائے تو تمھیں نہ صرف اس پر ایمان لانا ہوگا بلکہ ہر طرح سے ا س کی مدد بھی کرنا ہوگی۔ یعنی اس کے دور نبوت میں تمھاری نبوت نہیں چل سکے گی۔ اس بات کا تذکرہ رب ذوالجلال نے قرآن مقدس میں اس طرح کیا ہے کہ وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ آتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہ‘ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ (آل عمران 81:) جب اﷲ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمھیں کتاب و حکمت سے دوں ، پھرتمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمھارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمھارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اسکے اقراری ہو اوراس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا: ہمیں اقرار ہے۔فرمایا: توا ب گواہ رہو میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں یہی آیت درج کر کے جو ترجمہ کیا ہے ملاحظہ ہو چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ ’’وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ آتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہ‘ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ (ترجمہ) اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا تمہیں اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہو گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کر لیا تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں ‘‘ (حقیقت الوحی صفحہ 133,134مندرجہ قادیانی خزائین جلد 22صفحہ 133,134) مرزا قادیانی مزید ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ’’خداتعالی نے اللہ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو رب العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر میں حضرت محمد ﷺ کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے ‘‘ (حقیقت الوحی صفحہ 145مندرجہ قادیانی خزائین جلد 22صفحہ 145) دوسری آیت :۔ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں متقین کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے جنچیزوں کو ایمان کی شرائط کے طور پر بیان کیا ہے، ان میں سابقہ انبیاء علیہم السلام اور ان پر نازل ہونے والی کتب، نبی رحمت علیہ السلام اور قرآن مقدس پر ایمان لانا ہے۔ اگر کوئی نبی بعد میں بھی آنا ہوتا تو اﷲ تعالیٰ یہاں پر اس کا تذکرہ ضرور فرما دیتے۔ جہاں تک تعلق ہے عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا تو وہ بطور امتی ہی نازل ہوں گے ۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ 6:) اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ تیسری آیت:۔ ایک اور مقام پر اﷲ رب العزت نے اپنے پیارے پیغمبر سید الاولین والآخرین امام الانبیاء ، خاتم النبین ﷺ کا نام لے کر آپ کوآخری نبی قرار دیتے ہوئے فرمایا: مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (الاحزاب:60) تمہارے مَردوں میں سے محمد ﷺکسی کے باپ نہیں، لیکن آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے۔ ان تمام آیات کریمہ سے مسئلہ ختم نبوت بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ منکرین ختم نبوت ’’خاتم النبین‘‘ کامعنیٰ ’’نبیوں پر مہر لگانے والا‘‘ کرتے ہیں۔اگر یہ مفہوم تسلیم کر لیا جائے تو معنیٰ یہ کرنا پڑے گا کہ نبی رحمت ﷺ نے پہلے انبیاء کی تصدیق وتائید کرکے ان پر مہر لگا دی ۔ بعد میں نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کو تو آپ نے کذاب اور دجال قرار دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خاتم النبین کا صحیح مفہوم تو نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہی بنتا ہے، کیونکہ نبی رحمت نے اپنے فرامین میں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْکہہ کراس مفہوم کو واضح کردیا ہے۔ آئیے ! اب مرزا قادیانی کی طرف سے اس آیت کا کیا جانے والا ترجمہ بھی ملاحظہ کریں چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ ’’ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں مگر وہ رسول اللہ ہے ختم کرنے والا نبیوں کا ۔ یہ آیت صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی ﷺ کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا ‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 331مندرجہ قادیانی خزائین جلد3صفحہ 431) مرزا قادیانی مزید ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ’’ الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبینا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبینا فی قولہ لا نبي بعدی ببیان واضح للطالبین؟ ولو جوزنا ظھور نبی بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم لجوزنا انفتاح باب وحی النبوۃ بعد تغلیقھا وھذا خلف کما لا یخفی علی المسلمین وکیف یحئ نبی بعد رسولنا صلی اللہ علیہ وسلم وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اللہ بہ النبین ؟ ترجمہ: ۔ کیا تو نہیں جانتا کہ فضل اور رحم کرنے والے رب نے ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کانام بغیرکسی استسناء کے خاتم الانبیاء رکھااورآنحضرت ﷺنے لانبی بعدی سے طالبوں کے لیے بیان واضح سے اس کی تفسیر کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر ہم آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے ظہور کو جائز قرار دیں تو وحی نبوت کے دروازہ کے بند ہونے کے بعد ان کاکھلنا جائز قرار دیں گے، جو بالہدایت باطل ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر مخفی نہیں۔ اور ہمارے رسولؐ کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے جب کہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی ہے اور اﷲ نے آپ کے ذریعے نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔ (حمامۃ البشری صفحہ34مندرجہ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 200) ایک اور مقام پر مرزا قادیانی خود ہی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’آنحضرت ﷺ نے بار بار فرمادیاکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے ۔ اپنی آیت کریمہ ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین سے بھی کی تصدیق کرتا تھا ۔ کہ فی الحقیقت ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہو چکی ہے ‘‘ (کتاب البریہ حاشیہ صفحہ 199,200مندرجہ قادیانی خزائین جلد13حاشیہ صفحہ 217,218) چوتھی آیت :۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (الاحزاب ۳۳:۴۰) ترجمہ :۔آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا محترم قارئین !اسی آیت کا تذکرہ کرتے ہوئے آنجہانی مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ ’’ایسا ہی آیت الیوم اکملت لکم دینکم اور آیت ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت ﷺ پر ختم کر چکا ہے اور صریحلفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں ‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 88مندرجہ قادیانی خزائین جلد 17صفحہ 174) محترم قارئین !یہ تو تھیں چند آیات مبارکہ عقیدہ ختم نبوت کے متعلق۔ اب آئیے ! ذرا ان فرامین نبویہ ﷺکا بھی مطالعہ کریں جن میں عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت موجود ہے۔ پہلی حدیث:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ((فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ ، وَنُصِْرْتُ بِالرُّعْبِ ،وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ،وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ طَھُوْرًاوَمَسْجِدًا، وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً ، وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ)) (صحیح مسلم کتاب المساجدحدیث نمبر: 523،دارالسلام حدیث:1167) ترجمہ :۔کہ مجھے چھ چیزوں کے ساتھ فضیلت دی گئی ہے مجھے جامع کلمات دئے گئے ہیں اور رعب کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے مال غنیمت کو میرے لیے حلال کیا گیا ہے ، میرے لئے ہی تمام زمین پاک ،مطہراور مسجد بنا دی گئی ہے اور مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہے اور میرے ساتھ نبوت کا اختتام ہو گیا ہے ۔ دوسری حدیث:۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ((لِی خَمْسَۃُ اَسْمَاءُ: اَنَامُحَمَّدٌوَاَنَااَحْمَدُوَاَنَاالْمَاحِیُ الَّذِیْ یَمْحُوْااللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ وَاَنَا الْحَاشِرَالَّذِی یُحْشَرُالنَّاسُ عَلَی قَدَمِی وَاَنَاالْعَاقِبُ)) (صحیح بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر:3532،4896) یعنی میرے پانچ نام ہیں۔میں محمد‘احمد‘اورماحی ہوں(یعنی مٹانے والاہوں)کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفرکومٹائے گااورمیں حاشرہوں کہ تمام انسانوں کا(قیامت کے دن) میرے بعدحشرہوگا۔ اورمیں’’عاقب‘‘ہوں یعنی خاتم النبیین ہوں‘میرے بعدکوئی نیا نبی دنیامیں نہیںآئیگا۔ تیسری حدیث:۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: (( اَنَامُحَمَّدٌ ،وَاَنَااَحْمَدُ ،وَاَنَاالْمَاحِیُ الَّذِیْ یَُمْحَی بِیَ الْکُفْرَ ،وَاَنَا الْحَاشِرُالَّذِی یُحْشَرُالنَّاسُ عَلَی عَقِبِی ، وَاَنَاالْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِی لَیسَ بَعْدَہُ نَبَیٌّ)) ترجمہ:۔ میں محمد ہوں،میں احمد ہوں ،میں ماحی ہوں یعنی اللہ تعالی میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا ،اور میں حاشر ہوں ،لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل ،حدیث نمبر: 2354،دارالسلام حدیث نمبر6105،6107) چوتھی حدیث:۔ سیدنا جابررضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ((مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنیٰ دَارًا فَاَتَّمَھَا وَاَکْمَلَھَا اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْخُلُوْنَھَا وَیَتَعَجَّبُوْنَ مِنْھَا وَیَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ فَاَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ جِءْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَآءَ صَلَواتُ اللّٰہِ وَسَلاَمُہ‘ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ)) (صحیح مسلم کتاب الفضائل حدیث نمبر :،,2287دارالسلام، 5953 ) ترجمہ :۔ میری مثال اور دوسرے انبیائے کرام کی مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے ایک گھر بنایا اور اسے پورااور کامل بنایا سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے کہ وہ خالی رہ گئی لوگ اس گھر کے اندر داخل ہوکر اسے دیکھنے لگے اور وہ گھر ان کو پسند آنے لگا وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھ دی گئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ہی اس اینٹ کی جگہ آیا ہوں اور میں نے انبیائے کرام کی آمد کا سلسلہ ختم کر دیا ہے ۔ پانچویں حدیث:۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: ((لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلٰثِیْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ اَنَّہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ )) (صحیح مسلم، کتاب الفتن و اشراط الساعۃ 7342، صحیح بخاری 3609) قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ قریباً تیس دجال وکذاب پیدا نہ ہو جائیں۔ ان میں سے ہر ایک گمان کرے گاکہ وہ نبی ہے۔ چھٹی حدیث :۔ حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ : ((وَاِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِیْ اُمَّتِیْ لَمْ یُرْفَعْ عَنْھَا إلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَاءِلُ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی تَعْبُدَ قَبَاءِلَ مِنْ اُمَّتِیْ الَاوْثَانَ وَإِنَّہ‘ سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہ‘ نَبِیُّ اللّٰہِ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرُاللّٰہ)) (سنن ابوداود ، کتاب الفتن والملاحم :4252 ، جامع ترمذی ، کتاب الفتن 2145) جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ اس سے روز قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی اور قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔ اور بے شک عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اﷲ کا نبی ہے۔ جبکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اور وہ غالب ہوں گے ۔جو ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے حتی کہ اﷲ کا حکم آجائے۔ ساتویں حدیث:۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے : خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُخَلِّفُنِیْ فِی النِّسَآءَ وَالصِّبْیَانِ؟ قَالَ أمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃَ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَم ؟ غَیْرَ اَنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (صحیح مسلم ، کتاب الفضائل 6218، صحیح بخاری 4416) رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ جب آپ ؐ غزوہ تبوک کو تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺآپؐ مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ ؐنے فرمایا: تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہارا درجہ میرے ہاں ایسا ہی ہو جیسے حضرت ہارون ؑ کا موسی ؑ کے ہاں تھا۔مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ آٹھویں حدیث:۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: ((کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھََلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہ‘ نَبِيٌّ اَخَرُ وَإِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنَ الْخُلَفَآءُ فَیَکْثُرُونَ)) (صحیح بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء حدیث :3455،سنن ابن ماجہ ،حدیث: 2871) ترجمہ: بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے۔ جب بھی ان کا کوئی نبی فوت ہو جاتا تواس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر نائبین بکثرت ہوں گے۔ نویں حدیث:۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ((لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِی لَکَانَ عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ)) (سنن ترمذی ابواب المناقب ،حدیث : 3686حسن) ترجمہ:۔اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا دسویں حدیث:۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺنے فرمایا: ((اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ)) (جامع ترمذی کتاب الرویا رواہ انس بن مالک حدیث: 2272) رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔ اس حدیث مبارکہ میں نبی اور رسول دونوں کی نبی آخر الزمان ﷺکے بعد آنے کی نفی کی گئی ہے۔ آئیے ذرا اس بات پر غور کریں کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس دور کے سب سے بڑے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کا اپنا بیان قابل توجہ ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے: ’’ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جواس پر بذریعہ جبرائیل نازل ہوتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 576، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 411) مرزاغلام احمد قادیانی نبی کی تعریف میں یوں رقم طراز ہے کہ ’’ نبی کے معنٰی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو، شریعت کا لاناس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 306) محترم قارئین ! قادیانی دجال کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول صاحب شریعت کا متبع ہوتا ہے ا ور نہ ہی وہ نئی شریعت اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث کے الفاظ پر توجہ دیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی کریم ﷺکے بعد نہ صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی صاحب شریعت رسول ‘رسول اور نبی دونوں کے آنے کی نفی کی ہے۔ جب کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ صاحب شریعت ہونے کا بھی مدعی ہے۔ جس کی تفصیل مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میں موجود ہے۔ محترم قارئین ! ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺآخری نبی ہیں ۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ بمطابق فرمان نبوی کذاب و دجال ہوگا (اسی لیے ہم بھی آئندہ صفحات میں مرزا قادیانی کو قادیانی کذاب اور قادیانی دجال کے نام سے لکھیں اور پکاریں گے)۔ اگر کوئی انسان اتنے واضح اور بین دلائل کے باوجود عقیدہ ختم نبوت کا منکر ہوتا ہے اور نبی رحمت ﷺکے بعد کسیاور کو شریعتی یا غیر شریعتی ، ظلی یا بروزی نبی مانتاہے تو وہ نہ صرف کھلم کھلا قرآن و حدیث کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے، کیونکہ اس پر اجماع صحابہ اور اجماع امت ہے، جس کی واضح دلیل تو یہ ہے کہ دور نبوی میں ہی جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اورنبی کریم ﷺکے پاس پیغام بھیجا کہ میں آپ کو نبی مانتا ہوں لیکن اس نبوت میں میں بھی حصہ دار ہوں ۔ آدھی زمین نبوت کے لیے میری ہے اور آدھی آپ کی تو نبی کریم ﷺنے جواب میں اسے کذاب کے لقب سے پکارا اور پھر طلیحہ اسدی جس نے کلمہ بھی پڑھا تھا اور شرف صحابیت بھی حاصل ہوا لیکن بعد میں مرتد ہو کردعویٰ نبوت کردیا تو دور صدیقی میں ان کے خلاف کھلا اعلان جنگ کیا گیا اور ان مرتدین سے کئی جنگیں ہوئیں ۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کے جرنیل صحابہ شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب کو وحشی بن حرب ؓ نے واصل جہنم کیا اور طلیحہ اسدی سچی توبہ کرکے دوبارہ مسلمان ہوگیا۔نیزنبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی یمن میں اسودعنسی نے دعویٰ نبوت کیاتو حکم نبوی ؐ کے تحت اسے بھی فیروزدیلمی نے واصل جہنم کیا۔الغرض یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اب جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ دجال اور کذاب ہوگا وہ اوراس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہوں گے اور ایسے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے دور خلافت میں کیا۔ محترم قارئین!اب آتے ہیں مرزاقادیانی کے ظلی اور بروزی نبی ہونے کے دعوے کی طرف ۔لہٰذا مرزاقادیانی کے اس دعوے کو جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا جائزہ لیاجائے کہ مدعی کے نزدیک ظل اور بروز کی تعریف کیا ہے اوراس نے کن الفاظ میں اپنایہ دعوی بیان کیا ہے ۔ چنانچہ مرزاقادیانی رقمطراز ہے کہ ’’عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد ﷺاس کانبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگرجس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔ کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے۔ پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خداسے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبو ت کا خلل انداز نہیں۔ جیسا کہ جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘ (کشی نوح صفحہ 18، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ16) محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعوی:۔ مرزاقادیانی کی مندرجہ بالا تحریر کا غور سے مطالعہ کریں کہ کس طرح اسنے اپنے آپ کو نبی کریم علیہ السلام کا ظل اور بروز ثابت کرنے کے لیے آئینے کی مثال پیش کی ہے ۔ آنجہانی مرزاقادیانی کی طرف سے کی گئی ظل اوربروز کی تعریف کومدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گے کہ کیا مرزاقادیانی نبی کریم علیہ السلام کاظل اوربروزہے یا کہ اس کے برعکس نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامتضاد؟جبکہ اسکا دعوی تو یہ بھی ہے کہ وہ خود محمدرسول اللہ ہے چنانچہ وہ رقمطراز ہے کہ ’’جس نے مجھ میں اور محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے درمیان فرق کیا اس نے مجھے نہیں پہچانا‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ۱۷۱مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۲۵۹) قادیانی دجال مزید لکھتا ہے کہ ’’پھراسی کتاب میںیہ وحی ہے: مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ‘‘ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے اور رسول بھی۔ پھر یہ وحی اﷲ ہے جو 557براہین میں درج ہے۔‘‘ دنیا میں ایک نذیر آیا‘‘ اس کی دوسری قراء ت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد18صفحہ 207) مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ ’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺکے بعد جو درحقیقت خاتم الّنبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اورمجھے آنحضرت ﷺکاوجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺہوں ، پس اس طور سے خاتم الّنبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺکی نبوت محمدہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 212) ایک اور جگہ یہ کذاب قادیانی لکھتا ہے کہ ’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم الّنبیین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم الّنبیین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد(ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اوراسی کانام ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3تا5مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 1صفحہ207 تا209) محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول اﷲ ﷺ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد نبی آخر الزمان ﷺ نہیں ہوتا بلکہ مرزا قادیانی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔ آئیے! قادیانی کلمہ کی حقیقت مزید جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل عبارت کو بھی ملاحظہ کریں: ’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ او ریہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتاتو ضرور پیش آتی۔ ‘‘ (کلمۃ الفصل صفحہ158، مندرجہ ریویو آف ریلیجنز جلد 14 صفحہ 158 نمبر4) شاعری اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:۔ محترم قارئین! آپ نے قادیانی دجال کی مندرجہ بالاتحریریں پڑھ لیں کہ کس طرح اس نے ظل اور بروز کا ڈھونگ رچا کر اپنے آپ کو معاذ اﷲ محمدرسول اﷲ ﷺثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ اگر ہم اس قادیانی کی ظلی اور بروزی کی تعریف کو مدنظر رکھیں تو (’’جیسا کہ تم جب آئینہ اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو ، اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص 18، خزائن ج19 ص 16))ثابت ہوتاہے کہ محمد ی نبوت اور وحی نبوت میں شاعری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ قرآنی آیات پر جب مشرکین نے الزام لگایا کہ یہ اﷲ کا کلام نہیں بلکہ کسی کا ہن کا قول اور کسی شاعر کی شاعری ہے تو فوری طور پر رب کائنات نے اس کی نفی کرتے ہوئے فرمایا: (وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ O وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) یہ کسی شاعر کا قول نہیں(افسوس) تمھیں بہت کم یقین ہے اور نہ کسی کاہن کا قول ہے(افسوس) تم بہت کم نصیحت لے رہے ہو۔ یہ تو رب العالمین کا اتاراہوا ہے۔ (سورۃالحاقۃ:42تا44) وَ مَاعَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَوَمَایَنْبَغِیْ لَہُ یعنی اورہم نے اسے (محمدرسول اﷲﷺکو)شعرکہنانہیں سکھایااورنہ یہ کام اس کی شان کے مطابق تھا۔ (سورہ یسین:70تفسیرصغیرازمیاں محمودبشیرالدین ابن مرزاقادیانی) شاعری اورمرزاقادیانی:۔ مرزاقادیانی نبی کریم علیہ السلام کے برعکس شاعری کیاکرتاتھانہ صرف شاعری کیا کرتا بلکہ اس کی شاعری پر مبنی کتاب درثمین کے صفحہ ۴۹ پر ایک مصرع اسطرح درج ہے کہ اگریہ جڑرہی سب کچھ رہا ہے اس مصرع پر *کانشان لگا کرحاشیہ میں واضح کیا گیاہے کہ یہ الہامی مصرع ہے مزید مرزاقادیانی کی شاعری کے نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کسطرح عشقیہ شاعری بھی کرتا رہاہے اوراپنی شاعری میں بیہودہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے معمولی سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کیا کرتاتھا۔چنانچہ مرزا بشیراحمد ابن مرزاقادیانی اپنی کتاب سیرت المہدی میں رقمطرازہے کہ ’’ خاکسارعرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے۔ غالباً نوجوانی کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کے اپنے خط میں جسے میں پہچانتا ہوں بعض شعر بطور نمونہ درج ہیں:‘‘ عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے کچھ مزا پایا میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے :: :: :: :: ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے اس کے جانے سے صبر دل سے گیا ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے :: :: :: :: سبب کوئی خداوند! بنا دے کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے کرم فرما کے آ، او میرے جانی بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسادے کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر دلا اک بار شوروغل مچادے :: :: :: :: نہ سر کی ہوش ہے تم کو ، نہ پاکی سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی مرے بت ! رب سے پردہ میں رہو تم کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی :: :: :: :: نہیں منظور تھی گر تم کو الفت تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا میری دلسوزیوں سے بے خبر ہو میرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جان کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں۔ یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے،مگر پہلا ندارد ، بعض جگہ اشعار نظر ثانی کے لیے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 214-213 طبع چہارم) مرزاقادیانی کی شاعری کے مزید کچھ نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں
چپکے چپکے حرام کروانا
آریوں کا اصول بھاری ہے زن بیگانہ پر یہ شیدا ہیں
جس کو دیکھو وہی شکاری ہے غیر مردوں سے مانگنا نطفہ
سخت خبث اور نابکاری ہے غیر کے ساتھ جو کہ سوتی ہے
وہ نہ بیوی زن بزاری ہے نام اولاد کے حصول کا ہے
ساری شہوت کی بیقراری ہے بیٹا بیٹا پکارتی ہے غلط
یار کی اس کو آہ و زاری ہے دس سے کروا چکی زنا لیکن
پاک دامن ابھی بچاری ہے لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں
ان کی لالی نے عقل ماری ہے گھر میں لاتے ہیں اس کے یاروں کو
ایسی جورو کی پاسداری ہے اس کے یاروں کو دیکھنے کے لئے
سر بازار ان کی باری ہے جورو جی پر فدا ہیں یہ جی سے
وہ نیوگی پر اپنے واری ہے شرم و غیرت ذرا نہیں باقی
کس قدر ان میں بردباری ہے ہے قوی مرد کی تلاش انہیں
خوب جورو کی حق گذاری ہے (آریہ دھرم صفحہ ی مندرجہ روحانی خزائین جلد۱۰ صفحہ۷۵‘۷۶) محترم قارئین!اب خودسوچیں کہ کیاایسی بیہودہ شاعری کے باوجود مرزاقادیانی نبی کریم علیہ السلام کا ظل اوربروز ہوسکتا ہے ۔یقینًا نہیں ہوسکتا۔اسکے باوجودقادیانی ذریت نہ صرف مرزا قادیانی کو نبی کریم علیہ السلام کا بروز مان رہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ اندھی عقیدت اورقادیانی مربیوں کی وہ ہیراپھیریاں ہیں جو عوام الناس کو عمومًا اور قادیانیوں کوخصوصًاگمراہ کرنے اور پھراس پر قائم رہنے کے لیے کرتے ہیں۔چنانچہ مرزاقادیانی کی شاعری پر کیے جانے والے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے معروف قادیانی عالم ملک عبدالرحمن خادم اپنی کتاب ’’پاکٹ بک‘‘ میں رقمطراز ہے کہ ’’بے شک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرتﷺشاعرنہ تھے اورقرآن مجیدنے شاعرکی تعریف بھی کردی ہے فرمایا اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍیَّھِیْمُوْنَo وَاَنَّھُمْ ےَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَo (سورۃ الشعراء:226‘227) کیاتونہیں دیکھتاکہ شاعرہروادی میں سرگرداں پھرتے ہیںیعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اورجوکچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ گویاشاعروہ ہے ۔ 1۔ جوہوائی گھوڑے دوڑائے ۔ 2۔ اس کے قول اور فعل میں مطابقت نہ ہو۔ فرمایاعلمنٰہ الشّعر(ےٰسین :70)ہم نے آنحضرتﷺکوہوائی گھوڑے دوڑانااور محض باتیں بنانانہیں سکھایاحضرت مسیح موعودمیں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں۔‘‘ (پاکٹ بک ازملک عبدالرحمٰن خادم قادیانی صفحہ515) اس کے بعد ملک عبدالرحمٰن خادم لغت کی کتابوں سے شاعر کے معنی اورمفہوم بیان کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذکرتاہے کہ ’’پس ثابت ہواکہ شعرسے مرادجھوٹ ہی ہے پس نفس شعربلحاظ کلام موزوں کوئی بری چیزنہیں۔‘‘ (پاکٹ بک ازملک عبدالّرحمان خادم صفحہ516) محترم قارئین!اگرملک عبدالّرحمٰن خادم قادیانی کی طرف سے کی گئی شعرکی تعریف کوصحیح مان لیاجائے توتب بھی مرزاقادیانی کے ظلی اوربروزی نبی ہونے کے دعوے پر زدپڑتی ہے ۔ اب مرزاقادیانی کے جھوٹ بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ ثابت ہوسکے کہ مرزاقادیانی اپنے ہی مرید ملک عبدالّرحمٰن خادم کی تعریف کے مطابق بھی شاعر ہی ثابت ہوتاہے۔چنانچہ مرزابشیراحمدرقمطرازہے کہ ’’بیان کیاہم سے حافظ حاجی عبدالحمیدصاحب نے کہ ایک دفعہ جب ازالہ اوہام شائع ہوئی ہے حضرت صاحب(مرزاقادیانی)لدھیانہ میں باہرچہل قدمی کے لیے تشریف لے گئے ‘میں اورحافظ حامدعلی ساتھ تھے۔راستہ میں حافظ حامدعلی نے مجھ سے کہاکہ آج رات یاشایدکہاان دنوں میں حضرت صاحب (مرزاقادیانی)کویہ الہام ہواہے کہ ’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ایام ضعف و اختلال‘‘ خاکسار عرض کرتاہے کہ اس مجلس میں جس میں حاجی عبدالحمیدصاحب نے یہروایت بیان کی میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیاکہ میرے خیال میں یہ الہام اس زمانہ سے بھی پراناہے حضرت صاحب (مرزاقادیانی)نے مجھے اورحافظ حامدعلی کویہ الہام سنایاتھااورمجھے الہام اس طرح پریادہے ’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال بعدازاں باشدخلاف اختلال‘‘۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرامصرعہ تومجھے پتھرکی لکیرکی طرح یادہے کہ یہی تھااور ہفت کالفظ بھی یادہے جب یہ الہام ہمیں حضرت صاحب نے سنایاتواس وقت مولوی محمدحسین بٹالوی مخالف نہیں تھا۔شیخ حامدعلی نے اسے بھی جاسنایا پھرجب وہ مخالف ہواتو اس نے حضرت صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو بدظن کرنے کے لیے اپنے رسالہ میں شائع کیاکہمرزاصاحب نے یہ الہام شائع کیاہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلداوّل صفحہ96روایت نمبر68طبع چہارم) سیرت المہدی کی مندرجہ بالاروایت سے جوچارباتیں واضح ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں 1۔ ’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال بعدازاں باشدخلاف واختلال‘‘یہ الہام مرزاقادیانی کوہواجس کامفہوم یہ ہے کہ سلطنت برطانیہ سات سال میں زوال پذیرہو جائے گی اسی بات کی تصدیق کے لیے ایک اور تحریربھی ساتھ ہی ملاحظہ فرمالیں جومرزاقادیانی کے مجموعہ الہامات ‘کشوف ورویاء پرمبنی ’’تذکرہ‘‘نامی کتاب میں موجودہے چنانچہ ’’تذکرہ‘‘میں1892ء کے تحت لکھاہے کہ ’’(الف)حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزنے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے خبردے دی:۔ سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ضعف وفسادواختلال اوریہ آٹھ سال جاکرملکہ وکٹوریہ کی وفات پرپورے ہوگئے۔‘‘ (الفضل جلد16نمبر78مورخہ5اپریل1929ء صفحہ5) (ب)حافظ حامدعلی صاحب نے مجھ سے کہاکہ ۔۔۔۔۔۔ان دنوں میں حضرت صاحب کوالہام ہواہے:۔ ’’سلطنت برطانیہ تا ہشت سال بعدازاں ایام ضعف واختلال‘‘ (بحوالہ سیرت المہدی جلداوّل روایت150) (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ75روایت نمبر96ایڈیشن دوم) (ج)میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیاکہ :۔ ’’مجھے(یہ)الہام اس طرح پریاد ہے:۔ ’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال بعدازاں باشدخلاف واختلال‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ75روایت نمبر96ایڈیشن دوم) (د)صاحبزادہ پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ نے بیان کیا:۔ ’’میں نے حضرت سے یہ الہام اس طرح پرسناہے :۔ ’’قوت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ایام ضعف واختلال‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ9روایت نمبر314) (بحوالہ تذکرہ صفحہ650‘ 651طبع چہارم) 2۔ جس وقت یہ الہام ہوامولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ مرزاقادیانی کے مخالف نہیں تھے۔ 3۔ حافظ حامدعلی جوکہ مرزاقادیانی کامریدخاص تھااس نے یہ الہام مولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃللہ علیہ کوسنادیا۔ 4۔ مولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ مرزاقادیانی کی کفریات واضح ہونے کے بعد جب اس کے مخالف ہوئے توانہوں نے گورنمنٹ برطانیہ کومرزاقادیانی سے بدظن کرنے کے لیے یہ الہام مرزاقادیانی کے حوالہ سے یہ الہام اپنے رسالہ اشاعۃالسنہ میں شائع کردیا۔ محترم قارئین!سیرت المہدی کی مندرجہ بالاروایت میں مرزاقادیانی کے اس ردعمل کے بارے میں وضاحت موجودنہیں ہے جواس نے مولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ کے اس الہام کواپنے رسالہ اشاعۃالسنہ میں شائع کرنے پرظاہرکیاتھا۔لیکن ہم مرزاقادیانی کی اپنی کتاب سے ہی اس کاردعمل اسی کے لفظوں میں تحریرکیے دیتے ہیں۔چنانچہ مرزاقادیانی اپنی کتاب’’کشف الغطاء‘‘کے ضمیمہ میں’’قابل توجہ گورنمنٹ‘‘کے عنوان سے سرخی جماکررقمطرازہے کہ ’’دوسراامرجواسی رسالہ میں محمدحسین نے لکھا ہے وہ یہ ہے کہ گویامیں نے کوئی الہام اس مضمون کاشائع کیاہے کہ گورنمنٹ عالیہ کی سلطنت آٹھ سال میں تباہ ہوجائے گی میں اس بہتان کاجواب بجزاس کے کیالکھوں کہ خداجھوٹے کوتباہ کرے ۔میں نے ایساالہام ہرگز شائع نہیں کیا۔میری تمام کتابیں گورنمنٹ کے سامنے موجودہیں میں باادب گذارش کرتاہوں کہ گورنمنٹ اس شخص سے مطالبہ کرے کہ کس کتاب یاخط یااشتہارمیں میں نے ایساالہام شائع کیاہے ؟ اورمیں امید رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ اس کے اس فریب سے خبرداررہے گی کہ یہ شخص اپنے اس جھوٹے بیان کی تائید کے لیے یہ تدبیرنہ کرے کہ اپنی جماعت اوراپنے گروہ میں سے ہی جومجھ سے اختلاف مذہب کی وجہ سے دلی عنادرکھتے ہیں جھوٹے بیان بطورشہادت گورنمنٹ تک پہنچادے اس شخص اوراسکے ہم خیال لوگوں کی میرے ساتھ کچھ آمدورفت اورملاقات نہیں تامیں نے ان کوکچھ زبانی کہاہو۔میں جوکچھ کہناچاہتاہوں اپنی کتابوں میں اور اشتہاروں میں شائع کرتاہوں۔اورمیرے خیالات اورمیرے الہامات معلوم کرنے کے لیے میری کتابیں اوراشتہارات متکفل ہیں اورمیری جماعت کے معززین گواہ ہیں۔غرض میں بادب التماس کرتاہوں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ اس خلاف واقعہ مخبری کااس شخص سے مطالبہ کرے۔‘‘ (کشف الغطاء صفحہ40مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ216) محترم قارئین!آپ نے ملاحظہ کیاکہ کس طرح مرزاقادیانی نے جھوٹ بولتے ہوئے اپنی ہی کہی ہوئی بات سے نہ صرف واضح طورپرانکارکیابلکہ بے شرمی کی انتہاکرتے ہوئے مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ کوجھوٹاقراردینے کی ناپاک کوشش کی؟ کیااب بھی مرزاقادیانی مؤلف پاکٹ بک کی تعریف کے مطابق شاعریعنی جھوٹاثابت نہیں ہوتا؟ قبل اس کے کہ میں مرزاقادیانی کے ہروادی میں سرگرداں رہنے اور ہوائی گھوڑے دوڑانے کاتذکرہ کروںیہ واضح کردینا چاہتامرزاقادیانی جانتاتھاکہ اس پر کوئی الہام نہیں ہوتابلکہ یہ اس کیخودتراشیدہ باتیں تھیںیہی وجہ تھی کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے صاف مکرگیاتھااوراس کے وہ مرید جنہیں مرزاقادیانی اوراس کی ذریت نہ صرف صحابیت کے درجے پرپہنچاتی ہے بلکہ اصحاب بدرکے مقابل لانے کی بھی ناپاک جسارت کرتی ہے گواہی چھپاکرمرزاقادیانی کے جھوٹ میں برابر کی شریک ٹھہرتی ہے۔ مزیدبرآں مرزاقادیانی کے نزدیک اس پر نازل ہونے والے الہام کی اہمیت کااندازہ سیرت المہدی کی درج ذیل روایت سے بھی لگایا جاسکتاہے چنانچہ مرزابشیراحمد رقمطرازہے کہ ’’میاں امام دین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیاکہ مصنف’’عصائے موسیٰ‘‘کوجب لاہورمیں طاعون ہواتوحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس یہ بات پیش ہوئی کہ حضورنے’’ اعجازاحمدی‘‘ میں لکھاہے کہ مولوی محمدحسین اورمصنف ’’عصائے موسیٰ‘‘رجوع کرلیں گے۔اس پرآپ نے فرمایاکہ ان کومرنے دوخدائی کلام کی تاویل بھی ہوسکتی ہے ۔آخروہ طاعون سے ہی مرگیا۔ خاکسارعرض کرتاہے کہ مصنف عصائے موسیٰ سے بابوالہٰی بخش اکاؤنٹنٹ مراد ہے جوشروع میں معتقدہوتاتھا۔مگرآخرسخت مخالف ہوگیا۔اورحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کونعوذباللہ فرعون قراردے کران کے مقابل پراپنے آپ کوموسیٰ کے طورپرپیش کیابالآخرحضرت صاحب کے سامنے طاعون سے ہلاک ہوکر خاک میں مل گیا۔‘‘ (سیرت المہدی جلداوّل صفحہ808‘809روایت نمبر 944) محترم قارئین!اب مرزاقادیانی کے ہروادی میں سرگرداں پھرنے اورہوائی گھوڑے دوڑانے کے بھی چندایک ثبوت ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی جھوٹ بولنے کے بارے میں رقمطراز ہے کہ ’’جھوٹ بولنامرتدسے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ20مندرجہ روحانی خزائن جلد17صفحہ56) ’’جھوٹ بولنے سے بدتردنیامیں اورکوئی براکام نہیں۔‘‘ (حقیقۃالوحی صفحہ27مندرجہ روحانی خزائن جلد22صفحہ459) ’’جھوٹ کے مردار کوکسی طرح نہ چھوڑنایہ کتوں کاطریق ہے نہ انسانوں کا۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ43مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ43) ’’خداکی جھوٹوں پرنہ ایک دم کے لیے لعنت ہے بلکہ قیامت تک لعنت ہے۔‘‘ (اربعین نمبر3مندرجہ روحانی خزائن جلد17صفحہ398) محترم قارئین!ایک طرف تو آنجہانی مرزاقادیانی کے یہ اقوال ہیں تودوسری طرف اس کافعل کہ وہ کس طرح جھوٹ بولتاتھاآپ ’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال‘‘والے الہام کے حوالہ سے ملاحظہ کرچکے ہیں۔اسی طرح مرزاقادیانی اپنے اساتذہ کے بارے میں رقمطراز ہے کہ ’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں معلم میری تربیت کے واسطے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔۔۔۔۔میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اوربعداس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہواتوایک اورمولوی صاحب سے چندسال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گلی علی شاہ تھا اور ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان میں آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘ (کتاب البریہ ، حاشیہ صفحہ 163 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 179تا181) اسی استاد(گل علی شاہ)کامزیدتذکرہ کرتے ہوئے مرزاقادیانی ایک اورمقام پر کچھ یوں رقمطرازہے کہ ’’ہمارے استادایک شیعہ تھے۔گل علی شاہ ان کانام تھا۔کبھی نمازنہ پڑھاکرتے تھے ۔ منہ تک نہ دھوتے تھے۔‘‘ (ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلداوّل صفحہ583طبع چہارم) مزید یہ کہ مرزا قادیانی نے مختاری کا امتحان بھی دیا لیکن فیل ہوا۔اسکاتذکرہ کرتے ہوئے مرزابشیر احمد اپنی کتاب سیرت المہدی میں رقمطراز ہے کہ ’’چونکہ مرزاصاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کردی اورقانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ۱۴۲روایت نمبر ۱۵۰ طبع چہارم) اس کے برعکس دوسرے مقام پر مرزاقادیانی یوں رقمطرازہے کہ ’’سوآنے والے کانام جومہدی رکھاگیاسواس میںیہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والاعلم دین خداسے ہی حاصل کرے گااورقرآن اورحدیث میں کسی استادکا شاگرد نہیں ہوگا۔سومیں حلفاًکہہ سکتاہوں کہ میرایہی حال ہے۔کوئی ثابت نہیں کرسکتاکہ میں نے کسی انسان سے قرآن یاحدیث یاتفسیر کا ایک سبق بھی نہیں پڑھا ہے یاکسی مفسر یامحدث کی شاگردی اختیار کی ہے ۔‘‘ (ایام الصلح صفحہ168مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ 394) محترم قارئین !کیااب بھی اس کے ہروادی میں سرگرداں ہونے ‘جھوٹ بولنے اور ہوائی گھوڑے دوڑانا ثابت نہیں ہوتا۔توآپ لوگوں کی تسلی کے لیے مزیدچندمثالیں پیش کیے دیتاہوں چنانچہ مرزا قادیانی ایک مقام پردعویٰ کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ ’’خداتعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہ السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کیے ہیں میں آدم ہوں،میں شیث ہوں‘ میں نوح ہوں ‘میں ابراہیم ہوں‘میں اسحاق ہوں‘میں اسماعیل ہوں‘میں یعقوب ہوں‘میں یوسف ہوں‘میں موسیٰ ہوں‘میں داؤد ہوں‘میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت ﷺ کامظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمد اوراحمد ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی حاشیہ صفحہ73مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 76) ’’میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار (درثمین اردو صفحہ 123ازمرزا قادیانی) ایک طرف یہ انداز کہ تمام انبیاء کا مجموعہ اپنے آپ کوقرار دے رہا ہے تو دوسری طرف تکبر اور ہوائی گھوڑے دوڑانے کا یہ انداز کے خدائی دعویٰ کرنے سے بھی گریز نہیں کیاچنانچہ مرزا قادیانی رقمطراز ہے کہ ’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیاکہ وہی ہوں‘‘ (کتاب البریہ صفحہ85مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ103) محترم قارئین !یہی مرزا قادیانی جب گرنے پر آیا تو اپنے آپ کو انسان کا تخم اور بندے دا پتر ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا چنانچہ خود رقمطراز ہے کہ ’’کرم خاکی ہوں میر ے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ97مندرجہ روحانی خزائن جلد21صفحہ 127) کیاان دلائل و براہین سے یہ بات ثابت نہیں ہوجاتی کہ مرزا قادیانی حقیقت میں جھوٹ بولنے والا‘دروغ گوہ ‘اور اپنے قول وفعل میں تضاد رکھنے والا ایک شاعر تھا جوکہ نبی آخرالزماں جناب محمدرسول اللہ ﷺ کاظل نہیں بلکہ ان سے متضاد صفات کا حامل تھا۔نبی آخر الزمان ﷺتوغیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے جب عورتیں بیعت کے لیے آتیں تو نبی کریم ﷺ پردے کے پیچھے سے بیعت لیتے تھے جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں تک دبوایا کرتا تھا اور وہ بھی سردیوں کی راتوں میں جس کی تفصیل آپ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی کتاب سیرت مہدی کی روایت نمبر۷۸۰ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ا لغرض بے شمار ایسی باتیں ہیں جو قادیانی دجال کے ظلی نبی ہونے کے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں اصحاب بدر اور مرزا قادیانی کی ظلیت:۔ محترم قارئین !اصحاب بدرکی عظمت اورشان توکسی سے پوشیدہ نہیں کیونکہ نبی کریمﷺکا فرمان اقدس ومقدس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کودیکھ کرفرمایا ((اِعْمَلُوْامَاشِءْتُمْ فَقَدْوَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃاَوْفَقَدْغَفَرْتَ لَکُمْ)) یعنی تم جیسے چاہو کام کروتمہارے لیے توجنت واجب ہوگئی یامیں نے تم کوبخش دیا (صحیح بخاری کتاب المغازی ) محترم قارئین!مرزاقادیانی نے انجام آتھم میں اصحاب بدر کے مقابل جو313افراد کی فہرست ترتیب دی ہے اس کے آغازمیں مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ ’’اب ظاہرہے کہ کسی شخص کوپہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہواکہ وہ مہدی موعو د ہونے کا دعویٰ کرے اوراس کے پاس چھپی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘میں تین سو تیرہ نام درج کرچکاہوں اوراب دوبارہ اتمام حجت کے لیے ۳۱۳تین سوتیرہ نام ذیل میں درج کرتاہوں تاہرایک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اوربموجب منشاء حدیث کے یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفا رکھتے ہیں اورحسب مراتب جس کواللہ تعالیٰ بہترجانتاہے بعض بعض سے محبت انقطاع الی اللہ اورسرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کواپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم کرے ۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم صفحہ41مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ325) مندرجہ بالاتحریرمیں مرزاقادیانی نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کابھی ذکرکیاہے کہ ان 313 افراد کے نام اس کتاب میں بھی شامل ہیں اس کتاب کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے اس کتاب کے آخر میں ایک اشتہاردیاہے جس میں مرزاقادیانی لکھتاہے کہ ’’اخیرمیںیہ بات بھی لکھناچاہتاہوں کہ اس کتاب کی تحریرکے وقت دودفعہ جناب رسول اللہﷺکی زیارت مجھ کوہوئی اور آپ ﷺنے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آوازسے لوگوں کیدلوں کواس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے ھٰذاکتاب مبارک فقومواللاجلال والاکرام یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ652مندرجہ روحانی خزائن جلد5صفحہ652) محترم قارئین !آنجہانی مرزاقادیانی نے اصحاب بدر کے مقابل جو 313افراد کی فہرست مرتب کی ہے اس فہرست میں159ویں نمبرپرایک نام ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کا بھی ہے جومرزاقادیانی کے نزدیک صاحب صدق وصفاہے اور اس کانام اس کتاب (آئینہ کمالات اسلام)میں بھی درج ہے جسے بقول مرزاقادیانی تحریرکرتے ہوئے نبی کریمﷺ کی دومرتبہ زیارت ہوئی ہے اوراس کتاب کے اکرام وعزت میں فرشتوں کو قیام کرنے کاحکم ملا ہے ۔یہی ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی قادیانیت سے تائب ہو کرمسلمان ہواتومرزاقادیانی نے اس کے بارے میں لکھاکہ ’’ایک شخص (عبدالحکیم)ہے جوبیس برس تک میرامریدرہاہے اورہرطرح سے میری تائید کرتارہاہے اورمیری سچائی پراپنی خوابیں سناتارہاہے ۔اب مرتدہوکراس نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام اس نے میری طرف منسوب کر کے کانادجال رکھاہے۔‘‘ (ملفوظات جلد5صفحہ397طبع چہارم) مزیدآنجہانی مرزاقادیانی ایک اشتہار بعنوان ’’خداسچے کاحامی ہو‘‘میں لکھتاہے کہ ’’ڈاکٹرعبدالحکیم صاحب جوتخمیناًبیس برس تک میرے مریدوں میں داخل رہے ‘ چنددنوں سے مجھ سے برگشتہ ہوکرسخت مخالف ہوگئے ہیں اوراپنے رسالہ مسیح الدجال میں میرانام کذاب‘مکار‘شیطان ‘دجال‘شریر‘حرام خوررکھاہے اورمجھے خائن اورشکم پرست اوراورنفس پرست اورمفسداورمفتری اورخداپرافتراء کرنے والاقرار دیا ہے اورکوئی ایساعیب نہیں جو میرے ذمہ نہیں لگایا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ672طبع چہارم ازمرزاقادیانی) مزیدایک مقام پر مرزاقادیانی لکھتاہے کہ ’’عبدالحکیم نامی ایک شخص جو پٹیالہ کی ریاست میں اسسٹنٹ سرجن ہے جوپہلے اس سے ہمارے سلسلہ بیعت میں داخل تھامگربباعث کمی ملاقات اورقلت صحبت دینی حقائق سے محض بے خبراورمحروم تھااورتکبراورجہل مرکب اوررعونت اوربدظنی کی مرض میں مبتلاء تھا۔(یادرہے کہ انہی عبدالحکیم پٹیالوی کومرزاقادیانی اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں صاحب صدق وصفابھی قراردے چکا ہے اور ان کے لیے ثابت قدمی کی دعاکرچکاہے مزیداپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں بھی ان کا نام درج کرچکاہے اوریہ وہی کتاب ہے جسے تحریر کرتے وقت بقول آنجہانی مرزاقادیانی دومرتبہ نبی کریم ﷺکی زیارت ہوئی اورآپﷺنے اس کتاب کی تحریرپر مسرت کااظہارفرمایا)اپنی بدقسمتی سے مرتدہوکراس سلسلہ کادشمن ہوگیاہے۔‘‘ (حقیقت الوحی صفحہ112مندرجہ روحانی خزائن جلد22صفحہ112) مندرجہ بالا تحریروں اوربحث کے بعدسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا اصحاب بدر میں بھی کوئی ایسی شخصیت تھی جومرتدہوگئی ہو اگرایسانہیں ہوااوریقیناًنہیں ہواتو پھرمرزاقادیانی نبی کریم ﷺ کا ظل اوربروزکیونکرہوسکتاہے؟جبکہ اس نے جن لوگوں کواصحاب بدر کے مقابل کھڑاکیا تھااورجن کوصاحب صدق وصفاقراردیاتھا انہی میں سے ایک شخص(ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی) کومرتدقرار دے رہاہے۔ دوسرے نمبر پریہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے لیے دعابھی کی تھی کہ ’’ اللہ تعالیٰ ان سب (انجام آتھم میں شائع ہونے والی فہرست میں شامل افراد) کواپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم رکھے‘‘تواس کے باوجود ڈاکٹر پٹیالوی بقول مرزاقادیانی مرتد کیوں ہوگیاجبکہ دوسری طرف مرزاقادیانی اس بات کابھی دعویدار ہے کہ اس کی دعاردنہیں ہوتی چنانچہ مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ ’’اوردعا کے بعد یہ الہام ہو ا اجیب کلّ دعائک الافی شرکائک میں تمہاری ساری دعائیں قبول کروں گامگر شرکاء کے بارے میں نہیں۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ82مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ210) سوال یہ پیداہوتاہے کہ ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے حق میں مرزاقادیانی کی دعاقبول کیوں نہ ہوئی جبکہ وہ اس کا شریک بھی نہیں تھا؟کیاہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ مرزاقادیانی کامندرجہ بالا الہام جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میں تمہاری ساری دعائیں قبول کروں گامگرشرکاء کے بارے میں نہیں۔‘‘ اﷲتعالیٰ کی ذات پرافتراء ہے ۔اگرافتراء نہیں توڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی مرزائیت سے تائب ہوکرمسلمان (بقول مرزامرتد) کیوں ہوا؟ محترم قارئین !ڈاکٹرپٹیالوی جب قادیانیت سے تائب ہواتواس نے بھی دعویٰ کیاکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرزاقادیانی کے متعلق الہام ہواہے کہ مرزاقادیانی تین سال کے اندراندرہلاک ہو جائے گاقطع نظراس بات کے کہ ڈاکٹرپٹیالوی کایہ دعویٰ سچاتھایاباطل ‘اس سلسلہ میں ہم مرزاقادیانی کی مزیدتحریریں ملاحظہ کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے 16اگست1906ء کوایک اشتہارشائع کیااس میں مرزاقادیانی نے لکھاکہ ’’میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیشگوئی جواخویم مولوی نورالدین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں ’’مرزاکے خلاف 12جولائی 1906ء کویہ الہامات ہوئے ہیں۔مرزامسرف کذاب اورعیار ہے صادق کے سامنے شریر فناہوجائے گااوراس کی میعادتین سال بتائی گئی ہے۔‘‘ اس کے مقابل پروہ پیشگوئی ہے جوخداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں ’’خداکے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اوروہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں ان پرکوئی غالب نہیںآسکتا۔فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوارتیرے آگے ہے پرتونے وقت کو پہچانانہ دیکھانہ جانا۔رب فرق بین صادق وکاذب انت تریٰ کل مصلح صادق۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ673‘674طبع چہارم ازمرزاقادیانی) اس کے کچھ عرصہ بعدڈاکٹرپٹیالوی صاحب نے پھردعویٰ کیا کہ اسے الہام ہواہے کہ مرزاقادیانی جولائی 1907ء سے چودہ ماہ تک مرجائے گاتومرزاقادیانی نے اس الہام پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسے بھی اﷲتعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ ’’میں تیری عمر کوبھی بڑھاؤں گایعنی دشمن جوکہتاہے کہ صرف جولائی 1907ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیںیاایساہی جودوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کوجھوٹاکروں گااورتیری عمر کوبڑھادوں گاتامعلوم ہوکہ میں خداہوں اورہرایک امرمیرے اختیارمیں ہے۔‘‘ یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں میری فتح اوردشمن کی شکست اورمیری عزت اوردشمن کی ذلت اورمیرااقبال اوردشمن کاادبار بیان فرمایاہے اوردشمن پرغضب اور عقوبت کاوعدہ کیا ہے مگرمیری نسبت لکھاہے کہ دنیامیں تیرانام بلندکیاجائے گااورنصرت اورفتح تیرے شامل حال ہوگی اوردشمن جومیری موت چاہتاہے خودمیری آنکھوں کے روبرواصحاب الفیل کی طرح نابوداورتباہ ہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ720اشتہاربعنوان ’’تبصرہ‘‘طبع چہارم) مزیدایک مقام پرمرزاقادیانی لکھتاہے کہ ’’ہاںآخری دشمن اب ایک اورپیداہواہے جس کانام عبدالحکیم خاں ہے اوروہ ڈاکٹرہے اورریاست پٹیالہ کارہنے والاہے جسکا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی 4اگست 1908ء تک ہلاک ہوجاؤں گااوریہ اس کی سچائی کے لیے ایک نشان ہوگا۔یہ شخص الہام کادعویٰ کرتاہے اورمجھے دجال اورکافراورکذاب قراردیتاہے پہلے اس نے بیعت کی اور برابربیس برس تک میرے مریدوں اورمیری جماعت میں داخل رہا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔آخر میں نے اسے اپنی جماعت سے خارج کردیاتب اس نے پیشگوئی کی میں اس کی زندگی میں ہی4 ۱گست 1908ء تک اس کے سامنے ہلاک ہوجاؤں گا۔مگرخدانے اسکی پیشگوئی کے مقابل پرمجھے خبردی کہ وہ خودعذاب میں مبتلاکیاجائے گا اورخدااس کوہلاک کرے گااورمیں اس کے شرسے محفوظ رہوں گا سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کافیصلہ خداکے ہاتھ میں ہے بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جوشخص خداتعالیٰ کی نظرمیں صادق ہے خدااس کی مددکرے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت صفحہ321‘322مندرجہ روحانی خزائن جلد23صفحہ336‘337) اس چیلنج بازی کانتیجہ یہ نکلاکہ مرزاقادیانی 26مئی 1908ء کوہلاک ہوگیا چنانچہ مورخ مرزائیت دوست محمدشاہد تاریخ احمدیت میں رقمطرازہے کہ ’’وفات کے وقت حضورکی عمر سواتہترسال کے قریب تھی دن منگل کا تھااورشمسی تاریخ 26مئی1908ء تھی۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد2صفحہ542ازدوست محمد شاہد قادیانی) ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے متعلق دوست محمد شاہدقادیانی لکھتاہے کہ ’’وہ یکم جون 1920ء کی شب گمنامی کی حالت میں سل کی مرض میں چندماہ مبتلارہ کراپنے الہامات کی صریح ناکامی اورسلسلہ احمدیہ کی کامیابی دیکھتا ہواچل بسا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد2صفحہ463) آخرکارنتیجہ یہ نکلاکہ مرزاقادیانی کذاب تھابقول فاتح قادیاں مولاناثناء اللہ امرتسری رحمۃاللہ علیہ لکھاتھاکاذب مرے گا پیشتر کذب میں پکاتھاپہلے مرگیا عموماًقادیانی حضرات ڈاکٹر پٹیالوی کو جھوٹاقراردیتے ہیںیہی وجہ ہے کہ قادیانی مؤرخ دوست محمدشاہدڈاکٹر پٹیالوی کو جھوٹا قرار دینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خدائے حکیم وخبیرنے جواپنے پیار ے مسیح سے یہ وعدہ کرچکا تھا کہ میں دشمنوں کوجھوٹا کروں گاعبدالحکیم کی پیشگوئی کے دونوں اجزاء کویوں باطل کردیاکہ حضوراپنے بعض گذشتہ الہامات کی بنا پر26مئی1908ء کوانتقال فرماگئے اورصاف طور واضح کر دیاکہ عبدالحکیم کاذب ومفتری انسان ہے حقیقت اتنی واضح اورنمایاں تھی کہ ’’پیسہ اخبار‘‘کے ایڈیٹرکے علاوہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی اس کااقرارکیاچنانچہ لکھا’’ہم خدالگتی کہنے سے رک نہیں سکتے کہ ڈاکٹرصاحب اگراسی پربس کرتے یعنی چودہ ماہیہ پیشگوئی کرکے مرزاکی موت کی تاریخ مقررنہ کردیتے جیساکہ انہوں نے کیاچنانچہ 15مئی 1908ء کے اہلحدیث میں ان کے الہامات درج ہیں کہ 21ساون یعنی 4اگست کو مرزامرے گا تو آج وہ اعتراض نہ ہوتا جومعزز ایڈیٹر’’پیسہ ‘‘اخبارنے ڈاکٹرصاحب کے اس الہام پرچبھتا ہوا کیا ہے کہ 21ساون کوکی بجائے 21ساون تک ہوتاتوخوب ہوتا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد2صفحہ463) محترم قارئین !مورخ احمدیت نے یہاں پر بھی اخبار اہلحدیث کی ادھوری تحریر پیش کر کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے آئیے اخبار اہلحدیث کی پوری تحریر ملاحظہ فرمائیں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں کہ مرزا نے ڈاکٹرعبدالحکیم صاحب کے حق میں بھی بری طرح ہلاکت کی پیشگوئی کی تھی چنانچہ اشتہار(تبصرہ) مجریہ ۵نومبر ۱۹۰۷ ء میں ڈاکٹر صاحب کی طرف اشارہ کرکے لکھا کہ : ’’دشمن جو میری موت چاہتاہے وہ خود میری آنکھوں کے روبرو اصحاب الفیل کی طرح نابود اور تباہ ہوگا ۔ خداایک قہری تجلی کرے گا اور وہ جو جھوٹ اورشوخی سے باز نہیں آتے ان کی ذلت اور تباہی ظاہر کرے گا ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کی پیشگوئی میعاد چودہ ماہ کی تردید میں مرزا صاحب قادیانی نے اسی اشتہار میں لکھا کہ ’’میں تیری عمرکوبھی بڑھاؤ ں گایعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی 1907ء سے چودہ مہینے تک تیری عمرکے دن رہ گئے ہیںیاایساہی جودوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو میں جھوٹاکروں گا اور تیری عمرکو بڑھا دوں گا تامعلوم ہوکہ میں خداہوں اورہرایک امرمیرے اختیار میں ہے۔‘‘ اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی پیشگوئی چودہ ماہیہ جو ستمبر ۱۹۰۸ ء کو ختم ہونے والی تھی مرزا کی عمر اس سے زیادہ ہوگی یعنی وہ ستمبر ۱۹۰۸ ء کے اندراندر کسی طرح نہیں مرسکتے تھے حالانکہ مرے تو ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو جو چودہ ماہ سے تین ماہ قبل ہے یہاں تک تو ڈاکٹر صاحب کی پیشگوئی کمال صفائی رکھتی ہے مگر ہم خدالگتی کہنے سے رک نہیں سکتے کہ ڈاکٹرصاحب اگراسی پربس کرتے یعنی چودہ ماہیہ پیشگوئی کرکے مرزاکی موت کی تاریخ مقررنہ کردیتے جیساکہ انہوں نے کیاچنانچہ 15مئی 1908ء کے اہلحدیث میں ان کے الہامات درج ہیں کہ 21ساون یعنی 4اگست کو مرزامرے گا تو آج وہ اعتراض نہ ہوتاجومعزز ایڈیٹر’’پیسہ ‘‘اخبارنے ڈاکٹرصاحب کے اس الہام پرچبھتا ہواکیا ہے کہ 21ساون کوکی بجائے 21ساون تک ہوتاتوخوب ہوتاغرض سابقہ پیشگوئی سہ سالہ اور چودہ ماہیہ اسی اجمال پر چھوڑے رہتے اور ان کے بعد میعاد کے اندر تاریخ کا تقرر نہ کر دیتے تو آج ۂ اعتراض پیدا نہ ہوتا۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ مرزا اپنے اقرار کے مطابق آپ کے مقابلہ پر بھی ویساہی ماخوذ ہے جیساکہ میرے مقابل پر کیونکہ اس نے جیسی میری نسبت اپنی زندگی میں موت کی دعا اور پیشگوئی کی تھی ایسی آپ کی نسبت بھی کی تھی ۔گو میری نسبت صاف اور واضح تر الفاظ میں فیصلہ چاہاتھااوریہ بھی لکھا تھاکہ اگر میں (مرزا)مولوی ثناء اللہ کی زندگی میں مرجاؤ ں تو مجھ کو کذاب ،مفتری،مفسداور دجال سمجھو ۔غرض یہ کہ مرزاصاحب نے جو ہم دونوں اور دیگر ہمارے ہم خیال احباب کے لیے چاہا تھا وہ خود اسی کے لیے پیش آیا ۔کیاسچ ہے ۔ الجھاہے پاؤں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ( ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر ۱۲جون ۱۹۰۸ ء) محترم قارئین !یہ تھی مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل تحریر جس میں سے قادیانی مورخ نے سیاق سباق سے ہٹ کر ایک ٹکڑا پیش کیا تھااب آتے مرزا قادیانی کیالہامات کی طرف جن کا مطالعہ کرنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کوسچاثابت کرنے کے لیے اﷲتعالیٰ نے کونساطریقہ اختیار کرناتھا مرزاقادیانی کی عمر کم کرنے کا یابڑھانے کا؟یہ معلوم کرنے کے لیے مرزاقادیانی کو ہونے والا الہام دوبارہ ملاحظہ فرمائیے اورخودفیصلہ کیجیے کہ مرزا قادیانی کیونکر سچاہوسکتاہے؟جبکہ مرزاقادیانی واضح طورپر مدعی مسیحیت‘نبوت ہے اوراس کے برعکس ڈاکٹر پٹیالوی تومحض الہامی ہونے کا دعوے دارتھانہ کہ مدعی مسیحیت یانبوت ۔‘اب مرزاقادیانی کا الہام دوبارہ ملاحظہ فرمائیں ’’میں تیری عمرکوبھی بڑھاؤ ں گایعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی 1907ء سے چودہ مہینے تک تیری عمرکے دن رہ گئے ہیںیاایساہی جودوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو میں جھوٹاکروں گا اور تیری عمرکو بڑھا دوں گا تامعلوم ہوکہ میں خداہوں اورہرایک امرمیرے اختیار میں ہے۔‘‘ یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں میری فتح اور دشمن کی شکست اورمیری عزت اوردشمن کی ذلت اورمیرااقبال اوردشمن کاادباربیان فرمایاہے اوردشمن پر غضب اورعقوبت کاوعدہ کیاہے مگرمیری نسبت لکھاہے کہ دنیانیں تیرانام بلند کیا جائے گااورنصرت اورفتح تیرے شامل حال ہوگی اوردشمن جومیری موت چاہتا ہے خودمیری آنکھوں کے روبرو اصحاب الفیل کی طرح نابوداورتباہ ہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ720اشتہار بعنوان’’تبصرہ‘‘طبع چہارم) محترم قارئین!مندرجہ بالاتحریروں کومدنظر رکھتے ہوئے خودفیصلہ کیجیے کہ کیا مرزا قادیانی کی عمر میں اضافہ ہوایاکمی ‘ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی مرزاقادیانی کی زندگی ہی اصحاب الفیل کی طرح نابود اور تباہ ہوایاکہ مرزاقادیانی خودعمر کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا۔ جہادفی سبیل اللہ اورسیرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:۔ نبی کریم علیہ السلام نے اپنی حیات مبارکہ میں کئی جنگوں میں بنفس نفیس حصہ لیا یہاں تک کہ غزوہ احد میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک بھی شہید ہوئے اسی طرح جہادوقتال کے بارے میں قرآن مقدس میں واضح طورپریہ حکم ربانی موجود ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَا لُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسیٰ اَنْ تُحِبُّوْا شَےْئاً وَہُوَشَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ ےَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنo یعنی جنگ کرناتم پرفرض کیاجاتا ہے (اور) اس حالت میں (فرض کیاجاتاہے) کہ وہ تمہیں ناپسند ہے اور بالکل ممکن ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہواور (یہ بھی) ممکن ہے۔کہ تم کسی شے کوپسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لیے دوسری چیز کی نسبت بری ہواور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ:217بحوالہ تفسیر صغیر ازمیاں محمود بشیر الدین ابن مرزا قادیانی) ایک اور مقام پر رب کائنات فرماتاہے کہ وَقَاتِلُوْا ہُمْ حَتیّٰ لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَےَکُوْنَ الدِّےْنُ کُلُّہُ لِلَّہِ یعنی اوران (کفار)سے لڑتے جاؤ یہاں تک کہ جبر کانام ونشان باقی نہ رہے اوردین سب کاسب اللہ ہی کے لیے ہوجائے (سورۃ الانفال :39ترجمہ از تفسیر صغیر) محترم قارئین !میں نے جہادوقتال کے احکامات پرمبنی قرآن مقدس کی صرف دو آیات ہی بمع ترجمہ آپ کے سامنے پیش کی ہیں اورترجمہ بھی مرزاقادیانی کے بڑے بیٹے میاں محمودبشیرالدین جوقادیانیوں کادوسراخلیفہ بھی تھاکی تفسیرسے ہی نقل کیا ہے۔جبکہ جہادوقتال کے حوالہ سے تو سینکڑوں آیات قرآنیہ موجود ہیں۔اب میں چنداحادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ((عِصَابَتَانِ مِنْ اُمَّتِیْ أَحْرَزَھُمَااللّٰہُ مِنَ النَّارِعِصَابَۃٌ تَغْزُوالھِنْد وَعِصَابَۃٌ تَکُوْ نُ مَعَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ)) ترجمہ :۔یعنی میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا ایک وہ گروہ جوہندوستان میں جہادکرے گا اور ایک وہ جو عیسیٰ الیہ السلام کے ساتھ مل کر جہادکرے گا (سنن نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الہند) ایک اور مقام پر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ((لَنْ یَبْرَحَ ھَذَالّدِیْنُ قَاءِمًاےُقَاتِلُ عَلَیْہِ عِصَابَۃ مِنَ الْمُسْلِمُیْنَ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ)) کہ یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے لیے قتال کرتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو (صحیح مسلم کتاب الامارۃ) انہی آیات اور احادیث مبارکہ کی تفسیر نبی کریم علیہ السلام کی اس خواہش سے بھی ہوتی ہے جس کا ذکر امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے بخاری شریف کتاب الجہاد والسیّرمیں اورامام مسلم رحمۃاللہ علیہ نے صحیح مسلم کتاب الامارۃ میں کیاہے ۔چنانچہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح ہے کہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایاکہ ((وَالَّذِی نفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوَدِدْتٌّ اَنِّی اَغْزُوْفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلُ ثُمَّ اَغْزُوْفَاُقْتَلُ ثُمَّ اَغْزُوْفَاُقْتَلُ)) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں جہادکروں اورشہید کردیا جاؤں پھرلڑوں اور شہید کردیاجاؤں پھرلڑوں اور شہید کردیاجاؤں پھرلڑوں اور شہید کردیاجاؤں۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ ‘صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر) یہ تو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شوق شہادت ہے اب پروردگار عالم کا حکم بھی اپنے محبوب جناب محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام ملاحظہ فرمائیں چنانچہ ارشادربانی ہے کہ ((یٰاَیُّھَاالنَبِیُّ حَرِّضِ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُونَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْامِاَ تَیْنِ وَاِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِّاَءَۃٌ یَغْلِبُوْااَلْفًامِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِاَنَّھُمْ قَوْمٌلَّا یَفْقَھُوْن)) اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !مومنوں کو (کافروں سے)لڑنے کی باربارزورسے تحریک کرتا رہ اگر تم میں سے بیس ثابت قدم رہنے والے (مومن)ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں غالب آجائیں گے کیونکہ وہ ایسی قوم ہیں جو سمجھتے نہیں(جبکہ مومن سمجھ بوجھ کر اپنے ایمان پر قائم ہیں) (سورۃ الانفال :66بحوالہ تفسیر صغیر از میں میاں محمودبشیرالدین ابن مرزاقادیانی) ((فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَاتُکَلَّفُ اِلَّانَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُومِنِیْنَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَکُفَّ بَاسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاوَاللّٰہُ اَشَدُّبَاْسًاوَّاَشَدُّ تَنْکِیْلًا)) یعنی سو تو اللہ کی راہ میں لڑائی کرتجھے اپنے نفس کے سوا (کسی کا)ذمہ دارنہیں ٹھرایاجاتا اور(تیراکام صرف یہ ہے کہ )تومومنوں کو ترغیب دے بالکل ممکن ہے کہ اللہ کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ کی جنگ سب سے بڑھ کر سخت (ہوتی )ہے اور اس کا عذاب بھی سب سے بڑھ کر سخت (ہوتا) ہے (سورۃ النساء :85بحوالہ تفسیرصغیر) محترم قارئین!یہ ہے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جہادوقتال سے تعلق اور ان کی شریعت میں جہادوقتال کی اہمیت وفضیلت اور فرضیت ۔اب جائزہ لیتے ہیں مرزا قادیانی اور اسکی شریعت کاکہ اس میں جہادوقتال کی کیا اہمیت ہے؟ جہادوقتال فی سبیل اللہ اور مرزاقادیانی:۔ مرزاقادیانی رقم طراز ہے کہ اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دین کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد تم میں سے جن کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے استوار لوگوں کو بتائے کہ اب وقت مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 41 تا44مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 77تا80) مزید مرزا غلام احمد قادیانی اپنے مشن کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کاانکار ہے‘‘ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 198 طبع چہارم از مرزا غلام قادیانی) آنجہانی مرزاقادیانی ایک مقام پر نبی کریم علیہ السلام کے جہادی مشن کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت (برطانیہ) کے زیر سایہ ہمیں حاصل ہے نہ یہ مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے اور نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔۔۔۔۔۔۔اور جولوگ مسلمانوں میں سے ایسے بدخیال جہاد اور بغاوت کے دلوں میں مخفی رکھتے ہوں میں ان کو سخت نادان اور بدقسمت ظالم سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔تم چاہو دل میں مجھے کچھ کہو ، گالیاں نکالو یا پہلے کی طرح کافر کا فتویٰ لکھو مگر میرا اصول یہی ہے کہ ایسی سلطنت سے دل میں بغاوت کا خیال رکھنا یا ایسے خیال جن سے بغاوت کا احتمال ہو سکے سخت بدذاتی اور خدا تعالیٰ کا گناہ ہے۔ ‘‘ (تریاق القلوب صفحہ28مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ156) مرزاقادیانی مزید ایک مقام پر رقمطراز ہے کہ ’’جنگ سے مراد تلوار ‘بندوق کاجنگ نہیں کیونکہ یہ توسراسر نادانی اورخلاف ہدایت قرآن ہے یہ جودین کے پھیلانے کے لیے جنگ کیاجائے بلکہ اس جگہ جنگ سے ہماری مراد زبانی مباحثات ہیں جونرمی اور انصاف اور معقولیت کی پابندی کے ساتھ کیے جائیں ورنہ ہم ان تمام مذہبی جنگوں کے سخت مخالف ہیں جوجہادکے طورپرتلوار سے کیے جاتے ہیں‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 2مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 130) محترم قارئین !آپ نے جہادو قتال پر مبنی محمدی مشن کابھی مطالعہ کر لیا ہے اور دوسری طرف مرزاقادیانی کے جہاد مخالف فتوے بھی ملاحظہ کرلیے ہیں اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ مرزاقادیانی نبی کریم علیہ السلام کا ظل اوربروز ہے یاکہ متضاد؟ یادرہے کہ جب قادیانیوں سے مسئلہ جہاد اور اس کی مخالفت کے موضوع پرگفتگو ہوتی ہے تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے جہاد کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ اس وقت جہاد کی شرائط موجود نہیں تھیں۔جبکہ مرزاقادیانی اس کے برعکس واضح طورپر لکھتا ہے کہ ’’ آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا، خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا تھا کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے۔‘‘ (اشتہار چندہ مینارۃ المسیح بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 408 طبع چہارم) ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کیے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘ (اربعین نمبر4 حاشیہ صفحہ13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 443) آئیے!آخرمیں مزید دو احادیث بھی ملاحظہ کرلیں تاکہ ظل اور بروز کی اصل حقیقت واضح ہوسکے ۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ! ((لَاتَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ عَلٰی مَنْ نَاوَاھُمْ حَتَّی یُقَاتِلُ اَخِرُھُمُ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ)) یعنی میری امت کو ایک گروہ برابر حق پر لڑتارہے گا اورحق کے دشمنوں پر غلبہ پائے حتیٰ کہ ان میں سے آخری گروہ مسیح دجال سے لڑے گا (سنن ابوداؤد کتاب الجہاد ‘باب فی دوام الجہاد) دوسری حدیث مبارکہ جواس سے قبل بھی تحریر ہو چکی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے ایک وہ جو ہندوستان میں جہادکرے گا دوسرا وہ جو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ مل کر جہاد کرے گا ‘‘ (سنن نسائی کتاب الجہاد ‘باب غزوۃالہند) محترم قارئین! سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مرزاقادیانی نے بھی تو عیسیٰ بن مریم ہونے کا دعوی کیا تھا لیکن اس حدیث کے برعکس اس نے جہادوقتال کرنے کی بجائے اسے حرام قراردیدیااوردوسری طرف انگریزکوہی دجال قرار دیاہے چنانچہ معروف قادیانی عالم ملک عبدالرّحمان خادم اپنی کتاب ’’پاکٹ بک ‘‘میں رقمطراز ہے کہ ’’چنانچہ آپ وہ پہلے انسان ہیں جس نے انگریزی قوم کو دجال موعود قرار دیا ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔آپ نے دعویٰ مسیحیت کے بعد سب سے پہلی کتاب’’ ازالہ اوہام‘‘ لکھی اسی میںآپ نے بدلائل بیّنہ یہ ثابت کیاکہ احادیث نبوی میں جس دجال کے آخری زمانہ میں ظہورکی خبردی گئی تھی وہ یہی انگریز قوم ہے آپ نے ریل گاڑی کو ’’ خُردجال ‘‘ قراردیاکیونکہ احادیث نبوی اورروایات میں جوعلامات’’دجال‘‘اوراس کے گدھے کی بتائی گئی تھیں وہ انگریز اوران کی ایجاد کردہ ریل گاڑی میں پائی جاتی تھیں۔‘‘ (پاکٹ بک صفحہ 587ازملک عبدالّرحمان خادم قادیانی) مرزاقادیانی خودرقمطراز ہے کہ ’’ہمارے نزدیک ممکن ہے دجال سے مراد بااقبال قومیں ہوں اورگدھا ان کا یہی ریل ہو جو مشرق و مغرب کے ملکوں میں ہزارہاکوسوں تک چلتے دیکھتے ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ74مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ174) ’’مگرمیرامذہب یہ ہے کہ اس زمانہ کے پادریوں کی مانند کوئی اب تک دجال پیدانہیں ہوااورنہ قیامت تک پیداہوگا‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوئم صفحہ262مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ362) محترم قارئین !کیامرزاقادیانی نے انگریزو ں کے خلاف جہاد کیا یا ان کی چاکری اور غلامی کی اس کا فیصلہ مرزاقادیانی کی اس تحریر سے واضح ہوتا لہٰذااس سلسلہ میں مرزاقادیانی کامذہب ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی رقمطراز ہے کہ ’’سومیرامذہب جس کو میں باربارظاہرکرتاہوںیہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں‘دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو ۔سو وہ سلطنت برطانیہ ہے۔‘‘ (شہادت القرآن صفحہ84مندرجہ روحانی خزائن جلد6صفحہ380) آسمانی نکاح اور مرزاقادیانی کی ظلیت:۔ محترم قارئین ! آئیے ایک اور انداز سے آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی کی ظلیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نبی کریم علیہ السلام کی پھوپھو زاد تھیں اور ابتدا میں ہی اسلام قبول کر چکی تھیں ۔ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیا جاتا تھا اللہ رب العزت نے اس رسم بد کا خاتمہ کرنے کے لئے نبی کریم علیہ السلام کو حکم دیاکہ اپنے منہ بولے بیٹے زید رضی اللہ عنہ جوکہ غلام بھی تھے کا نکاح سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کر دیں ۔ اس حکم کی بنیاد پر سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح زید رضی اللہ عنہ سے کر دیا گیا لیکن دونوں میاں بیوی کے درمیان نباہ نہ ہو سکا اور طلاق ہو گئی تو رب کائنات نے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ کے ساتھ شادی نہ کرنے کی رسم کے خاتمہ کرنے کے لیے رب ذوالجلال نے خودہمارے پیارے پیرومرشد امام الانبیاء ﷺ کا نکاح مبارک سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے عرش بریں پر کر دیا ور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تازندگی نبی کریم علیہ السلام کے عقد میں رہیں ۔ اسی لیے سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا بڑے فخر سے کہا کرتیں تھیں کہ تمہاری شادی تمہارے خاندان نے کی اور میری شادی اللہ تعالی نے ساتوں آسمانوں کے اوپر کی مسلم شریف میں سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ((زَوَّجَکُنَّ اَھَا لِیْکُنَّ وَزَوَّ جَنِیْ اللّٰہُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمٰوٰتٍ)) (صحیح مسلم کتاب النکاح) ترجمہ:۔ تمہاری شادی تمہارے خاندان نے کی اور میری شادی اللہ تعالی نے ساتوں آسمانوں کے اوپر کی ۔ محترم قارئین ! نبی رحمت علیہ السلام کا نکاح ام المومنین سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہ ساتھ اللہ رب العزت نے عرش بریں پر کیا تو وہ تا زندگی آنحضرت ﷺ کے عقد میں رہیں ۔ اس کے برعکس آنجہانی مرزاقادیانی نے بھی دعوی کیا تھا کہ میرا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ اللہ تعالی نے کردیا ہے لیکن وائے حسرت کہ وہ تا زندگی مرزاقادیانی کے نکاح میں نہیں آئی ۔ اس واقعہ کی تفصیل بھی مرزاقادیانی کی زبانی ہی ملاحظہ کریں چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ ’’پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا ۔۔۔۔قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہو گا جھوٹ اور سچ میں ہے جو فرق وہ پیدا ہوگا ۔۔۔۔کوئی پا جائے گا عزت کوئی رسوا ہوگا‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 133طبع جدید) یہ شعر درج کرنے کے بعد اسی اشتہار میں آگے چل کر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ ’’یہ لوگ جو مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دروغ گو خیال کرتے تھے اور اسلام اور قرآن شریف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے تو اس وجہ سے کئی دفعہ ان کے لیے دعا بھی کی گئی تھی۔ سو وہ دعا قبول ہو کر خدا تعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ والد اس دختر کا ایک اپنے ضروری کام کے لیے ہماری طرف ملتجی ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ نامبردہ (احمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے، نامبردہ (احمد بیگ) کی ہمشیرہ کے نام کاغذاتِ سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپور میں جاری ہے، نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ (احمد بیگ) نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے، اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرا دیں چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بیکار تھا، اس لیے مکتوب الیہ (احمد بیگ) نے بتمامتر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا، تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جنابِ الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔ پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔ اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (احمد بیگ) کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمھارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1888ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی، وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اورغم کے امر پیش آئیں گے۔ پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دخترِ کلاں (محمدی بیگم) کو جس کینسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بناوے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا۔ چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے: کذبوا بٰایٰتنا وکانوا بھا یستھزؤن فسیکفیکہم اللّٰہ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ ان ربک فعال لما یرید۔ انت معی وانا معک عسٰی ان یبعثک ربک مقامًا محمودًا۔ یعنی انھوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں، تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اُس کی اِس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ تُو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 132,133طبع جدید) مرزاغلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزابشیر احمداپنی کتاب سیرت المہدی میں اسی واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح کی حقیقی ہمشیرہ مراد بی بی، مرزا محمد بیگ ہوشیارپوری کے ساتھ بیاہی گئی تھیں۔ مگر مرزا محمد بیگ جلد فوت ہو گئے اور ہماری پھوپھی کو باقی ایام زندگی بیوگی کی حالت میں گزارنے پڑے۔ ہماری پھوپھی صاحبِ رویا و کشف تھیں۔ مرزا محمد بیگ مذکور کے چھوٹے بھائی مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے چچیرے بھائیوں یعنی مرزا نظام الدین وغیرہ کی حقیقی بہن عمر النساء بیاہی گئی تھیں، ان کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئی۔ مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین اور دہریہ طبع لوگ تھے اور مرزا احمد بیگ مذکور ان کے سخت زیر اثر تھا اور انھیں کے رنگ میں رنگین رہتا۔ یہ لوگ ایک عرصہ سے حضرت مسیح موعود سے نشانِ آسمانی کے طالب رہتے تھے کیونکہ اسلامی طریق سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور والدِ محمدی بیگم یعنی مرزا احمد بیگ ان کے اشارہ پر چلتا تھا۔ اب واقعہ یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک اور چچا زاد بھائی مرزا غلام حسین تھا جو عرصہ سے مفقود الخبر ہو چکا تھا، اور اس کی جائداد اس کی بیوی امام بی بی کے نام ہو چکی تھی۔ یہ امام بی بی مرزا احمد بیگ مذکور کی بہن تھی۔ اب مرزا احمد بیگ کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسمات امام بی بی اپنی جائداد اس کے لڑکے مرزا محمد بیگ برادر کلاں محمدی بیگم کے نام ہبہ کر دے۔ لیکن قانوناً امام بی بی اس جائداد کا ہبہ بنام محمد بیگ مذکور بلا رضا مندی حضرت مسیحِ موعود نہ کر سکتی تھی۔ اس لیے مرزا احمد بیگ بتمام عجز و انکساری حضرت مسیح موعود کی طرف ملتجی ہوا کہ آپ ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ چنانچہ حضرت صاحب قریباً تیار ہو گئے۔ لیکن پھر اس خیال سے رک گئے کہ دریں بارہ مسنون استخارہ کر لینا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ نے مرزا احمد بیگ کو یہی جواب دیا کہ میں استخارہ کرنے کے بعد، دستخط کرنے ہوں گے تو کر دوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا، گویا آسمانی نشان کے دکھانے کا وقت آن پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔ چنانچہ استخارہ کے جواب میں خداوند تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے یہ فرمایا کہ ’’اس شخص کی دخترِ کلاں کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمھارے لیے موجبِ برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا، اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1886ء میں درج ہیں۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا، اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی، اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔‘‘ اس وحی الہامی کے ساتھ حضرت مسیحِ موعود نے نوٹ دیا کہ ’’تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آئے بلکہ مکاشفات کے رُو سے مکتوب الیہ (یعنی مرزا احمد بیگ) کا زمانۂ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں، نزدیک پایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘ جب استخارہ کے جواب میں یہ وحی ہوئی تو حضرت مسیح موعود نے اسے شائع نہیں فرمایا بلکہ صرف ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ سے والدِ محمدی بیگم کو اس سے اطلاع دے دی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ وہ اس کی اشاعت سے رنجیدہ ہوگا۔ لہٰذا آپ نے اشاعت کے لیے مصلحتاً دوسرے وقت کی انتظار کی۔ لیکن جلد ہی خود لڑکی کے ماموں مرزا نظام الدین نے شدتِ غضب میں آ کر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا اور علاوہ زبانی اشاعت کے اخباروں میں بھی اس خط کی خوب اشاعت کی۔ تب پھر حضرت مسیحِ موعود کو بھی اظہار کا عمدہ موقعہ مل گیا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 114، 115 از مرزا بشیر احمد ایم اے) محترم قارئین ! آپ یہ تو ملاحظہ کر چکے ہیں کہ کس طرح مرزاقادیانی نے اپنے رشتہ داروں کو ان کی مجبوری کی وجہ سے بلیک میل کرنے کی کوشش کی اب آپ اس وقت مرزاقادیانی کی عمر اور محمدی بیگم کی عمر کاتذکرہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی ہی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ ’’کانت بنتہ ھذہ المخطوبۃ جاریۃ حدیثۃ السن عذراء وکنت حینئدٍ جاوزت الخمسین۔ (ترجمہ) محمدی بیگم ابھی نوخیز لڑکی ہے اور میری عمر پچاس سال سے زائد ہے۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 574 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 574 از مرزا قادیانی) محترم قارئین ! ہمارا اس جگہ مرزاقادیانی کی مرزااحمد بیگ اور مرزاسلطان بیگ کے بارے میں پیشگوئیوں کو زیربحث لانا مقصد نہیں یہاں پر صرف اور صرف مرزاقادیانی کے آسمانی نکاح کو زیر بحث لانا مقصود ہے چنانچہ اس بارے میں مرزاقادیانی کا الہام ملاحظہ کریں جو درج ذیل ہے : ’’یہ بھی الہام (ہوا) ہے ویسئلونک احق ھو قل ای وربّی انّہ لحقّ وما انتم بمعجزین۔ زوجنا کھا لا مبدل لکلماتی۔ وان یروا اٰیٰۃ یعرضوا و یقولوا سحر مستمر۔ اور (لوگ) تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا (محمدی بیگم سے نکاح والی) یہ بات سچ ہے؟ کہہ ہاں! مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس (محمدی بیگم) سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۱۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔‘‘ (آسمانی فیصلہ صفحہ 40 مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 350 از مرزا قادیانی) محترم قارئین! مرزاغلام احمد قادیانی کا نکاح تازندگی محمدی بیگم سے نہیں ہوسکا بلکہ مرزاسلطان بیگ سے ہوا اور وہ تازندگی اس کے نکاح میں رہی ۔ ۱ محترم قارئین ! اسی تناظر میں میں آنجہانی مرزاقادیانی کی ایک اور تحریرپیش کرنا چاہتا ہوں جونہ صرف مرزاقادیانی کی سلطان القلمی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) (پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) کا نادر نمونہ ہے بلکہ اسے پڑھ کر کئی اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ ’’اور یہ امر کہ اس الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ درست ہے مگر جیساکہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جوآسمان پر پڑھا گیا ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ایتھاالمرأۃ توبی توبی فان البلاء علی عقبک پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکا فسخ ہو گیایاتاخیر میں پڑھ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 133مندرجہ قادیانی خزائن جلد22صفحہ 570) محترم قارئین !اگرہم مرزا قادیانی کی اس مندرجہ بالاتحریر کاجائزہ لیتے ہیں تودرج ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں 1۔ جیساکہ مندرجہ بالا تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب قادیانی اس نکاح کا تذکرہ کر رہے ہیں جو آسمانوں پر پڑھا گیا تھا اور آخر میں لکھتے ہیں کہ وہ نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا ۔جی ہاں جو نکاح آسمانوں پر پڑھا گیا تھا وہ فسخ ہو گیا ۔تو شریعت محمدی میں نکاح فسخ ہونے کے درج ذیل اسباب ہوتے ہیں۔ (۱) شوہر اس حد تک نادار ہوکہ بیوی کے اخراجات واجبہ ادا کرنے کی صلاحییت نہ رکھتا ہو ۔ (۲)شوہر مکمل طور پر نامرد ہو اور اپنی بیوی کے حقوق زوجیت اداکرنے کے قابل نہ ہو ۔ (۳)شوہر ایسا ظالم ہو کہ زود وکوب ،عدم خبر گیری وغیرہ سے بیوی کا عرصہ حیات تنگ کیے رکھتا ہو ۔ (۴)شوہر دین اسلام کو ترک کر کے مرتد ہو جائے ۔ اب ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ ان میں سے کس وجہ سے یہ آسمانی نکاح فسخ ہوا ۔ 2۔ مرزا قادیانی نے دوسری بات جو اس تحریر میں بیان کی ہے وہ یہ کہ جو نکاح آسمانوں پر پڑھا گیا تھا وہ تاخیر میں پڑ گیا ۔ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کونسی منطق ہے کہ ایک طرف تو نکاح پڑھا جا چکاتھا وہ تاخیر میں کیونکر پڑگیا ؟ تاخیر میں تو تبھی پڑ سکتا ہے جب ہواہی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) تصویر کشی اور مرزاقادیانی کی ظلیت:۔ محترم قارئین! شریعت محمدی ﷺ میں تصویرکشی نہ صرف حرام بلکہ اس بارے میں سخت وعیدیں بھی نازل ہوئی ہیں چنانچہ فرمان رسول ﷺ ہے کہ (( اِنَّ اَشَدَّالنَّاسِ عَذَاباً عِنْدَاللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمُصَوِّرُوْنَ)) (صحیح بخاری ،کتاب الباس،باب عذاب المصورین یوم القیمۃ :۵۹۵۰) ترجمہ:۔ اللہ تعالی کے ہاں قیامت کے دن تصویر بنانے والے کو سخت ترین عذاب ہو گا۔ (( اِنَّ الَّذِیْنَ یَصْنَعُوْنَ ھَذِہِ الصُّوَرَ یُعَذَّبُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُقَالُ لَھُمْ اَحْیُوْامَاخَلَقْتُمْ )) (صحیح بخاری ،کتاب الباس،باب عذاب المصورین یوم القیمۃ :۵۹۵۱) (پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) نہ ہو اور جب نکاح پڑھا جا چکاہو تووہ تاخیر میں کیسے پڑ سکتا ہے ؟ 3۔ مرزا صاحب قادیانی نے اسی تحریر میں محمدی بیگم کے اس کی زوجیت میں نہ آنے کی وجہ ایک شرط بتائی ہے اور اسی شرط کے بارے اپنا الہام کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ایتھاالمرأۃ توبی توبی فان البلاء علی عقبک اس الہام کا ترجمہ مرزا صاحب کے الہامات پر مشتمل ’’تذکرہ ‘‘ نامی کتاب کے صفحہ 108پرکچھ یوں موجودہے کہ ’’اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ تیری نسل پر مصیبت آنیوالی ہے ۔‘‘ مرزا صاحب اس تحریر میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس الہام میں موجود توبہ والی شرط کو پورا کر دیا تو یہ نکاح فسخ ہو گیا ۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمدی بیگم کا مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ جو آسمانی نکاح ہوا تھا وہ مرزااحمد بیگ اور اس کے خاندان کے لیے ایک عذاب تھا جو توبہ کی وجہ سے فسخ ہو گیا اور اگر کسی عورت کا نکاح شریف النفس ،نیک اور پاکباز شخص سے ہو تو وہ عذاب نہیں ہو سکتا بلکہ عورت اور اس کے خاندان کے لیے نکاح تبھی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) ترجمہ:۔ یقیناًان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور کہا جائیگا جن کو تم نے بنایاتھا انہیں زندگی بھی عطاکرو۔ ((لَا تَدْ خُلُ الْمَلٰءِکَۃُ بَیْتاً فِیْہِ کَلْبٌ وَلَا تَصَاوِیْرُ )) (صحیح بخاری ،کتاب الباس،باب التصاویر:۵۹۴۹) ترجمہ :۔رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ محترم قارئین !یہ تو تھے تصویر کے بارے میں نبی کریم علیہ السلام کے احکامات اب مرزاقادیانی کا موقف بھی تصویر کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی کے ملفوظات پر مشتمل کتاب درج ہے کہ ’’ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ۔جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: (پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) عذاب ہوگا جب جس شخص سے اس عورت کا نکاح ہوا ہو وہ بدکردار ،آوارہ،بدچلن اور عیاش طبیعت کا مالک ہو اب قادیانی حضرات کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر تو یہ نکاح توبہ کی وجہ سے فسخ ہواہے تو کیا مرزاقادیانی ایک بدکردار ،آوارہ،بدچلن انسان ثابت نہیں ہوتا اگر یہ نکاح والی پیشگوئی بغیر کسی شرط کے تھی اور وہ پوری نہیں ہوئی تو تب بھی مرزاقادیانی کذاب ٹھہرتا ہے کیونکہ اس نے خود اپنی کتاب انجام آتھم صفحہ 223مندرجہ قادیانی خزائن جلد 11صفحہ 223پر محمدی بیگم کے ساتھ اپنے نکاح کو نہ صرف تقدیر مبرم قرار دیا ہے بلکہ اسی نکاح کو اپنے صدق اور کذب کا معیار بھی بنایا ہے بلکہ ایک مقام پر تقدیر مبرم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے ایک کا نام معلق ہے اور دوسری کو مبرم کہتے ہیں اگر کوئی تقدیر معلق ہوتو دعااور صدقات اس کو ٹلادیتی ہے اور اللہ تعالی اپنے فضل سے اس تقدیر کو بدل دیتا ہے اور مبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعا اس تقدیر کے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی ۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 24طبع جدید ) کفار کے تتبع پر تو تصویر ہی جائز نہیں۔ہاں نفس تصویر میں حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے ۔اگر تصویر مفسد نماز ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہوسکتا اس کا جواب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے میں کہوں گا کہ اگر اضطرارسے پاخانہ آجاوے تو مفسد نماز نہ ہوگا اور پھر وضو کرنانہ پڑے گا ۔ اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں ۔ اگر یونہی بے فائدہ تصویررکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خداتعالی فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِّ اللَّغْوِ مُعْرِ ضُوْنَ ۔(المومن :۴)لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعے سے بھی ہو سکتی ہے تو منع نہیں ہے کیونکہ خداتعالی علوم کوضائع کرنا نہیں چاہتا مثلًا ہم نے ایک موقع پر عیسائیوں کے مثلث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جداجداتصویر دی ہے جس میں اس سے ہماری غرض یہ تھی کہ تا تثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے جو حیّ و قیّوم ازلی وابدی غیر متغیر اور تجسم ۱سے پاک ہے اسطرح پر اگر خدمت اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو تو شرع کلام نہیں کرتی جو امور خادم شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے ۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیؑ ٰ کے پاس کل نبیوں کی تصویر یں تھیں۲۔قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تو انہوں نے آنحضرتﷺ کی تصویر اس کے پاس دیکھی تھی۳۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 171,172) ۱ محترم قارئین !ایک طرف تو مرزاقادیانی اللہ تعالی کوغیرمجسم قراردیتاہے تو دوسری طرف اللہ تعالی کے بارے میں کچھ یوں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لئے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید خاص بلکہ بقول خود مرزا کی جوتیوں کا غلام مفتی صادق اپنی کتاب ’’ذکر حبیب ‘‘میں لکھتا ہے کہ ’’سب سے پہلا فوٹو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیا گیا وہ غالبًا 1901 ء میں اس ضرورت کے لیے تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیاتھا جس کا ترجمہ مولوی محمد علی صاحب نے انگریزی میں کرنا تھا اور تجویز ہوئی کہ چونکہ یورپ میں ایسے قیافہ شناس اور مصوران تصاویر بھی ہیں جو صرف تصویر کو دیکھ کر کسی شخص کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرتے ہیں اس واسطے ضروری ہو گاکہ اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں ۔ اس غرض کے لیے لاہور سے ایک فوٹوگرافر منگوایا گیا جس نے جو مطلوبہ تصویریں تھیں الگ الگ لیں مگر بعد میں دوسرے احباب کی درخواست پر ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا۔ اس کے بعد گویا کہ تصاویر کے لینے کی اجازت پاکر کئی ایک فوٹو لیے جاتے رہے ۔ جن میں سے ایک گروپ فوٹو ایسا تھا جن میں (عاجز)میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا اور بعد میں فوٹو گرافر کو کہہ کر یہ دو فوٹو میں نے پلیٹ پر سے الگ کرائے اور احمد صادق کا نام اس پر لکھ کر چھپوائے گئے ۔‘‘ (ذکر حبیب از مفتی صادق صفحہ 372,373) محترم قارئین !شاید ہی کوئی قادیانی گھرانہ ہو جس میں مرزاقادیانی اور اس کے نام نہاد خلیفوں کی تصاویر آویزاں نہ ہوں۔ (پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) بے شمار ہاتھ بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تندوی (تیند وے) کی طرح اس و جود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں‘‘ (توضیح مرام صفحہ 75مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ90) (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) محترم قارئین !آپ مرزاقادیانی کے مرید خاص اور بقول خود حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کی جوتیوں کے غلام یعنی مفتی صادق کی تحریر اور مرزاقادیانی کی اجازت کے بعد قادیانیوں کے متفقہ عمل کو تو ملاحظہ کر ہی چکے ہیں اب اسی ضمن میں مرزاقادیانی کی ایک اور تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں جس سے مرزاقادیانی کے قول فعل میں تضاد کی جھلک بھی واضح نظر آئے گی لیکن اس سے پہلے یہ بھی یاد رہے کہ مفتی صادق وہی شخص ہے جس کا نام اس فہرست میں 65ویں نمبر پر شامل ہے جو اصحاب بدر کے مقابل مرزاقادیانی نے اپنی کتاب انجام آتھم مندرجہ قادیانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲۵تا۳۲۸ پر درج کی ہے اب مرزاقادیانی کی تحریر ملاحظہ فرمائیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ’’میں اس بات کاسخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے میں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے ’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا‘‘ (تجلیات الٰہیہ صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 396) دوسری طرف اگر مرزاقادیانی عقیدہ تثلیث کی نفی کرتا ہے تو خود ہی اس کے برعکس اپنے آپ کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہواہے کہ اے مرزا ! اَنْتَ مِنِّییْ بِمَنْزِ لَۃِ ولَدِیْ ترجمہ؛تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے- (بحوالہ تذکرہ صفحہ548ازمرزاقادیانی طبع چہارم) ۲ ،۳ کیا کوئی قادیانی ان دونوں باتوں کا ثبوت دے سکتا ہے کہ موسی علیہ السلام کے پاس تمام انبیاء علیہ السلام کی تصاویر تھیں اور قیصر روم کے پاس نبی کریم علیہ السلام کی تصویر تھی یا پھر آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی عادت خبیثہ کے تحت محض افتراء کیا ہے ۔ اور مجھ سے زیادہ بت پرستے اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا۔ ‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 194مندرجہ قادیانی خزائن جلد 21صفحہ366) محترم قارئین !اب آپ ایک بار پھر مفتی صادق کی تحریر پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کے ان دونوں میں سے کون کذب بیانی کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ اصحاب بدر کے مقابل جن لوگوں کے ناموں کی مرزاقادیانی نے اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں فہرست دی ہے ان کے لئے مرزاقادیانی دعا کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالی بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں اللہ تعالی سب کو اپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم کرے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 41مندرجہ قادیانی خزائن جلد 11صفحہ 325) اب آ پ مفتی صادق کی تحریر کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ’’سب سے پہلا فوٹو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیا گیا وہ غالبًا 1901 ء میں اس ضرورت کے لیے تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیاتھا جس کا ترجمہ مولوی محمد علی صاحب نے انگریزی میں کرنا تھا اور تجویز ہوئی کہ چونکہ یورپ میں ایسے قیافہ شناس اور مصوران تصاویر بھی ہیں جو صرف تصویر کو دیکھ کر کسی شخص کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرتے ہیں اس واسطے ضروری ہو گاکہ اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں ۔ اس غرض کے لیے لاہور سے ایک فوٹوگرافر منگوایا گیا جس نے جو مطلوبہ تصویریں تھیں الگ الگ لیں مگر بعد میں دوسرے احباب کی درخواست پر ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا۔ اس کے بعد گویا کہ تصاویر کے لینے کی اجازت پاکر کئی ایک فوٹو لیے جاتے رہے ۔ جن میں سے ایک گروپ فوٹو ایسا تھا جن میں (عاجز)میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا اور بعد میں فوٹو گرافر کو کہہ کر یہ دو فوٹو میں نے پلیٹ پر سے الگ کرائے اور احمد صادق کا نام اس پر لکھ کر چھپوائے گئے ۔‘‘ (ذکر حبیب از مفتی صادق صفحہ 372,373) مزید ایک مقام پر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ ’’ اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے ۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تصویریں بناتے تھے ۔اور بنی اسرائیل کے پاس مدت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی بھی تصویر تھی ۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 195مندرجہ قادیانی خزائن جلد 21صفحہ366)
قادیانی دوستو! کیا تم میں سے کوئی شخص مرزاقادیانی کی مندرجہ بالا تحریر میں بیان کی گئی باتوں کا ثبوت پیش کر سکتا ہے یا پھر کرشن قادیانی نے یہاں پر بھی اپنی فطرت کے مطابق افتراء الی القرآن کا مظاہرہ کیا ہے ؟ :۔
|