منگل، 22 جون، 2010
پیر، 14 جون، 2010
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
جناب غلام مصطفی ظہیر امن پوری
ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقد اخبر تعالیٰ فی کتابہ ورسولہ فی السنۃ المتواترۃ عنہ ” انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک ، دجال ضال مضل “ ” یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ( قرآن ) اور اس کے رسول نے سنت ( حدیث ) جو آپ سے متواتراً منقول ہے ۔ میں خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مقام ( نبوت ) کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ “ ( تفسیر ابن کثیر : 188/5 تحت آیت سورۃ الاحزاب : 40 )
1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون ” بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءعلیہم السلام کرتے تھے ، جب کوئی نبی فوت ہوتا ، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ( جانشین ) ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے ، بکثرت ہوںگے ۔ “ ( صحیح بخاری ، 3456 ، صحیح مسلم : 1842 )
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین ” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 )
3 سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانا موضع اللبنۃ ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام ” میں اس اینٹ کی جگہ ہوں ، پس میں آیا ، میں نے انبیاءعلیہم السلام کی آمد کے سلسلے کو ختم کر دیا ۔ “ ( صحیح مسلم : 2287 )
ایک روایت میں ہے : فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء ” اس اینٹ کی جگہ میں فٹ ہو گیا ہوں ، انبیاءکی آمد مجھ پر ختم اور منقطع ہو گئی ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894 ، وسندہ صحیح کالشمس وضوحا )
4 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فضلت عی الانبیاءبست ، اعطیت جوامع الکلم ، ونصرت بالرعب ، واحلت لی المغانم ، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون ” مجھے چھ چیزوں میں انبیاءعلیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات عطا کےے گئے ہیں ، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے ۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے ۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ “ ( صحیح مسلم : 533 )
5 سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انا محمد ، وانا احمد ، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی ، وانا العاقب ، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی ” میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو محو کیا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا ۔ میں عاقب ہوں ، عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ “ ( صحیح بخاری : 3532 ، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی ، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
6 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اوانا خاتم النبیین لانبی بعدی ” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( ابوداود : 4252 ، ترمذی ، 2219 ، ابن ماجہ : 3952 ، مستدرک حاکم ، 450/4 ، وسندہ صحیح واصلہ فی مسلم : 192 ، 2889 دارالسلام )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
7 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے ، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ۔ “ ( مسند الامام احمد : ج 3 ص267 ح13860 ، ترمذی : 2272 ، فضائل الطبرانی : ص 338 ، 339 ، حاکم : 391/4 ، ابن ابی شیبہ : 531/11 وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ یہ حدیث تنصیص و تصریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ۔
8 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم ” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی امت نہیں ۔ “ ( المعجم الکبیر للطبرانی : 115/8 ح 7535 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1095 وسندہ صحیح )
9 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا : ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ ، وانا آخر الانبیاء ، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم ، وان یخرج بعدی ، فکل امری حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم ، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق ، فیعیث یمینا ، ویمیث شمالا ، فیا عباداللہ ، اثبتوا ، فانہ یبدا فیقول : انا بنی ولا نبی بعدی ، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا ، وانہ اعور ، وان ربکم لیس باعور ، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن ، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ.... ” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے ، میں آخری نبی ہوں ، اور تم آخری امت ہو ، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے ، اگر وہ میری زندگی میں آجائے ، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں ، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے ، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ، چار سو فساد برپا کرے گا ، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداءکرے گا کہ میں نبی ہوں ، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے ، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا ، جسے ہر مومن پڑھ لے گا ، آپ میں سے جو بھی اسے ملے ، اس کے منہ پر تھوک دے ۔ “ ( السنۃ لابن ابی عاصم : 4 وسندہ حسن ، عمرو بن عبداللہ الحضرمی وثقہ ابن حبان والعجیلی )
10 سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم ، وبشارۃ عیسی بی ، والرویا التی رات امی وکذلک امھات النبیین یرین ، انھا رات حین وضعتنی انہ خرج منھا نور اضات منہ قصور الشام ” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا ، اور میں آپ کو اس کی تاویل و تعبیر بتاتا ہوں ، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں ، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا ، اور انبیاءکی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں ، میری ماں نے میرے ایام ولادت کے دوران دیکھا کہ ان سے ایک روشنی نکلی ، جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 127/4 ، تفسیر طبری : 556/1 ، 87/28 واللفظہ لہ ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1 ، 149 ، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2 ، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 252/18 ، مسند الشامیین للطبرانی : 1939 ، مستدرک حاکم : 418/2 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : 80/1 ، 389 ، 390 ، 13/2 ، وسندہ حسن اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانی آخر الانبیاء ، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )” میں آخری نبی ہوں ، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے ۔ “
11 سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب ، فی غزوۃ تبوک ، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی ” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میرے ساتھ آپ کی دینی نسبت ہو ، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی ، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ ( صحیح بخاری : 3706 ، صحیح مسلم : 2404 واللفظ لہ )
اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا : انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی ” آپ کی اور میری وہ نسبت ہے ، جو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 369/6 ، 437 ، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143 ، مسند اسحاق : 2139 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24 ، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12 ، 61 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : رواہ احمد والطبرانی ورجال احمد رجال الصحیح غیر فاطمۃ بنت علی وھی ثقۃ ( مجمع الزوائد : 109/9 )سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یبقی بعدی من النبوۃ شیءالا المبشرات قالوا : یا رسول اللہ ، وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحہ یراھا الرجل او تری لہ ” میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ کرام نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! مبشرات ( خوشخبریاں) کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب ، جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( زوائد مسند الامام احمد : 129/6 ، البزار ( کشف الاستار : 2118 ) وسندہ حسن )
سعید بن عبدالرحمن العجمی صدوق حسن الحدیث ہے ، المؤتلف للدارقطنی : 177/1 وسندہ حسن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لم یبق من النبوۃ الا المبشرات ، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ ” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب ۔ “ ( صحیح بخاری : 699 )
سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ : ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، میرے بعد کوئی نبوت نہیں ، سوائے مبشرات کے ، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( البزار ( کشف الاستار : 2121 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواہ الطبرانی والبزار ورجال الطبرانی ثقات ( مجمع الزوائد : 173/7 )شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا ، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے ، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو ، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے ۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )
سیدنا ابن عباسw کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایھا الناس ! وانہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرویا الصالحہ یراھا المسلم ، او تری لہ ” اے لوگو ! مبشراتِ نبوت میں سے صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں ، جو ایک مسلمان آدمی وہ خواب دیکھتا ہے ، یا اسے دکھائے جاتے ہیں ۔ “ ( صحیح مسلم : 479 )
* سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، مبشرات باقی ہیں ۔ “ ( مسند احمد : 381/6 ، مسند حمیدی : 348 ، ابن ماجہ : 3896 وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6047 ) نے ” صحیح “ کہا ہے ، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔
( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے ، کیا آپ میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرمایا کرتے تھے : انہ لا یبقی بعدی من النبوۃ الا الرویا الصالحۃ ” یقینا میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ( یعنی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ) البتہ نیک خواب باقی ہیں ۔ “ ( موطا امام مالک : 956/2 ، مسند احمد : 325/2 ، ابوداؤد : 5017 ، مستدرک حاکم : 390/4 ، وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6048 ) اور امام حاکم نے ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ، مبشرات یعنی مسلمان آدمی کے نیک خواب جو اجزائے نبوت میں سے ہیں ، باقی رہیں گے ۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب ” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ “ ( ترمذی : 3886 ، مسند الامام احمد : 154/4 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17 ، 298 ، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495 ، وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “ ، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی نہیں آئے گا ، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے ، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر ” آپ سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی تھے ، جن سے کلام کی جاتی تھی ، جبکہ وہ نبی نہیں تھے ، اگر میری امت سے کوئی ہوا ، تو عمر ہوں گے ۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )
ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں : لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون ، فان یکن فی امتی احد ، فانہ عمر ” پہلی امتوں میں ” محدث “ گزرے ہیں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( صحیح بخاری : 3689 ورواہ مسلم : 2398 وغیرہ من حدیث عائشہ )
سیدہ عائشہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : ما کان من نبی الا مرفی امتہ معلم او معلمان ، فان یکن فی امتی احد منھم فعمر بن الخطاب کوئی نبی ایسے نہیں گزرے ، جن کی امت میں ایک دو معلم نہ ہوئے ہوں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( السنۃ ابن ابی عاصم : 1298 وسندہ حسن ) اس کے راوی عبدالرحمن بن ابی الزناد موثق حسن الحدیث ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : وھو ثقۃ عند الجمہور وتکلم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ ” یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، بعض نے ان میں کلام کی ہے ، جو موجب قدح نہیں ۔ “ ( نتائج الافکار لابن حجر : 304 )یاد رہے کہ ” محدث “ ، ” مکلم “ اور ” معلم “ کا ایک ہی مطلب ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محدث و مکلم ار معلم اس امت میں ہوا ، تو عمر بن خطاب ہوں گے ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عمر نہ ہوئے تو کوئی بھی نہ ہو گا ۔ یعنی نبی تو درکنار محدث و مکلم اور ملہم بھی نہ ہوگا ۔
اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ( حسن الحدیث ) کہتے ہیں : سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری ، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا ” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 280/3 ، 281 ، طبقات ابن سعد ، 140/1 وسندہ حسن )
اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا : رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا ، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ، ولکن لانبی بعدہ ” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے ، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔ “ ( صحیح بخاری : 6194 ، ابن ماجہ : 1510 ، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638 ، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، اس لئے آپ کا بیٹا ابراھیم زندہ نہ رہا ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاءعلیہم السلام کے پاس جائیں گے ، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے ، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا ، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں ، وہ آخری نبی ہیں ۔ “ وہ آج موجود ہیں ، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو ، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے ، نہیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے : ” فان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “ ” یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بڑی پیاری مثال دے کر بات سمجھائی ہے کہ جس طرح مہر توڑے بغیر سامان کا حصول ناممکن ہے ، اسی طرح کام کے لئے مہر والی ہستی کے پاس جانا ہوگا ۔ جو آخری نبی ہیں ۔ لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے : یا محمد ، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء ” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 7412 ، صحیح مسلم : 194 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا ، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے : ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی ” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے ، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے ۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی : 480/6 وسندہ حسن )نیز فرمایا : لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کتابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ ” قیامت قائم نہیں ہو گی ، جب تک ( نامور ) تیس کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے ، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے ۔ “ ( ابوداود : 4334 وسندہ حسن )
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر ، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم ” ( اے یہودیو ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے ، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو ۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج 6 ص 25 ح 24484 وسندہ حسن )
سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال ” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی ، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے ۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا ۔ “ ( مسند الامام احمد : 16/5 ، طبرانی : 6796 ، 7798 ، 6799 ، مستدرک حاکم : 329/1 ، 330وسندہ حسن ) س حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان ( 2856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ اس حدیث کو ابوداود ( 1184 ) نسائی ( 1484 ) اور ترمذی ( 562 ) نے مختصرا اسی سند سے روایت کیا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو ” حسن صحیح “ قرار دیا ہے ۔ اس کا راوی ثعلبہ بن عباد ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، امام ترمذی اور امام حاکم نے اس کی حدیث کی ” تصحیح “ کر کے اس کی توثیق کی ہے ، لہٰذا ان کو ” مجہول “ کہنے والوں کا قول مردود ہے ۔ فافھم
ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقد اخبر تعالیٰ فی کتابہ ورسولہ فی السنۃ المتواترۃ عنہ ” انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک ، دجال ضال مضل “ ” یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ( قرآن ) اور اس کے رسول نے سنت ( حدیث ) جو آپ سے متواتراً منقول ہے ۔ میں خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مقام ( نبوت ) کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ “ ( تفسیر ابن کثیر : 188/5 تحت آیت سورۃ الاحزاب : 40 )
1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون ” بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءعلیہم السلام کرتے تھے ، جب کوئی نبی فوت ہوتا ، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ( جانشین ) ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے ، بکثرت ہوںگے ۔ “ ( صحیح بخاری ، 3456 ، صحیح مسلم : 1842 )
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین ” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 )
3 سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانا موضع اللبنۃ ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام ” میں اس اینٹ کی جگہ ہوں ، پس میں آیا ، میں نے انبیاءعلیہم السلام کی آمد کے سلسلے کو ختم کر دیا ۔ “ ( صحیح مسلم : 2287 )
ایک روایت میں ہے : فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء ” اس اینٹ کی جگہ میں فٹ ہو گیا ہوں ، انبیاءکی آمد مجھ پر ختم اور منقطع ہو گئی ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894 ، وسندہ صحیح کالشمس وضوحا )
4 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فضلت عی الانبیاءبست ، اعطیت جوامع الکلم ، ونصرت بالرعب ، واحلت لی المغانم ، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون ” مجھے چھ چیزوں میں انبیاءعلیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات عطا کےے گئے ہیں ، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے ۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے ۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ “ ( صحیح مسلم : 533 )
5 سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انا محمد ، وانا احمد ، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی ، وانا العاقب ، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی ” میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو محو کیا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا ۔ میں عاقب ہوں ، عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ “ ( صحیح بخاری : 3532 ، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی ، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
6 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اوانا خاتم النبیین لانبی بعدی ” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( ابوداود : 4252 ، ترمذی ، 2219 ، ابن ماجہ : 3952 ، مستدرک حاکم ، 450/4 ، وسندہ صحیح واصلہ فی مسلم : 192 ، 2889 دارالسلام )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
7 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے ، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ۔ “ ( مسند الامام احمد : ج 3 ص267 ح13860 ، ترمذی : 2272 ، فضائل الطبرانی : ص 338 ، 339 ، حاکم : 391/4 ، ابن ابی شیبہ : 531/11 وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ یہ حدیث تنصیص و تصریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ۔
8 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم ” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی امت نہیں ۔ “ ( المعجم الکبیر للطبرانی : 115/8 ح 7535 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1095 وسندہ صحیح )
9 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا : ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ ، وانا آخر الانبیاء ، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم ، وان یخرج بعدی ، فکل امری حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم ، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق ، فیعیث یمینا ، ویمیث شمالا ، فیا عباداللہ ، اثبتوا ، فانہ یبدا فیقول : انا بنی ولا نبی بعدی ، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا ، وانہ اعور ، وان ربکم لیس باعور ، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن ، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ.... ” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے ، میں آخری نبی ہوں ، اور تم آخری امت ہو ، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے ، اگر وہ میری زندگی میں آجائے ، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں ، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے ، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ، چار سو فساد برپا کرے گا ، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداءکرے گا کہ میں نبی ہوں ، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے ، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا ، جسے ہر مومن پڑھ لے گا ، آپ میں سے جو بھی اسے ملے ، اس کے منہ پر تھوک دے ۔ “ ( السنۃ لابن ابی عاصم : 4 وسندہ حسن ، عمرو بن عبداللہ الحضرمی وثقہ ابن حبان والعجیلی )
10 سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم ، وبشارۃ عیسی بی ، والرویا التی رات امی وکذلک امھات النبیین یرین ، انھا رات حین وضعتنی انہ خرج منھا نور اضات منہ قصور الشام ” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا ، اور میں آپ کو اس کی تاویل و تعبیر بتاتا ہوں ، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں ، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا ، اور انبیاءکی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں ، میری ماں نے میرے ایام ولادت کے دوران دیکھا کہ ان سے ایک روشنی نکلی ، جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 127/4 ، تفسیر طبری : 556/1 ، 87/28 واللفظہ لہ ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1 ، 149 ، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2 ، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 252/18 ، مسند الشامیین للطبرانی : 1939 ، مستدرک حاکم : 418/2 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : 80/1 ، 389 ، 390 ، 13/2 ، وسندہ حسن اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانی آخر الانبیاء ، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )” میں آخری نبی ہوں ، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے ۔ “
11 سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب ، فی غزوۃ تبوک ، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی ” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میرے ساتھ آپ کی دینی نسبت ہو ، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی ، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ ( صحیح بخاری : 3706 ، صحیح مسلم : 2404 واللفظ لہ )
اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا : انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی ” آپ کی اور میری وہ نسبت ہے ، جو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 369/6 ، 437 ، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143 ، مسند اسحاق : 2139 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24 ، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12 ، 61 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : رواہ احمد والطبرانی ورجال احمد رجال الصحیح غیر فاطمۃ بنت علی وھی ثقۃ ( مجمع الزوائد : 109/9 )سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یبقی بعدی من النبوۃ شیءالا المبشرات قالوا : یا رسول اللہ ، وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحہ یراھا الرجل او تری لہ ” میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ کرام نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! مبشرات ( خوشخبریاں) کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب ، جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( زوائد مسند الامام احمد : 129/6 ، البزار ( کشف الاستار : 2118 ) وسندہ حسن )
سعید بن عبدالرحمن العجمی صدوق حسن الحدیث ہے ، المؤتلف للدارقطنی : 177/1 وسندہ حسن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لم یبق من النبوۃ الا المبشرات ، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ ” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب ۔ “ ( صحیح بخاری : 699 )
سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ : ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، میرے بعد کوئی نبوت نہیں ، سوائے مبشرات کے ، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( البزار ( کشف الاستار : 2121 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواہ الطبرانی والبزار ورجال الطبرانی ثقات ( مجمع الزوائد : 173/7 )شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا ، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے ، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو ، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے ۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )
سیدنا ابن عباسw کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایھا الناس ! وانہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرویا الصالحہ یراھا المسلم ، او تری لہ ” اے لوگو ! مبشراتِ نبوت میں سے صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں ، جو ایک مسلمان آدمی وہ خواب دیکھتا ہے ، یا اسے دکھائے جاتے ہیں ۔ “ ( صحیح مسلم : 479 )
* سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، مبشرات باقی ہیں ۔ “ ( مسند احمد : 381/6 ، مسند حمیدی : 348 ، ابن ماجہ : 3896 وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6047 ) نے ” صحیح “ کہا ہے ، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔
( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے ، کیا آپ میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرمایا کرتے تھے : انہ لا یبقی بعدی من النبوۃ الا الرویا الصالحۃ ” یقینا میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ( یعنی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ) البتہ نیک خواب باقی ہیں ۔ “ ( موطا امام مالک : 956/2 ، مسند احمد : 325/2 ، ابوداؤد : 5017 ، مستدرک حاکم : 390/4 ، وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6048 ) اور امام حاکم نے ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ، مبشرات یعنی مسلمان آدمی کے نیک خواب جو اجزائے نبوت میں سے ہیں ، باقی رہیں گے ۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب ” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ “ ( ترمذی : 3886 ، مسند الامام احمد : 154/4 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17 ، 298 ، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495 ، وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “ ، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی نہیں آئے گا ، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے ، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر ” آپ سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی تھے ، جن سے کلام کی جاتی تھی ، جبکہ وہ نبی نہیں تھے ، اگر میری امت سے کوئی ہوا ، تو عمر ہوں گے ۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )
ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں : لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون ، فان یکن فی امتی احد ، فانہ عمر ” پہلی امتوں میں ” محدث “ گزرے ہیں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( صحیح بخاری : 3689 ورواہ مسلم : 2398 وغیرہ من حدیث عائشہ )
سیدہ عائشہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : ما کان من نبی الا مرفی امتہ معلم او معلمان ، فان یکن فی امتی احد منھم فعمر بن الخطاب کوئی نبی ایسے نہیں گزرے ، جن کی امت میں ایک دو معلم نہ ہوئے ہوں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( السنۃ ابن ابی عاصم : 1298 وسندہ حسن ) اس کے راوی عبدالرحمن بن ابی الزناد موثق حسن الحدیث ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : وھو ثقۃ عند الجمہور وتکلم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ ” یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، بعض نے ان میں کلام کی ہے ، جو موجب قدح نہیں ۔ “ ( نتائج الافکار لابن حجر : 304 )یاد رہے کہ ” محدث “ ، ” مکلم “ اور ” معلم “ کا ایک ہی مطلب ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محدث و مکلم ار معلم اس امت میں ہوا ، تو عمر بن خطاب ہوں گے ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عمر نہ ہوئے تو کوئی بھی نہ ہو گا ۔ یعنی نبی تو درکنار محدث و مکلم اور ملہم بھی نہ ہوگا ۔
اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ( حسن الحدیث ) کہتے ہیں : سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری ، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا ” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 280/3 ، 281 ، طبقات ابن سعد ، 140/1 وسندہ حسن )
اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا : رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا ، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ، ولکن لانبی بعدہ ” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے ، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔ “ ( صحیح بخاری : 6194 ، ابن ماجہ : 1510 ، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638 ، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، اس لئے آپ کا بیٹا ابراھیم زندہ نہ رہا ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاءعلیہم السلام کے پاس جائیں گے ، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے ، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا ، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں ، وہ آخری نبی ہیں ۔ “ وہ آج موجود ہیں ، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو ، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے ، نہیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے : ” فان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “ ” یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بڑی پیاری مثال دے کر بات سمجھائی ہے کہ جس طرح مہر توڑے بغیر سامان کا حصول ناممکن ہے ، اسی طرح کام کے لئے مہر والی ہستی کے پاس جانا ہوگا ۔ جو آخری نبی ہیں ۔ لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے : یا محمد ، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء ” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 7412 ، صحیح مسلم : 194 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا ، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے : ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی ” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے ، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے ۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی : 480/6 وسندہ حسن )نیز فرمایا : لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کتابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ ” قیامت قائم نہیں ہو گی ، جب تک ( نامور ) تیس کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے ، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے ۔ “ ( ابوداود : 4334 وسندہ حسن )
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر ، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم ” ( اے یہودیو ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے ، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو ۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج 6 ص 25 ح 24484 وسندہ حسن )
سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال ” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی ، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے ۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا ۔ “ ( مسند الامام احمد : 16/5 ، طبرانی : 6796 ، 7798 ، 6799 ، مستدرک حاکم : 329/1 ، 330وسندہ حسن ) س حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان ( 2856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ اس حدیث کو ابوداود ( 1184 ) نسائی ( 1484 ) اور ترمذی ( 562 ) نے مختصرا اسی سند سے روایت کیا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو ” حسن صحیح “ قرار دیا ہے ۔ اس کا راوی ثعلبہ بن عباد ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، امام ترمذی اور امام حاکم نے اس کی حدیث کی ” تصحیح “ کر کے اس کی توثیق کی ہے ، لہٰذا ان کو ” مجہول “ کہنے والوں کا قول مردود ہے ۔ فافھم
استحکامِ پاکستان اور قادیانی کردار
مولانا محمد سلیم چنیوٹی
ختم نبوت
استحکامِ پاکستان اور قادیانی کردار
زمانہ طالب علمی میں جب ہم قادیانیوں کے علاقے چناب نگر اس وقت ( ربوہ ) جایا کرتے تھے تو ایک دفعہ ان کے ” بہشتی مقبرہ “ قبرستان جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ اس مقبرے میں بڑے نامی گرامی قادیانی آنجہانی دفن ہیں ۔ مرزا بشیرالدین محمود جو سلسلہ احمدیہ میں دوسرے خلیفے کے طور پر مشہور ہے ، وہ بھی اسی جگہ دفن ہے ۔ پھر مرزا ناصر احمد جسے اس سلسلے ( احمدیہ ) کا خلیفہ ثالث کہا جاتا ہے ۔ اسی کے ” دورِ خلیفی “ میں مرزائیوں کو ایک طویل مباحثے کے نتیجے میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے 7 ستمبر 1974ءکو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا ۔
مرزائی اکابرین کبھی بھی پاکستان اور اس کے استحکام کے لیے دعاگو نہیں رہے ۔ بلکہ انہوں نے پاکستان توڑنے کے لیے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ لیں کہ انہوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے آج تک تسلیم ہی نہیں کیا ۔ پاکستان کی سالمیت مرزائیوں کے نزدیک کیسی رہی اس کے متعلق ان کے مقبرہ ربوہ میں مدفون مرزا بشیر الدین محمود کی قبر پر نصب کتبہ دیکھ لیا جائے تو آپ اس پر یہ تحریر کندہ دیکھیں گے ۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکا ہے کہ ” ایک دن پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جانا ہے اور ایسا ہو جائے تو میرا تابوت اس مقبرے سے اکھاڑ کر قادیان میں دفن کر دیا جائے ۔ “
دوسرا واقعہ جو استحکامِ پاکستان کے خلاف مرزائیوں کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں جب مرزائی سائنس دان عبدالسلام قادیانی کو اس کی بعض منفی سرگرمیوں کی وجہ سے بھٹو صاحب نے سائنسی ریسرچ کے ادارے سے اخراج کا نوٹس بھجوایا تھا تو اس نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دی تھیں اور اسرائیل و امریکہ کے پاس اپنے ادارے کے راز برابر بھجواتا رہا ۔ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو اس وقت بھٹو کی حکومت تھی ۔ اس وقت عبدالسلام قادیانی نے اپنی نفرت کا اس طرح اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے ” میں اس سرزمین پر تھوکتا ہوں “ پھر خود ہی جلاوطن ہو کر ملک سے باہر چلا گیا ۔ بدقسمتی سمجھئے ایسے لوگوں کو ائمہ کفر کی آشیر باد سے پھر وطن پاکستان کی دھرتی پر آنا پڑا ۔ ایک سازش کے تحت جب اسی سائنس دان کو نوبل پرائز سے نوازا گیا تو پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق مرحوم نے بھی پاکستان کا ” نشانِ پاکستان “ اس قادیانی کے سینے پر سجا دیا ۔ اتفاق دیکھئے یہ وہی دھرتی تھی جس پر اس سائنس دان نے تھوک کر جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور اسی دھرتی پر اس کی قوم کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا ، پھر اسی دھرتی پر اس کے سینے کو ” نشانِ پاکستان “ جیسے پاک تمغے سے نوازا گیا ۔ فیاللعجب ۔
تیسرا واقعہ قارئین نوٹ فرمالیں کہ بانی پاکستان جناب محمد علی جناح کی وفات پر پورا عالم اسلام اپنے افسوس و غم کا اظہار کر رہا تھا ۔ پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی تھا ۔ اس وزیر خارجہ نے بانی پاکستان کے جنازے میں شرکت نہ کی تھی ۔ 1979 میں 28 دسمبر کو چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ کانفرنس ہوئی تھی ۔ اس وقت ربوہ میں بھی قادیانی حضرات اپنا تین روزہ سالانہ جلسہ منعقد کر رہے تھے ۔ ہم چند طالب علم ساتھی مرزائیوں کے شہر ربوہ چلے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ بڑے اشتہاروں پر اس وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور نیچے اقرار تھا کہ ” ہاں میں نے قائداعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی ۔ اس سے آپ سمجھیں کہ ایک کافر نے مسلمان کا جنازہ یا کافر کا جنازہ ایک مسلمان نے نہیں پڑھا ۔
گویا مرزائی حضرات اپنے زعم میں خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں اور ان کے نزدیک باقی سب کافر ہیں ۔ دوسرے یہ کہ باقی تو مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابل دوسری قوم قرار دیتے ہیں ۔
مرزائی حضرات اپنے مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد اور تحریرات کے تحت امت مسلمہ کے نزدیک متفقہ طور پر غیرمسلم ہیں ۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات ” مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ “ میں ان کا داخلہ قانونی اور شرعی طور پر بند ہے ۔ فراڈ بازی اور ملی بھگت سے اگر کوئی مرزائی وہاں چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نوازے کہ وہ مرزا غلام احمد کی خودساختہ نبوت کا ذبہ سے انکار کر دے تا کہ عنداللہ اس کا عمل ضائع نہ ہو جائے ۔
26 مئی 1908ءکو مرزا غلام احمد قادیانی کی عبرت ناک موت واقع ہوئی اور 26 مئی 2008ءکو پورا ایک سو سال بیت گیا ۔ یہ موت مرزا کی اپنی ہی دعا کی قبولیت کے نتیجے میں ہوئی تھی ۔ جب ایک اشتہار کے ذریعے مرزا نے شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ صاحب امرتسری علیہ الرحمہ کو مطلع کیا تھا اور لکھا کہ آپ مجھے ہر ” مجلہ اہل حدیث “ کے پرچے میں غلط قرار دیتے ہیں ۔ میری تکذیب کرتے ہیں مجھے رسوا کر کے میرے چاہنے والوں کے دل پھیرتے ہیں ۔ اگر میں ایسا ہی کذاب ، مفتری ، دجال ہوں تو اے اللہ ، سچے کی زندگی میں جھوٹے کو موذی مرض ہیضہ ، طاعون وغیرہ سے ہلاک کر دے ۔ ( آمین )
اس دعا کے ایک سال ایک ماہ اور کچھ دن بعد مرزا غلام احمد قادیانی لاہور کے برانڈرتھ روڈ پر احمدیہ بلڈنگ میں بعارضہ ہیضہ آنجہانی ہوا تھا ۔ سچا ( مولانا ثناءاللہ صاحب امرتسری رحمہ اللہ ) جھوٹے ( مرزا غلام احمد قادیانی ) کی موت کے بعد 40 سال زندہ رہے اور مارچ 1948ءکو سرگودھا میں رحلت فرما کر رحمتِ باری کی آغوش میں چلے گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اللھم ادخلہ الجنۃ الفردوس ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے زیر اہتمام 26 مئی 2008ءکو چنیوٹ کی سرزمین پر پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ نے اپنے اکابر کے نقشِ قدم پر چل کر قادیانیوں کی سرگرمیوں سے آگاہی اور اکابر اہل حدیث کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس منعقد کی ۔ رات کو ایک ختم نبوت کانفرنس منعقد کی گئی اس میں اہل حدیث کے جید و ممتاز علمائے کرام نے اپنے مفید و مؤثر خطابات سے اہل علاقہ کے دلوں کو منور فرمایا ۔
مارچ 1987ءمیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس اپنی مثال آپ تھی ۔ اس کانفرنس کے روح رواح حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ تھے ۔ علامہ حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ ، محمد خان نجیب شہید رحمہ اللہ ، حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمہ اللہ ، حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ رحمہ اللہ اور رانا محمد شفیق خاں پسروری و دیگر بے شمار احباب نے تقاریر فرمائیں ۔ علامہ شہید رحمہ اللہ کے خطاب کے دوران موسلا دھار بارش نے کھل کر رحمتوں کی بوچھاڑ کر دی تھی اس دوران لوگوں کا جذبہ مثالی تھا اور کوئی بھی بندہ مجمع سے اٹھا نہ تھا ۔ اس کانفرنس کے انتظامات میں قاضی محمد اسلم سیف مرحوم ، مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی ، مولانا بہادر علی سیف اور چنیوٹ کی تمام قیادت اور ورکر دل و جان سے شریک تھے ۔ راقم کو بھی اس کانفرنس میں خدمت کا موقع ملا تھا ۔ اللہ تعالیٰ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے نوازے ۔ آمین
یاد رہے کہ حضرت مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ نے اس کانفرنس میں ایک خاتم النبیین یونیورسٹی بنانے کی تجویز و قرارداد پیش کی تھی ۔ اور قادیانی سرگرمیوں ، ان کے پاکستان دشمنی پہ مبنی کارناموں کو روکنے کے لیے ربوہ میں کانفرنس کے انعقاد کا بھی اعلان کیا تھا ۔ برا ہو تخریبی عناصر کا کہ جنہوں نے اس کانفرنس کے چند دنوں بعد متاعِ دین و دانش کو ہم سے لوٹ لیا اور 23 مارچ 1987ءکے حادثہ فاجعہ میں لاہور میں بم دھماکے کے نتیجے میں حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر ، حضرت مولانا عبدالخالق قدوسی ، مولانا حبیب الرحمن یزدانی ، محمد خان نجیب ، شیخ احسان الحق اور دیگر احباب رتبہ شہادت سے سرفراز ہو گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللھم ارفع درجاتہم ۔
بات ہو رہی تھی مرزائیوں کے پاکستان مخالف عزائم کی ۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ایک کالج سے چند طلباءکو قادیانی لٹریچر تقسیم کرتے ہوئے اور اپنے قادیانی مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے کالج سے خارج کر دیا گیا تھا ۔ اب ملکی استحکام اور سالمیت کے خلاف جس کی طرف ایٹمی سائنس دان ، محسنِ پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اشارہ فرمایا ہے اور موجودہ صدر پرویز مشرف کو امریکہ کی آشیرباد سے پاکستان توڑنے کے لیے ایوانِ صدر میں براجمان رکھ کر ان کے ہاتھوں پاکستان کے قبائلیوں کو تہہ تیغ کرنے کے جس طرح منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔ کیا یہ مرزائیوں کی ہم نوائی تو نہیں خدا نخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو بقول عبدالستار ایدھی ایک خونی انقلاب اور وسیع پیمانے پر فساد و خانہ جنگی ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ۔
ہم اکابرین ملک و ملت سے گزارش کریں گے کہ وہ پاکستان کے استحکام ، سالمیت ، اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں اور اسلام مخالف نظریات کے آگے بند باندھنے کی ملی طور پر کوششیں کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔
ختم نبوت
استحکامِ پاکستان اور قادیانی کردار
زمانہ طالب علمی میں جب ہم قادیانیوں کے علاقے چناب نگر اس وقت ( ربوہ ) جایا کرتے تھے تو ایک دفعہ ان کے ” بہشتی مقبرہ “ قبرستان جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ اس مقبرے میں بڑے نامی گرامی قادیانی آنجہانی دفن ہیں ۔ مرزا بشیرالدین محمود جو سلسلہ احمدیہ میں دوسرے خلیفے کے طور پر مشہور ہے ، وہ بھی اسی جگہ دفن ہے ۔ پھر مرزا ناصر احمد جسے اس سلسلے ( احمدیہ ) کا خلیفہ ثالث کہا جاتا ہے ۔ اسی کے ” دورِ خلیفی “ میں مرزائیوں کو ایک طویل مباحثے کے نتیجے میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے 7 ستمبر 1974ءکو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا ۔
مرزائی اکابرین کبھی بھی پاکستان اور اس کے استحکام کے لیے دعاگو نہیں رہے ۔ بلکہ انہوں نے پاکستان توڑنے کے لیے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ لیں کہ انہوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے آج تک تسلیم ہی نہیں کیا ۔ پاکستان کی سالمیت مرزائیوں کے نزدیک کیسی رہی اس کے متعلق ان کے مقبرہ ربوہ میں مدفون مرزا بشیر الدین محمود کی قبر پر نصب کتبہ دیکھ لیا جائے تو آپ اس پر یہ تحریر کندہ دیکھیں گے ۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکا ہے کہ ” ایک دن پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جانا ہے اور ایسا ہو جائے تو میرا تابوت اس مقبرے سے اکھاڑ کر قادیان میں دفن کر دیا جائے ۔ “
دوسرا واقعہ جو استحکامِ پاکستان کے خلاف مرزائیوں کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں جب مرزائی سائنس دان عبدالسلام قادیانی کو اس کی بعض منفی سرگرمیوں کی وجہ سے بھٹو صاحب نے سائنسی ریسرچ کے ادارے سے اخراج کا نوٹس بھجوایا تھا تو اس نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دی تھیں اور اسرائیل و امریکہ کے پاس اپنے ادارے کے راز برابر بھجواتا رہا ۔ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو اس وقت بھٹو کی حکومت تھی ۔ اس وقت عبدالسلام قادیانی نے اپنی نفرت کا اس طرح اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے ” میں اس سرزمین پر تھوکتا ہوں “ پھر خود ہی جلاوطن ہو کر ملک سے باہر چلا گیا ۔ بدقسمتی سمجھئے ایسے لوگوں کو ائمہ کفر کی آشیر باد سے پھر وطن پاکستان کی دھرتی پر آنا پڑا ۔ ایک سازش کے تحت جب اسی سائنس دان کو نوبل پرائز سے نوازا گیا تو پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق مرحوم نے بھی پاکستان کا ” نشانِ پاکستان “ اس قادیانی کے سینے پر سجا دیا ۔ اتفاق دیکھئے یہ وہی دھرتی تھی جس پر اس سائنس دان نے تھوک کر جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور اسی دھرتی پر اس کی قوم کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا ، پھر اسی دھرتی پر اس کے سینے کو ” نشانِ پاکستان “ جیسے پاک تمغے سے نوازا گیا ۔ فیاللعجب ۔
تیسرا واقعہ قارئین نوٹ فرمالیں کہ بانی پاکستان جناب محمد علی جناح کی وفات پر پورا عالم اسلام اپنے افسوس و غم کا اظہار کر رہا تھا ۔ پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی تھا ۔ اس وزیر خارجہ نے بانی پاکستان کے جنازے میں شرکت نہ کی تھی ۔ 1979 میں 28 دسمبر کو چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ کانفرنس ہوئی تھی ۔ اس وقت ربوہ میں بھی قادیانی حضرات اپنا تین روزہ سالانہ جلسہ منعقد کر رہے تھے ۔ ہم چند طالب علم ساتھی مرزائیوں کے شہر ربوہ چلے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ بڑے اشتہاروں پر اس وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور نیچے اقرار تھا کہ ” ہاں میں نے قائداعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی ۔ اس سے آپ سمجھیں کہ ایک کافر نے مسلمان کا جنازہ یا کافر کا جنازہ ایک مسلمان نے نہیں پڑھا ۔
گویا مرزائی حضرات اپنے زعم میں خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں اور ان کے نزدیک باقی سب کافر ہیں ۔ دوسرے یہ کہ باقی تو مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابل دوسری قوم قرار دیتے ہیں ۔
مرزائی حضرات اپنے مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد اور تحریرات کے تحت امت مسلمہ کے نزدیک متفقہ طور پر غیرمسلم ہیں ۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات ” مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ “ میں ان کا داخلہ قانونی اور شرعی طور پر بند ہے ۔ فراڈ بازی اور ملی بھگت سے اگر کوئی مرزائی وہاں چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نوازے کہ وہ مرزا غلام احمد کی خودساختہ نبوت کا ذبہ سے انکار کر دے تا کہ عنداللہ اس کا عمل ضائع نہ ہو جائے ۔
26 مئی 1908ءکو مرزا غلام احمد قادیانی کی عبرت ناک موت واقع ہوئی اور 26 مئی 2008ءکو پورا ایک سو سال بیت گیا ۔ یہ موت مرزا کی اپنی ہی دعا کی قبولیت کے نتیجے میں ہوئی تھی ۔ جب ایک اشتہار کے ذریعے مرزا نے شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ صاحب امرتسری علیہ الرحمہ کو مطلع کیا تھا اور لکھا کہ آپ مجھے ہر ” مجلہ اہل حدیث “ کے پرچے میں غلط قرار دیتے ہیں ۔ میری تکذیب کرتے ہیں مجھے رسوا کر کے میرے چاہنے والوں کے دل پھیرتے ہیں ۔ اگر میں ایسا ہی کذاب ، مفتری ، دجال ہوں تو اے اللہ ، سچے کی زندگی میں جھوٹے کو موذی مرض ہیضہ ، طاعون وغیرہ سے ہلاک کر دے ۔ ( آمین )
اس دعا کے ایک سال ایک ماہ اور کچھ دن بعد مرزا غلام احمد قادیانی لاہور کے برانڈرتھ روڈ پر احمدیہ بلڈنگ میں بعارضہ ہیضہ آنجہانی ہوا تھا ۔ سچا ( مولانا ثناءاللہ صاحب امرتسری رحمہ اللہ ) جھوٹے ( مرزا غلام احمد قادیانی ) کی موت کے بعد 40 سال زندہ رہے اور مارچ 1948ءکو سرگودھا میں رحلت فرما کر رحمتِ باری کی آغوش میں چلے گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اللھم ادخلہ الجنۃ الفردوس ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے زیر اہتمام 26 مئی 2008ءکو چنیوٹ کی سرزمین پر پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ نے اپنے اکابر کے نقشِ قدم پر چل کر قادیانیوں کی سرگرمیوں سے آگاہی اور اکابر اہل حدیث کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس منعقد کی ۔ رات کو ایک ختم نبوت کانفرنس منعقد کی گئی اس میں اہل حدیث کے جید و ممتاز علمائے کرام نے اپنے مفید و مؤثر خطابات سے اہل علاقہ کے دلوں کو منور فرمایا ۔
مارچ 1987ءمیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس اپنی مثال آپ تھی ۔ اس کانفرنس کے روح رواح حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ تھے ۔ علامہ حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ ، محمد خان نجیب شہید رحمہ اللہ ، حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمہ اللہ ، حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ رحمہ اللہ اور رانا محمد شفیق خاں پسروری و دیگر بے شمار احباب نے تقاریر فرمائیں ۔ علامہ شہید رحمہ اللہ کے خطاب کے دوران موسلا دھار بارش نے کھل کر رحمتوں کی بوچھاڑ کر دی تھی اس دوران لوگوں کا جذبہ مثالی تھا اور کوئی بھی بندہ مجمع سے اٹھا نہ تھا ۔ اس کانفرنس کے انتظامات میں قاضی محمد اسلم سیف مرحوم ، مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی ، مولانا بہادر علی سیف اور چنیوٹ کی تمام قیادت اور ورکر دل و جان سے شریک تھے ۔ راقم کو بھی اس کانفرنس میں خدمت کا موقع ملا تھا ۔ اللہ تعالیٰ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے نوازے ۔ آمین
یاد رہے کہ حضرت مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ نے اس کانفرنس میں ایک خاتم النبیین یونیورسٹی بنانے کی تجویز و قرارداد پیش کی تھی ۔ اور قادیانی سرگرمیوں ، ان کے پاکستان دشمنی پہ مبنی کارناموں کو روکنے کے لیے ربوہ میں کانفرنس کے انعقاد کا بھی اعلان کیا تھا ۔ برا ہو تخریبی عناصر کا کہ جنہوں نے اس کانفرنس کے چند دنوں بعد متاعِ دین و دانش کو ہم سے لوٹ لیا اور 23 مارچ 1987ءکے حادثہ فاجعہ میں لاہور میں بم دھماکے کے نتیجے میں حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر ، حضرت مولانا عبدالخالق قدوسی ، مولانا حبیب الرحمن یزدانی ، محمد خان نجیب ، شیخ احسان الحق اور دیگر احباب رتبہ شہادت سے سرفراز ہو گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللھم ارفع درجاتہم ۔
بات ہو رہی تھی مرزائیوں کے پاکستان مخالف عزائم کی ۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ایک کالج سے چند طلباءکو قادیانی لٹریچر تقسیم کرتے ہوئے اور اپنے قادیانی مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے کالج سے خارج کر دیا گیا تھا ۔ اب ملکی استحکام اور سالمیت کے خلاف جس کی طرف ایٹمی سائنس دان ، محسنِ پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اشارہ فرمایا ہے اور موجودہ صدر پرویز مشرف کو امریکہ کی آشیرباد سے پاکستان توڑنے کے لیے ایوانِ صدر میں براجمان رکھ کر ان کے ہاتھوں پاکستان کے قبائلیوں کو تہہ تیغ کرنے کے جس طرح منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔ کیا یہ مرزائیوں کی ہم نوائی تو نہیں خدا نخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو بقول عبدالستار ایدھی ایک خونی انقلاب اور وسیع پیمانے پر فساد و خانہ جنگی ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ۔
ہم اکابرین ملک و ملت سے گزارش کریں گے کہ وہ پاکستان کے استحکام ، سالمیت ، اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں اور اسلام مخالف نظریات کے آگے بند باندھنے کی ملی طور پر کوششیں کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔
منگل، 25 مئی، 2010
امت مسلمہ مدد الہیٰ سے محروم کیوں؟
مولانا عبداللہ لطیف
دعوت و اصلاح
امت مسلمہ مدد الہیٰ سے محروم کیوں؟
قرآن پاک کی ایک سورت ہے ” حم السجدہ “ جو کہ چوبیسویں پارے میں ہے چند دن ہوئے اس سورہ مبارکہ کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہو تو جب اس سورہ کی آیت نمبر 30 جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” بے شک جن لوگوں نے کہہ دیا اللہ ہی ہمارا رب ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان لوگوں کے لئے فرشتے نازل ہوتے ہیں ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی غم، خوشخبری ہے ان کے لئے جنت کی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ “ پر پہنچا تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مشکل وقت میں فرشتوں کے ذریعے مدد بھیجنے کا جو وعدہ کیا ہے اس کا تاریخ اسلام سے جائزہ تو لوں کہ کس کس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی ہے۔
سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حالات زندگی پر نگاہ پڑی جب ان کو نمرود اور اس کے حواریوں نے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا تھا، جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر ابراہیم علیہ السلام سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ” اے ابراہیم علیہ السلام ! اگر آپ حکم دیں تو یہی الاؤ آپ کے دشمنوں پر پھینک دیا جائے۔ “ اسی طرح جب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ سے تنگ آ کر وادی طائف کی طرف عازم سفر ہوئے کہ شاید وہاں پر ہی کوئی شخص اسلام قبول کر لے تو اس وقت بھی طائف والوں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تب بھی جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر کہا اگر آپ اجازت دیں تو بستی والوں کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں۔ جنگ بدر میں بھی فرشتوں کا ایک ہزار کا لشکر کفار کی بیخ کنی کے لئے آیا تو احد میں بھی ایسا ہی ہوا اور آج کے دور میں بھی جب مجاہدین میدان جہاد سے واپس آتے ہیں تو مدد الٰہی کے عجیب عجیب مناظر بیان کرتے ہیں۔
لیکن اس سب کچھ کے باوجود انسان اس بات کا جائزہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر موجودہ دور کے مسلمانوں نے بھی تو اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ” اللہ ہمارا رب ہے “ تو پھر کیا سبب ہے کہ کبھی احمد آباد اور گجرات سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ مسلمانوں کی 2500 کے لگ بھگ مساجد کو شہید کر دیا گیا ہے اور بیس ہزار سے زائد لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا اور خواتین کے ساتھ ایسے انسانیت سوز مناظر واقعات سامنے آتے ہیں کہ حاملہ عورتوں کے پیٹوں میں برچھیاں مار کر تڑپتی ماؤں کے سامنے ان کے بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور بعد میں ان عورتوں کو بھی شہید کر دیا جاتا ہے تو کبھی افغانستان میں بارود کی بارش برسائی جاتی ہے تو کبھی کشمیر، بوسنیا، فلپائن، فلسطین اور عراق میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی جاتی ہے اور کبھی امریکی بدمعاش کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستانی مشرف کے ملک میں بھی باجوڑ میں مساجد و مدارس میں بمباری کر کے بچوں، اساتذہ اور غریب و بے کس عوام کو شہید کر کے فخر کیا جاتا ہے۔ تو کبھی کیوبا کے جزیروں پر قرآن پاک کے مقدس و مطہر اوراق کے ساتھ استنجا کرنے کی ناپاک جسارت کی جاتی ہے
تو کبھی پوری کائنات سے افضل و اعلیٰ شخصیت سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنائے جاتے ہیں تو کبھی کرسچین پوپ کی طرف سے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی ” شیطانی آیات “ نامی کتاب کے شیطان مصنف ملعون رشدی کو ” سر “ کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ ( خواہ یہ شیطان یورپین عورتوں پر بھی کیچڑ اچھالتا نظر آئے لیکن کفار کو اپنی عورتوں پر کیچڑ اچھالنے کی پرواہ کب ہے کیونکہ انہیں تو امہات المومنین اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والا کوئی خبیث ملنا چاہیے کیونکہ یہ ہر ایسے شخص کو سر آنکھوں پر بٹھانا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں ) لیکن اس سب کچھ کے باوجود فرشتوں کی مدد کیوں نہیں آتی اور یہ مسلمان خوف و غم میں کیوں مبتلا ہیں۔
مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او۔ آئی۔ سی ہی ایسے کٹھن حالات میں بھی کوئی بہتر کردار ادا کرنے کے لئے نظر کیوں نہیں آتی، تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا دعویٰ ” اللہ ہی ہمارا رب ہے “ وہ ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا کیونکہ جب صحابہ کرام نے یہ دعویٰ کیا تھا وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم پر اپنی جان نچھاور کرنا فخر سمجھتے تھے۔ قرون اولیٰ کے دور کی جھلک ان چند واقعات سے بالکل نظر آئے گی کہ حضرت ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ تھے جو انتہائی قد آور اور تنومند جوان تھے، ان کو نبی کریم علیہ السلام نے ذمہ داری سونپی کہ وہ مشرکین مکہ کے ہاں جو مسلمان قید ہیں ان کو رہا کروائیں تو ابومرثد رضی اللہ عنہ نے ان صحابہ کو روزانہ ایک ایک کر کے قید خانے سے رہائی دلوا کر دیوار کراس کروا دیتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کے ساتھ جس عورت کے ناجائز تعلقات تھے نے پہچان لیا اور بدکاری کی دعوت دی لیکن ابومرثد رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اسلام میں ان چیزوں کی اجازت نہیں۔ لہٰذا میں ایسا نہیں کر سکتا تب اس بدکار عورت نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر تم نے یہ گناہ نہ کیا تو میں شور مچا دوں گی تب بھی اس اللہ کے بندے نے انکار کر دیا۔ تو اس عورت نے شور مچا دیا کہ یہی تمہارا مجرم ہے جو قیدیوں کو رہا کرواتا ہے، حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں دوڑتا ہوا ایک پہاڑی ٹیلے کے نیچے گھس گیا تو اہل مکہ اس ٹیلے پر بیٹھ کر پیشاب کرتے جو میرے سر پر پڑتا رہا۔ اس بات سے ہمیں ان لوگوں کے کردار کو سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے پیشاب اور پاخانہ جیسی گندگی کو تو سر میں ڈلوا لیا لیکن زنا اور بدکاری جیسی گندگی کو قبول نہیں کیا۔
ویسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور شکلیں مسخ کر دی جائیں گی آسمان سے پتھروں کی بارش ہو گی تو صحابہ نے پوچھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس وقت لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں گے حج کرنے والے بھی ہوں گے، روزے دار اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بھی ہوں گے، لیکن اس دور میں شراب عام ہو گی، جوا کھیلنا شروع کر دیں گے، زنا اور بدکاری کریں گے اور گانا بجانا عام ہو گا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب ان پر آئے گا۔ “
گزشتہ واقعہ اور حدیث نبوی کو سامنے رکھ کر اگر موجودہ مسلمانوں کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ مسلمان ظلم و ستم کے شکنجے میں پھسنے کے باوجود بدکاری، بے حیائی، عریانی و فحاشی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کو چھوڑ کر موسیقی سے دل بہلاتے نظر آئیں گے اور گھر گھر میں انڈین فلموں کی فحاشی و عریانی ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب کی تبلیغ بھی کی جا رہی ہے۔ اور ہمیں تو آدھا ملک گنوا کر بھی سمجھ نہ آئی جب کہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ بنگال میں ڈبو دیا ہے اور اسی کے بیٹے راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں بلکہ پاکستانیوں کے گھروں میں اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر جیتی ہے۔ اور یہی عریانی و فحاشی ہی ان کا کلچر ہے جو مسلمانوں کو بے حمیت اور بے غیرت بناتا چلا جا رہا ہے۔ اور ہم اپنی عزتوں کو بچانے کے قابل بھی نہیں رہے
جبکہ دور نبوی میں ایک یہودی نے مسلمہ عورت کی عصمت دری کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مختصر کر کے سیدنا حضرت علی کی قیادت میں لشکر ترتیب دیا کہ اس مسلمان عورت کی عصمت کا انتقام لے کر آؤ تو شام سے پہلے پہلے سیدنا علی علیہ السلام نے اس یہودی کا سر قلم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا تو آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے بدلہ نہ لیا جاتا تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن ہم ہیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ ہمارے حکمرانوں نے تو شاید اسلام کی مخالفت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے چوری کی حد اسلام میں ہاتھ کاٹنا ہے۔ جبکہ ہمارے مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ میں ساری قوم کو ٹنڈا کر دوں؟ دوسرے لفظوں میں پوری قوم کو ہی چور کا لقب دینے پر تلے بیٹھے ہیں جبکہ اسکے برعکس ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ” کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ ضرور کاٹتا۔ “
ہماری حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ ہم قدم قدم پر کفار کی مشابہت کو اختیار کئے ہوئے ہیں ایسے لوگ جو اسلام کے بجائے کسی دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” من تشبہ بقوم فھو منھم “ ” جو کسی دوسری قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سے اٹھایا جائے گا۔ “ دعویٰ تو ہمارا بدر واحد والوں کا ہے لیکن عمل ہمارا ان کفار کے مشابہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہونے کے بجائے ہزاروں الہ بنائے بیٹھے ہیں کوئی گائے کا پجاری ہے تو کوئی بندر کا پجاری۔ جب ہم ایسے لوگوں کے طریقوں کو اپنائیں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے غضب ہو رہے تو پھر مدد ہم پر کیسے نازل ہو گی؟ دوسری طرف ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہم عدل و انصاف کی راہ اختیار کر رہے ہیں اور نہ ہی سودی کاروبار کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں جس کے بارے میں قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ سود لینے والا اور دینے والا مسلمان ہی نہیں بلکہ ایسے معاہدے کو تحریر میں لانے والا بھی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے۔
ایک طرف تو ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے اور دوسری طرف اسی وحدہ لا شریک کے ساتھ اعلان جنگ بھی کریں تو پھر کیسے فرشتوں کی مدد ہم تک پہنچ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کے نازل نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر کے کفار کی غلامی کو اختیار کرنا ہے۔ جب ہم میدان جہاد میں جانے کی تیاری نہیں کریں گے تو پھر اس طرح ہم پر ظلم ستم ہوتا رہے گا۔ درحقیقت ہم دعویٰ تو کرتے ہیں ” اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے “ لیکن ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مخالف ہیں پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب ہیں؟
دعوت و اصلاح
امت مسلمہ مدد الہیٰ سے محروم کیوں؟
قرآن پاک کی ایک سورت ہے ” حم السجدہ “ جو کہ چوبیسویں پارے میں ہے چند دن ہوئے اس سورہ مبارکہ کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہو تو جب اس سورہ کی آیت نمبر 30 جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” بے شک جن لوگوں نے کہہ دیا اللہ ہی ہمارا رب ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان لوگوں کے لئے فرشتے نازل ہوتے ہیں ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی غم، خوشخبری ہے ان کے لئے جنت کی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ “ پر پہنچا تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مشکل وقت میں فرشتوں کے ذریعے مدد بھیجنے کا جو وعدہ کیا ہے اس کا تاریخ اسلام سے جائزہ تو لوں کہ کس کس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی ہے۔
سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حالات زندگی پر نگاہ پڑی جب ان کو نمرود اور اس کے حواریوں نے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا تھا، جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر ابراہیم علیہ السلام سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ” اے ابراہیم علیہ السلام ! اگر آپ حکم دیں تو یہی الاؤ آپ کے دشمنوں پر پھینک دیا جائے۔ “ اسی طرح جب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ سے تنگ آ کر وادی طائف کی طرف عازم سفر ہوئے کہ شاید وہاں پر ہی کوئی شخص اسلام قبول کر لے تو اس وقت بھی طائف والوں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تب بھی جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر کہا اگر آپ اجازت دیں تو بستی والوں کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں۔ جنگ بدر میں بھی فرشتوں کا ایک ہزار کا لشکر کفار کی بیخ کنی کے لئے آیا تو احد میں بھی ایسا ہی ہوا اور آج کے دور میں بھی جب مجاہدین میدان جہاد سے واپس آتے ہیں تو مدد الٰہی کے عجیب عجیب مناظر بیان کرتے ہیں۔
لیکن اس سب کچھ کے باوجود انسان اس بات کا جائزہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر موجودہ دور کے مسلمانوں نے بھی تو اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ” اللہ ہمارا رب ہے “ تو پھر کیا سبب ہے کہ کبھی احمد آباد اور گجرات سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ مسلمانوں کی 2500 کے لگ بھگ مساجد کو شہید کر دیا گیا ہے اور بیس ہزار سے زائد لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا اور خواتین کے ساتھ ایسے انسانیت سوز مناظر واقعات سامنے آتے ہیں کہ حاملہ عورتوں کے پیٹوں میں برچھیاں مار کر تڑپتی ماؤں کے سامنے ان کے بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور بعد میں ان عورتوں کو بھی شہید کر دیا جاتا ہے تو کبھی افغانستان میں بارود کی بارش برسائی جاتی ہے تو کبھی کشمیر، بوسنیا، فلپائن، فلسطین اور عراق میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی جاتی ہے اور کبھی امریکی بدمعاش کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستانی مشرف کے ملک میں بھی باجوڑ میں مساجد و مدارس میں بمباری کر کے بچوں، اساتذہ اور غریب و بے کس عوام کو شہید کر کے فخر کیا جاتا ہے۔ تو کبھی کیوبا کے جزیروں پر قرآن پاک کے مقدس و مطہر اوراق کے ساتھ استنجا کرنے کی ناپاک جسارت کی جاتی ہے
تو کبھی پوری کائنات سے افضل و اعلیٰ شخصیت سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنائے جاتے ہیں تو کبھی کرسچین پوپ کی طرف سے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی ” شیطانی آیات “ نامی کتاب کے شیطان مصنف ملعون رشدی کو ” سر “ کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ ( خواہ یہ شیطان یورپین عورتوں پر بھی کیچڑ اچھالتا نظر آئے لیکن کفار کو اپنی عورتوں پر کیچڑ اچھالنے کی پرواہ کب ہے کیونکہ انہیں تو امہات المومنین اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والا کوئی خبیث ملنا چاہیے کیونکہ یہ ہر ایسے شخص کو سر آنکھوں پر بٹھانا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں ) لیکن اس سب کچھ کے باوجود فرشتوں کی مدد کیوں نہیں آتی اور یہ مسلمان خوف و غم میں کیوں مبتلا ہیں۔
مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او۔ آئی۔ سی ہی ایسے کٹھن حالات میں بھی کوئی بہتر کردار ادا کرنے کے لئے نظر کیوں نہیں آتی، تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا دعویٰ ” اللہ ہی ہمارا رب ہے “ وہ ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا کیونکہ جب صحابہ کرام نے یہ دعویٰ کیا تھا وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم پر اپنی جان نچھاور کرنا فخر سمجھتے تھے۔ قرون اولیٰ کے دور کی جھلک ان چند واقعات سے بالکل نظر آئے گی کہ حضرت ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ تھے جو انتہائی قد آور اور تنومند جوان تھے، ان کو نبی کریم علیہ السلام نے ذمہ داری سونپی کہ وہ مشرکین مکہ کے ہاں جو مسلمان قید ہیں ان کو رہا کروائیں تو ابومرثد رضی اللہ عنہ نے ان صحابہ کو روزانہ ایک ایک کر کے قید خانے سے رہائی دلوا کر دیوار کراس کروا دیتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کے ساتھ جس عورت کے ناجائز تعلقات تھے نے پہچان لیا اور بدکاری کی دعوت دی لیکن ابومرثد رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اسلام میں ان چیزوں کی اجازت نہیں۔ لہٰذا میں ایسا نہیں کر سکتا تب اس بدکار عورت نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر تم نے یہ گناہ نہ کیا تو میں شور مچا دوں گی تب بھی اس اللہ کے بندے نے انکار کر دیا۔ تو اس عورت نے شور مچا دیا کہ یہی تمہارا مجرم ہے جو قیدیوں کو رہا کرواتا ہے، حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں دوڑتا ہوا ایک پہاڑی ٹیلے کے نیچے گھس گیا تو اہل مکہ اس ٹیلے پر بیٹھ کر پیشاب کرتے جو میرے سر پر پڑتا رہا۔ اس بات سے ہمیں ان لوگوں کے کردار کو سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے پیشاب اور پاخانہ جیسی گندگی کو تو سر میں ڈلوا لیا لیکن زنا اور بدکاری جیسی گندگی کو قبول نہیں کیا۔
ویسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور شکلیں مسخ کر دی جائیں گی آسمان سے پتھروں کی بارش ہو گی تو صحابہ نے پوچھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس وقت لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں گے حج کرنے والے بھی ہوں گے، روزے دار اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بھی ہوں گے، لیکن اس دور میں شراب عام ہو گی، جوا کھیلنا شروع کر دیں گے، زنا اور بدکاری کریں گے اور گانا بجانا عام ہو گا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب ان پر آئے گا۔ “
گزشتہ واقعہ اور حدیث نبوی کو سامنے رکھ کر اگر موجودہ مسلمانوں کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ مسلمان ظلم و ستم کے شکنجے میں پھسنے کے باوجود بدکاری، بے حیائی، عریانی و فحاشی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کو چھوڑ کر موسیقی سے دل بہلاتے نظر آئیں گے اور گھر گھر میں انڈین فلموں کی فحاشی و عریانی ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب کی تبلیغ بھی کی جا رہی ہے۔ اور ہمیں تو آدھا ملک گنوا کر بھی سمجھ نہ آئی جب کہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ بنگال میں ڈبو دیا ہے اور اسی کے بیٹے راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں بلکہ پاکستانیوں کے گھروں میں اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر جیتی ہے۔ اور یہی عریانی و فحاشی ہی ان کا کلچر ہے جو مسلمانوں کو بے حمیت اور بے غیرت بناتا چلا جا رہا ہے۔ اور ہم اپنی عزتوں کو بچانے کے قابل بھی نہیں رہے
جبکہ دور نبوی میں ایک یہودی نے مسلمہ عورت کی عصمت دری کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مختصر کر کے سیدنا حضرت علی کی قیادت میں لشکر ترتیب دیا کہ اس مسلمان عورت کی عصمت کا انتقام لے کر آؤ تو شام سے پہلے پہلے سیدنا علی علیہ السلام نے اس یہودی کا سر قلم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا تو آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے بدلہ نہ لیا جاتا تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن ہم ہیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ ہمارے حکمرانوں نے تو شاید اسلام کی مخالفت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے چوری کی حد اسلام میں ہاتھ کاٹنا ہے۔ جبکہ ہمارے مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ میں ساری قوم کو ٹنڈا کر دوں؟ دوسرے لفظوں میں پوری قوم کو ہی چور کا لقب دینے پر تلے بیٹھے ہیں جبکہ اسکے برعکس ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ” کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ ضرور کاٹتا۔ “
ہماری حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ ہم قدم قدم پر کفار کی مشابہت کو اختیار کئے ہوئے ہیں ایسے لوگ جو اسلام کے بجائے کسی دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” من تشبہ بقوم فھو منھم “ ” جو کسی دوسری قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سے اٹھایا جائے گا۔ “ دعویٰ تو ہمارا بدر واحد والوں کا ہے لیکن عمل ہمارا ان کفار کے مشابہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہونے کے بجائے ہزاروں الہ بنائے بیٹھے ہیں کوئی گائے کا پجاری ہے تو کوئی بندر کا پجاری۔ جب ہم ایسے لوگوں کے طریقوں کو اپنائیں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے غضب ہو رہے تو پھر مدد ہم پر کیسے نازل ہو گی؟ دوسری طرف ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہم عدل و انصاف کی راہ اختیار کر رہے ہیں اور نہ ہی سودی کاروبار کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں جس کے بارے میں قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ سود لینے والا اور دینے والا مسلمان ہی نہیں بلکہ ایسے معاہدے کو تحریر میں لانے والا بھی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے۔
ایک طرف تو ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے اور دوسری طرف اسی وحدہ لا شریک کے ساتھ اعلان جنگ بھی کریں تو پھر کیسے فرشتوں کی مدد ہم تک پہنچ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کے نازل نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر کے کفار کی غلامی کو اختیار کرنا ہے۔ جب ہم میدان جہاد میں جانے کی تیاری نہیں کریں گے تو پھر اس طرح ہم پر ظلم ستم ہوتا رہے گا۔ درحقیقت ہم دعویٰ تو کرتے ہیں ” اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے “ لیکن ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مخالف ہیں پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب ہیں؟
مرزا قادیانی.... کی کذب بیانیاں
مولانا عبید اللہ لطیف
ختم نبوت
مرزا قادیانی.... کی کذب بیانیاں
کچھ عرصہ قبل فیصل آباد ریلوے روڈ سے گزر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں تین باریش نوجوان ایک روشن خیال ( تاریک خیال ) قسم کے نوجوان سے بحث میں مصروف ہیں ان باریش نوجوانوں میں میرا ایک جاننے والا بھی تھا جو ایک دینی ادارے کا طالب علم بھی ہے ۔ میں اس نوجوان سے ملاقات کے لیے رکا تو ان کے درمیان زیربحث موضوع کی وجہ سے پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کلین شیو تھا اور انہیں روشن خیالی ( تاریک خیالی ) کا درس دینے کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد اور مجاہدین کی مخالفت کر رہا تھا ۔ جو مذہب کے لحاظ سے قادیانی تھا ۔ کیونکہ ان کی بحث کا رخ جہاد سے ہٹ کر ختم نبوت کی طرف آگیا تھا ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو من و عن تحریر کےے دیتا ہوں تا کہ دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکے کہ کس طرح یہ قادیانی ہماری سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اور ہمارے نوجوان اپنے ہی دین کے بارے میں لاعلم ہونے کی وجہ سے کس طرح ان کی شر انگیزیوں میں پھنس کر اپنا ایمان تباہ کر بیٹھتے ہیں ۔
قادیانی : جبرائیل علیہ السلام کی ذمہ داری کیا ہے ؟ مسلم : وحی لانا ۔ قادیانی : سورۃ القدر کی آخری آیت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ اس آیت میں ” تنزل “ آیا ہے جو فعل مضارع کا صیغہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے کیونکہ اسی آیت میں ” والروح “ کا لفظ خاص جبرائیل علیہ السلام کے لیے بولا گیا ہے ۔ جب کہ آپ کے بقول جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی ہی وحی لانا ہے تو آپ کو کیا اعتراض ؟ وہ جس پر چاہیں وحی لے آئیں ۔
یہ دلیل سن کر وہ طالب علم لاجواب ہو گیا کیونکہ وہ نوجوان اس قادیانی سے بات کرتے ہوئے بنیادی غلطی کر گیا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی وحی لانا ہے ۔ جبکہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی نہ صرف وحی لانا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے جس وقت چاہے جو مرضی ڈیوٹی سونپ دے جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے بدر اور احد کے میدان میں وحی سے ہٹ کر فرشتوں کی قیادت کرتے ہوئے کفار سے قتال کیا ۔ اسی طرح طائف کی وادی میں نبی کریم علیہ السلام کی مدد کے لیے آئے اور اسی طرح جب جدالانبیاءابراہیم علیہ السلام کو جب آگ کے الاؤ میں پھینکا جانے لگا تو تب بھی مدد کے لیے آئے ۔
یہ ایک واقعہ تو میرے سامنے ہوا پتہ نہیں روزانہ ایسے کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر قادیانی نواز ہے اور ہر معاملہ میں قادیانیوں کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے ۔ یہاں تک کہ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کر کے ان کو مکہ اور مدینہ میں شر پسندی کا کھلا موقع فراہم کیا گیا ہے جب کہ ان کو 7 ستمبر 1974 کو اقلیت قرار دیا گیا تھا ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے مسلم نوجوانوں بزرگوں اور عورتوں کو اپنے دین کے متعلق ہی معلومات برائے نام ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علمی میدان میں دلائل دیتے ہوئے ان سے مات کھا جاتے ہیں ۔ اب میں مرزا قادیانی کی اصل کتابوں سے چند دلائل پیش کرنے لگا ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کو مرتد کیوں قرار دیا گیا ہے ویسے بھی سید آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے بعد تیس 30 کذاب آئیں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے اس حدیث کی رو سے اور تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے دور میں ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا اور مرزا قادیانی بھی اسی کا پیروکار ہے اور اپنے آپ کو واضح طور پر نبی کہتا ہے ۔ اور ” کشتی نوح “ میں یوں رقمطراز ہے ۔
” خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاءہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو صرف ظل اور اصل کا فرق ہے ۔ سو ایسا ہی اللہ نے مسیح موعود میں چاہا ۔ یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا ۔ یعنی وہ میں ہی ہوں ۔ ( کشتی نوح صفحہ24 )
اس تحریر میں پہلے تو مرزا صاحب واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاءہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن بعد میں آئینہ کی مثال دے کر خود کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور برملا طور پر کہہ رہے ہیں کہ جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو وہی نبی ہے ۔ جس بات سے مرزا صاحب کذب بیانی اور ہیرا پھیری سے کام لے رہے ہیں ان کے جھوٹ کا پول فقط اسی بات سے کھل جاتا ہے کہ اس تحریر کے آخر میں فرمان نبی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا اور پھر کہتا ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں ۔ اگر اب مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچے تھے تو ان کی قبر مدینہ منورہ میں ہونی چاہئیے تھی نہ کہ قادیان میں اور ویسے بھی یہ دستور شروع سے چلا آ رہا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے کہ حقیقت میں مرزا نبی تھا تو یہ لیٹرین میں مرا اسے وہیں دفن کرنا چاہئیے تھا ۔ کشتی نوح کے صفحہ نمبر 22 پر مرزا کچھ یوں رقمطراز ہے کہ
” اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائمقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا جیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا تھا جب کہ مسلمانوں کا حال وہی تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے وقت یہودیوں کا حال تھا سو وہ میں ہی ہوں ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 22 )
اس تحریر میں مرزا صاحب اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مثیل ابن مریم ثابت کر رہے ہیں ایسا شخص جو کسی ایک نبی کی گستاخی کرے وہ تو واجب القتل ہے ۔ اور پاکستان کے اندر بھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و یورپ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور شاتم رسول کو سزائے موت دینے والے قانون کو ختم کروانے کے درپے ہیں اور ہمارے قادیانی نواز حکمران بھی ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پاکستان میں شاتم رسول کو موت کی سزا والے قانون کی وجہ سے سب سے پہلے قادیانی اس کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ مرزا صاحب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ جگہ جگہ پر انبیاءکی توہین بھی کی ہے ۔ اگر مرزا کے دماغی توازن کا جائزہ لینا ہو تو اسی ایک تحریر سے لیا جا سکتا ہے جس میں خود ہی مریم اور پھر خود ہی عیسیٰ بن جاتا ہے ۔ لہٰذا کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ :
” اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براھین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشوونما پاتا رہا ۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینہ سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 69-68 )
کیا ایسا شخص جو پہلے اپنے آپ کو مثیل ابن مریم کہے پھر خود ہی مریم بن جائے اور حاملہ ہو کر خود ہی ابن مریم بن بیٹھے اور کبھی اپنے آپ کو مسیح موعود کہلائے تو کبھی اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کبھی اپنے آپ کو عیسیٰ سے افضل قرار دے ۔ مرزائی دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ایسا مخبوط الحواس شخص نبی کہلانے کا حق دار ہے ۔ کیا ایسا شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے ، یقینا نہیں ! تو پھر آئیے توبہ کیجےے اور کلمہ توحید و رسالت کا اقرار کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیے اسی میں فلاح اور کامیابی ہے ۔
مرزا قادیانی ” کشتی نوح “ میں ایک اور جگہ پر یوں رقمطراز ہے کہ : ” مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز نہ دکھلا سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا جب کہ میں ایسا ہوں تو اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاءاس جگہ کوئی حسد اور رشک پیش نہیں کیا جاتا خدا جو چاہے کرے جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد میں نامراد ہی نہیں بلکہ مرکز جہنم کی راہ لیتا ہے ۔ ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو خدا بنایا ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اسکے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ ( کشتی نوح ، صفحہ 81 )
اس تحریر میں بھی سراسر عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی گئی اور اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک مرزا قادیانی کے نشانوں والی بات ہے واقعی وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا ۔ عیسیٰ علیہ السلام تو پھر بھی جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ ایسے نشان انتہائی حقیر اور معمولی سے عقل والا انسان بھی نہیں دکھا سکتا ۔ اور جہاں تک مرزا قادیانی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اس کے بغیر تاریکی ہے تو یہ ایسی ہی بات ہے کہ نام ہو نور بھری اور رنگ ہو توے کی سیاہی سے بھی کالا ۔
کچھ لوگ یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا جبکہ وہ خود کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ : ” یہاں تک کہ بیت المقدس کے صدھا عالم فاضل جو اکثر اہلحدیث تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ پر تکفیر کی مہریں لگا دیں یہی معاملہ مجھ سے ہوا اور پھر جیسا کہ اس تکفیر کے بعد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کی گئی تھی ان کو بہت ستایا گیا سخت سے سخت گالیاں دی گئی تھیں ، ہجو اور بدگوئی میں کتابیں لکھی تھیں ، یہی صورت اس جگہ پیش آئی گویا اٹھارہ سو برس بعد وہی عیسیٰ پھر پیدا ہو گیا اور وہی یہودی پھر پیدا ہوگئے ۔ “ ( کشتی نوح ، صفحہ : 73 )
اس تحریر سے اس کا بغض اور کینہ ، اہلحدیثوں کے ساتھ صاف نظر آ رہا ہے ۔ جبکہ فقہ احمدیہ میں لکھتا ہے کہ ” اگر کوئی مسئلہ قرآن و سنت میں نہ ملے تو فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے ۔ “ ( فقہ احمدیہ ، صفحہ 13 )
صفحہ 15 پر لکھا ہے کہ : ” فقہ احمدیہ کے وہی ماخوذ ہیں ، جو فقہ حنفی کے ہیں ۔ “ اب اہلحدیثوں پر الزام دینے والوں کو خود ہی اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئیے ۔ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کیجےےہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
نوجوان نسل کی بے راہ روی
مولانا عبید اللہ لطیف
نوجوان نسل کی بے راہ روی!
چند دن ہوئے میرے ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے ایک عزیز ہیں جن کی عادت شریفہ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی کسی بے پردہ عورت کو دیکھتے ہیں تو اسے پردہ کی تلقین کرتے ہیں ایک دن ایسا ہوا کہ انہیں ایک بے پردہ عورت نظر آئی تو بزرگ اسے سمجھانے کیلئے اس کے پاس گئے جب اسے مخاطب کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عورت نہیں بلکہ موجودہ دور کا ماڈرن نوجوان تھا درحقیقت ان کو یہ غلطی اس وجہ سے لگی کہ اس نوجوان نے بال کافی لمبے رکھے ہوئے تھے اور لباس بھی خواتین کی طرح شوخ اور چمکیلا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کے ہاتھ میں عورتوں کی طرح کنگن اور کانوں میں ٹاپس تھے شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی چہرے پر تو مردوں والی کوئی علامت ہی نہ تھی کہ چہرہ داڑھی مونچھ سے بالکل صاف تھا۔
ایسے واقعات تو بیشتر رونما ہو رہے ہیں کہ مرد خواتین کی مشابہت میں اور کفار کی تہذیب میں مکمل عورتیں بننے کی کوشش میں مصروف ہیں تو خواتین بھی اپنا اصل فریضہ اور عمل ترک کر کے ننگے سر، ننگے منہ، مردوں کی طرح بال بنائے پینٹ شرٹ پہنے مردوں کا انداز اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے یہ خواتین و حضرات نہ تو مکمل عورتیں ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل مرد بلکہ ایک تیسری ہی جنس کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں اگر ملک بھر کا جائزہ لیں تو تعلیمی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جس میں ایسے لوگ نہ پائے جائیں۔ اگر شریعت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہوں گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں اور عورتوں کو جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں کے متعلق فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو گھروں سے نکال دینے کا حکم ہے۔ “
ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن پاک کی سورۃ ” مجادلۃ “ کی آیت نمبر14 میں ارشاد ہے کہ: ” جنہوں نے ایسے لوگوں کے طرز زندگی کو اپنایا جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا نہ وہ ان میں سے ہیں اور نہ ہی وہ تم میں سے۔ “ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے حقدار ٹھہرے ہیں اگر ان کے راستے پر چلا جائے گا تو انسان اپنی اصلیت کھو دے گا۔
یہ بات تو پہلے ہی سے طے ہو چکی کہ جو مرد و خواتین ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ ملعون ہیں۔ اسی آیت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو جو لوگ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ تو مرد رہ سکتے ہیں اور نہ ہی عورتیں۔ اسی آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو لوگ یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ نہ تو مسلمان رہ سکتے ہیں اور نہ ہی یہودی یا عیسائی بن سکتے ہیں۔ اگلی آیت میں ایسے لوگوں کے لئے سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
” اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تحقیق جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ برا کر رہے ہیں۔ “ ( المجادلہ:15 )
اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ایک طرف تو کفار نے تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف مسلمان ان کے کلچر اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر شادی بیاہ کا مسئلہ ہو تو تب بھی ہندوؤں کی مشابہت میں مہندی جیسی رسمیں اختیار کی جا رہی ہیں۔ جن میں اپنی غیرت کا جنازہ اس طرح نکالا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں رقص کرتی ہوئی بھرے بازار میں سے گزرتی ہیں اور والدین دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اگر زندگی کے دوسرے معاملات کا جائزہ بھی لیں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ بدتر نظر آئے گی کہ کبھی اپریل فول منایا جا رہا ہے تو کبھی ویلنٹائن ڈے۔ مسلمانوں نے اس انداز سے بسنت منایا کہ گزشتہ برس انڈیا سے آنے والے وفد کی طرف سے بھی تعجب کا اظہار کیا گیا کہ اس انداز سے تو بھارت میں ہندو اور سکھ بھی اس تہوار کو نہیں مناتے جس طرح پاکستانی مسلمانوں نے منایا ہے۔ ایسے اعمال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے۔ وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں ہنودیہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: من تشبہ بقوم فھو منھم ” جس کسی نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گیا۔ “
ان حالات میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو لوگ کسی قوم کی غلامی میں اس کا ہر برا فعل اپنائے ہوئے ہوں اور اپنے دینی نظریات کو ترک کر چکے ہوں وہ لوگ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ کتنے بے حس ہیں یہ لوگ کہ کفار سے جوتے پڑنے اور تہذیبوں کی جنگ کا اعلان سننے کے باوجود بھی اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں
تو ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن مجید نے کہا ہے کہ: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( الرعد:11 ) خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
نوجوان نسل کی بے راہ روی!
چند دن ہوئے میرے ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے ایک عزیز ہیں جن کی عادت شریفہ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی کسی بے پردہ عورت کو دیکھتے ہیں تو اسے پردہ کی تلقین کرتے ہیں ایک دن ایسا ہوا کہ انہیں ایک بے پردہ عورت نظر آئی تو بزرگ اسے سمجھانے کیلئے اس کے پاس گئے جب اسے مخاطب کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عورت نہیں بلکہ موجودہ دور کا ماڈرن نوجوان تھا درحقیقت ان کو یہ غلطی اس وجہ سے لگی کہ اس نوجوان نے بال کافی لمبے رکھے ہوئے تھے اور لباس بھی خواتین کی طرح شوخ اور چمکیلا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کے ہاتھ میں عورتوں کی طرح کنگن اور کانوں میں ٹاپس تھے شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی چہرے پر تو مردوں والی کوئی علامت ہی نہ تھی کہ چہرہ داڑھی مونچھ سے بالکل صاف تھا۔
ایسے واقعات تو بیشتر رونما ہو رہے ہیں کہ مرد خواتین کی مشابہت میں اور کفار کی تہذیب میں مکمل عورتیں بننے کی کوشش میں مصروف ہیں تو خواتین بھی اپنا اصل فریضہ اور عمل ترک کر کے ننگے سر، ننگے منہ، مردوں کی طرح بال بنائے پینٹ شرٹ پہنے مردوں کا انداز اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے یہ خواتین و حضرات نہ تو مکمل عورتیں ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل مرد بلکہ ایک تیسری ہی جنس کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں اگر ملک بھر کا جائزہ لیں تو تعلیمی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جس میں ایسے لوگ نہ پائے جائیں۔ اگر شریعت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہوں گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں اور عورتوں کو جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں کے متعلق فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو گھروں سے نکال دینے کا حکم ہے۔ “
ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن پاک کی سورۃ ” مجادلۃ “ کی آیت نمبر14 میں ارشاد ہے کہ: ” جنہوں نے ایسے لوگوں کے طرز زندگی کو اپنایا جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا نہ وہ ان میں سے ہیں اور نہ ہی وہ تم میں سے۔ “ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے حقدار ٹھہرے ہیں اگر ان کے راستے پر چلا جائے گا تو انسان اپنی اصلیت کھو دے گا۔
یہ بات تو پہلے ہی سے طے ہو چکی کہ جو مرد و خواتین ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ ملعون ہیں۔ اسی آیت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو جو لوگ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ تو مرد رہ سکتے ہیں اور نہ ہی عورتیں۔ اسی آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو لوگ یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ نہ تو مسلمان رہ سکتے ہیں اور نہ ہی یہودی یا عیسائی بن سکتے ہیں۔ اگلی آیت میں ایسے لوگوں کے لئے سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
” اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تحقیق جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ برا کر رہے ہیں۔ “ ( المجادلہ:15 )
اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ایک طرف تو کفار نے تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف مسلمان ان کے کلچر اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر شادی بیاہ کا مسئلہ ہو تو تب بھی ہندوؤں کی مشابہت میں مہندی جیسی رسمیں اختیار کی جا رہی ہیں۔ جن میں اپنی غیرت کا جنازہ اس طرح نکالا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں رقص کرتی ہوئی بھرے بازار میں سے گزرتی ہیں اور والدین دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اگر زندگی کے دوسرے معاملات کا جائزہ بھی لیں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ بدتر نظر آئے گی کہ کبھی اپریل فول منایا جا رہا ہے تو کبھی ویلنٹائن ڈے۔ مسلمانوں نے اس انداز سے بسنت منایا کہ گزشتہ برس انڈیا سے آنے والے وفد کی طرف سے بھی تعجب کا اظہار کیا گیا کہ اس انداز سے تو بھارت میں ہندو اور سکھ بھی اس تہوار کو نہیں مناتے جس طرح پاکستانی مسلمانوں نے منایا ہے۔ ایسے اعمال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے۔ وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں ہنودیہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: من تشبہ بقوم فھو منھم ” جس کسی نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گیا۔ “
ان حالات میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو لوگ کسی قوم کی غلامی میں اس کا ہر برا فعل اپنائے ہوئے ہوں اور اپنے دینی نظریات کو ترک کر چکے ہوں وہ لوگ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ کتنے بے حس ہیں یہ لوگ کہ کفار سے جوتے پڑنے اور تہذیبوں کی جنگ کا اعلان سننے کے باوجود بھی اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں
تو ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن مجید نے کہا ہے کہ: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( الرعد:11 ) خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
فحش اور مخرب اخلاق لٹریچر کی سرعام خریدو فروخت
مولانا عبید اللہ لطیف
معاشرتی برائیاں
فحش اور مخرب اخلاق لٹریچر کی سرعام خریدو فروخت
علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت علیہ السلام کا فرمان عالیشان ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت کے مطابق نبی رحمت علیہ السلام نے چودھراہٹ کا معیار دنیا کی دولت ، برادری یا کسی اور چیز کو نہیں بلکہ علم دین کو بتایا اور پیارے پیغمبر آخر الزماں کا فرمان عالیشان ہے کہ ” علماءانبیاءکے وارث ہیں ۔ “ لیکن جب یہی علماءاپنا کردار اور طرزِ عمل غلط کر بیٹھیں تو پھر قوموں کی تباہی یقینی بن جایا کرتی ہے ۔ بات کر رہا تھا علم کی فضیلت و اہمیت کی تو علم حاصل کرنے کے لیے انسان مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے ۔ جن میں ایک بہتر ذریعہ مختلف کتب ، جرائد و رسائل کا مطالعہ بھی ہے ۔ کیونکہ مطالعہ خواہ کسی بھی چیز کا ہو ، انسان کے ذہن ، اس کی سوچ اور فکر پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس لیے مطالعہ کرتے وقت ہمیں ایسے لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہئیے جس سے نہ صرف انسان کی دینی تربیت ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس قابل بھی ہو جائے کہ وہ اسلام اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس وقت ملک بھر میں مختلف بک سٹالوں پر جہاں دیگر جرائد و رسائل فروخت ہو رہے ہیں ، وہیں پر عریانی و فحاشی پر مبنی لٹریچر بھی سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی باشعور ، عقلمند اور سچا مسلمان ایسا لٹریچر پڑھنا چاہتا ہو ۔ کیونکہ ایسے لٹریچر میں نہ صرف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ ماں ، بہن ، بیٹی ، والد ، بیٹے اور بھائی جیسے مقدس رشتوں کے تقدس کو بھی سربازار رسوا کیا جا رہا ہے ۔
دل اس وقت مزید دکھی ہوا جب میں نے سکول کے نوجوان طلبہ کے ساتھ ساتھ چند طالبات کو بھی یہ فحش لٹریچر خریدتے دیکھا اور سوچنے لگا کہ کیا ہم حقیقتاً مسلمان ہیں ؟ کیا ہم مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟ کیا ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جس نے ایک مرتبہ امہات المومنین] کو فقط اس بات پر انتہائی سخت انداز میں ڈانٹا تھا کہ وہ ایک نابینا صحابی عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ننگے منہ آ گئی تھیں اور عذر یہ تھا کہ وہ صحابی رسول نابینا تھے ۔ انہیں نظر نہیں آتا تھا ۔ کیا ہم سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ماننے والے ہیں جن کی وصیت یہ تھی کہ ان کا جنازہ بھی اندھیرے میں اٹھایا جائے ۔ کیا ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نبی رحمت علیہ السلام کا فرمانِ عالیشان ہے کہ زنا اور بدکاری اتنا کبیرہ گناہ ہے کہ اگر کسی بستی میں کوئی ایک شخص زنا کرے تو اللہ رب العزت اس حد تک غضبناک ہوتے ہیں کہ چاہیں تو اس بستی کو تباہ و برباد کر دیں ۔ کیا ہم اس قرآن پاک کو ماننے والے ہیں جس میں ہم سب کو فحاشی کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے نوجوان بچے اور بچیاں کس روش پر چل نکلے ہیں ؟
بحیثیت پاکستانی قوم ہم تو ایسے بدبخت ثابت ہوئے کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی کے ان الفاظ کو بھول گئے ، جس میں اس نے کہا تھا کہ ” ہم نے پاکستان سے میدان جنگ میں نہیں بلکہ اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر فتح حاصل کی ہے ۔ “ ہم بھول گئے کہ ایک مرتبہ ہمارے پیرومرشد سید الکونین ، کبریا و تاجدار انبیاء، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ پیارے پیغمبر علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ ایک وقت آئے گا میری امت پر اس طرح عذاب الٰہی آئے گا کہ آسمان سے پتھر برسیں گے ۔ زمین میں دھنسا دئیے جائیں گے ۔ ان کی شکلیں مسخ کر دی جائیں گی ۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس وقت لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے ؟ تو نبی رحمت علیہ السلام کا جواب تھا نہیں ۔ ان میں روزہ دار بھی ہوں گے ، نمازی بھی ہوں گے ، حج کرنے والے بھی ہوں گے ، صدقات و خیرات کرنے والے بھی ہوں گے ، یہاں تک کہ جہاد کرنے والے مجاہد بھی ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کی کہ آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ! پھر یہ عذاب کس وجہ سے آئے گا ؟ تو جواب ملا کہ اس وقت لوگوں میں شراب اور جوا عام ہو جائے گا ۔ زنا اور بدکاری پھیل جائے گی اور گانا بجانا عام ہو جائے گا ۔ اے مسلم نوجوانو ! غور کرو کہ آج ہم یہ فحش لٹریچر خرید کر ، پڑھ کر اپنے ملک کی کون سی خدمت کر رہے ہیں اور کیا ہم اپنے رب کو راضی کر رہے ہیں اور ایسا لٹریچر فروخت کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ دنیا کے چند ٹکوں کے فائدے کے لیے کتنے لوگوں کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں اور اپنے ملک و ملت اور مذہب کی کیا خدمت کر رہے ہیں ۔ ایسا لٹریچر فروخت کرنے والو ! یاد رکھو قیامت کے دن اپنے خالق و مالک کو کیا جواب دوگے ؟
اگر ایک نوجوان بھی تمہارا لٹریچر پڑھ کر بے راہ روی کا شکار ہو گیا تو اس کے ذمہ دار بھی تم ہو گے ۔ جہاں پر قیامت کے روز وہ گناہ کرنے والا سزا کا مستحق ٹھہرے گا ، وہیں پر تم بھی مجرم ہوگے ۔ کیونکہ تم لوگ ایسے نوجوانوں کو گناہ پر ابھارنے کا سبب بنتے ہو اور پھر ایسے حکمران جن کی حکومت میں یہ سب کچھ ہو رہا ہو اور وہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہوں ۔ اس کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہ کرےں ، وہ بھی کل قیامت کے دن جواب دہ ہوں گے ۔ ان حکمرانوں کے بھی گریبان ہوں گے ۔ جبکہ ان گناہوں میں لتھڑے ہوئے نوجوانوں کے شریف والدین کے ہاتھ ہوں گے تو پھر کیا جواب دیں گے یہ حکمران........ ؟
حکمرانوں کو شاید ایسے نوجوان بچوں کے بگڑتے ہوئے کردار کی فکر نہیں ہے ، شاید وہ وطن عزیز کے نونہالوں کو غلط روش پر چلتا ہوا دیکھ کر خوش ہونا چاہتے ہوں ۔ لیکن ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کو دیکھ کر ہاتھ سے روکے ۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے ۔ اگر زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو دل سے برا جانے ۔ یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ہے ۔
میرے مسلمان بھائیو ! غور کرو جو لوگ خود برائی کا ارتکاب کر رہے ہوں ، ایمان کے حوالہ سے ان کا کیا مقام ہو گا اور وہ کہاں پر کھڑے ہوں گے ۔ آج وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں امت مسلمہ پریشانیوں کا شکار ہے کبھی غور کیا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ آئیے آج آپ کو اس نبی کی زبان سے ان اسباب کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جن کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے ۔ جن کی محبت کے دعویدار ہیں ۔ اس نبی رحمت کا فرمان عالی شان سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں موجود ہے ۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں ۔ کہتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب کسی قوم میں عریانی و فحاشی عام ہو جائے تو اس قوم میں طاعون کی وبا پھیلتی ہے اور ایسی ایسی بیماریاں قوم میں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں موجود نہیں ہوتیں ۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی شروع کر دے تو اس قوم پر اللہ رب العزت ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے ۔ جب کوئی قوم زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا نہ کرے تو اس قوم میں قحط سالی شروع ہو جاتی ہے ۔ اگر چرند پرند نہ ہوں تو اس قوم پر پانی کی ایک بوند بھی نہ برسے ۔ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر ایسے لوگ مسلط کر دیتا ہے جو ان میں سے نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کے وسائل و ذخائر پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔ جب کسی قوم کے حکمران حدود اللہ کی پامالی شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیتا ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں ۔
یہ پانچ چیزیں جن کا تذکرہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے کیا اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ۔ کیا آج بحیثیت قوم اجتماعی طور پر ہم میں یہ ساری چیزیں نہیں پائی جاتیں ؟ آج ہم یہ نقصان نہیں اٹھا رہے ؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو آئیے اپنی اصلاح کریں ۔ والدین اپنے بچوں پر نگاہ رکھیں کہ کہیں وہ غلط روش پر تو نہیں چل رہے اور حکمران بھی اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے مخرب اخلاق اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کر کے قوم کے نونہالوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچائیں اور قوم کے نوجوان بچے اور بچیاں بھی بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ۔ اگر ہم اپنی حالت نہیں بدلیں گے تو ہمارا خالق و مالک بھی ہم سے منہ موڑ لے گا اور اسی خالق کائنات کا فرمان عالیشان ہے ۔ جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہخدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئیے کہ یہودی پروٹوکولز میں پروٹوکول نمبر 161 میں فحاشی کے فروغ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
” ترقی پسند اور روشن خیال کہلانے والے ممالک میں ہم نے لغو ، فحش اور قابل نفرت قسم کے ادب کو پہلے ہی سے خوب فروغ دے رکھا ہے ۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے عرصہ بعد تک ہم عوام کو تقریروں اور تفریحی پروگراموں کے ذریعے مخرب اخلاق ادب کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے ۔ ہمارے دانشور جنہیں غیریہودی کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی ، ایسی تقریر اور مضامین تیار کریں گے جن سے ذہن فوراً اثر قبول کریں گے تا کہ نئی نسل ہماری قبض کردہ راہوں پر گامزن ہوسکے ۔
کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر تبدیلی لائیں گے یا نہیں ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کیا ہمارے حکمران فحاشی کے پھیلتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے تیار ہوں گے ۔ یہ سوال ہے قوم کے حکمرانوں کے لیے ، کیا انہوں نے قیامت کے دن جواب دینے کی تیاری کر لی ہے ؟ کیا حکام بالا ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے ۔ کیونکہ ایسا لٹریچر پاکستان کے ہرشہر ، میں بک سٹالوں پر سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ اسی طرح گندی سی ڈیز بھی ہر جگہ دستیاب ہیں جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہیں ۔
معاشرتی برائیاں
فحش اور مخرب اخلاق لٹریچر کی سرعام خریدو فروخت
علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت علیہ السلام کا فرمان عالیشان ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت کے مطابق نبی رحمت علیہ السلام نے چودھراہٹ کا معیار دنیا کی دولت ، برادری یا کسی اور چیز کو نہیں بلکہ علم دین کو بتایا اور پیارے پیغمبر آخر الزماں کا فرمان عالیشان ہے کہ ” علماءانبیاءکے وارث ہیں ۔ “ لیکن جب یہی علماءاپنا کردار اور طرزِ عمل غلط کر بیٹھیں تو پھر قوموں کی تباہی یقینی بن جایا کرتی ہے ۔ بات کر رہا تھا علم کی فضیلت و اہمیت کی تو علم حاصل کرنے کے لیے انسان مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے ۔ جن میں ایک بہتر ذریعہ مختلف کتب ، جرائد و رسائل کا مطالعہ بھی ہے ۔ کیونکہ مطالعہ خواہ کسی بھی چیز کا ہو ، انسان کے ذہن ، اس کی سوچ اور فکر پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس لیے مطالعہ کرتے وقت ہمیں ایسے لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہئیے جس سے نہ صرف انسان کی دینی تربیت ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس قابل بھی ہو جائے کہ وہ اسلام اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس وقت ملک بھر میں مختلف بک سٹالوں پر جہاں دیگر جرائد و رسائل فروخت ہو رہے ہیں ، وہیں پر عریانی و فحاشی پر مبنی لٹریچر بھی سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی باشعور ، عقلمند اور سچا مسلمان ایسا لٹریچر پڑھنا چاہتا ہو ۔ کیونکہ ایسے لٹریچر میں نہ صرف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ ماں ، بہن ، بیٹی ، والد ، بیٹے اور بھائی جیسے مقدس رشتوں کے تقدس کو بھی سربازار رسوا کیا جا رہا ہے ۔
دل اس وقت مزید دکھی ہوا جب میں نے سکول کے نوجوان طلبہ کے ساتھ ساتھ چند طالبات کو بھی یہ فحش لٹریچر خریدتے دیکھا اور سوچنے لگا کہ کیا ہم حقیقتاً مسلمان ہیں ؟ کیا ہم مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟ کیا ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جس نے ایک مرتبہ امہات المومنین] کو فقط اس بات پر انتہائی سخت انداز میں ڈانٹا تھا کہ وہ ایک نابینا صحابی عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ننگے منہ آ گئی تھیں اور عذر یہ تھا کہ وہ صحابی رسول نابینا تھے ۔ انہیں نظر نہیں آتا تھا ۔ کیا ہم سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ماننے والے ہیں جن کی وصیت یہ تھی کہ ان کا جنازہ بھی اندھیرے میں اٹھایا جائے ۔ کیا ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نبی رحمت علیہ السلام کا فرمانِ عالیشان ہے کہ زنا اور بدکاری اتنا کبیرہ گناہ ہے کہ اگر کسی بستی میں کوئی ایک شخص زنا کرے تو اللہ رب العزت اس حد تک غضبناک ہوتے ہیں کہ چاہیں تو اس بستی کو تباہ و برباد کر دیں ۔ کیا ہم اس قرآن پاک کو ماننے والے ہیں جس میں ہم سب کو فحاشی کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے نوجوان بچے اور بچیاں کس روش پر چل نکلے ہیں ؟
بحیثیت پاکستانی قوم ہم تو ایسے بدبخت ثابت ہوئے کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی کے ان الفاظ کو بھول گئے ، جس میں اس نے کہا تھا کہ ” ہم نے پاکستان سے میدان جنگ میں نہیں بلکہ اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر فتح حاصل کی ہے ۔ “ ہم بھول گئے کہ ایک مرتبہ ہمارے پیرومرشد سید الکونین ، کبریا و تاجدار انبیاء، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ پیارے پیغمبر علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ ایک وقت آئے گا میری امت پر اس طرح عذاب الٰہی آئے گا کہ آسمان سے پتھر برسیں گے ۔ زمین میں دھنسا دئیے جائیں گے ۔ ان کی شکلیں مسخ کر دی جائیں گی ۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس وقت لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے ؟ تو نبی رحمت علیہ السلام کا جواب تھا نہیں ۔ ان میں روزہ دار بھی ہوں گے ، نمازی بھی ہوں گے ، حج کرنے والے بھی ہوں گے ، صدقات و خیرات کرنے والے بھی ہوں گے ، یہاں تک کہ جہاد کرنے والے مجاہد بھی ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کی کہ آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ! پھر یہ عذاب کس وجہ سے آئے گا ؟ تو جواب ملا کہ اس وقت لوگوں میں شراب اور جوا عام ہو جائے گا ۔ زنا اور بدکاری پھیل جائے گی اور گانا بجانا عام ہو جائے گا ۔ اے مسلم نوجوانو ! غور کرو کہ آج ہم یہ فحش لٹریچر خرید کر ، پڑھ کر اپنے ملک کی کون سی خدمت کر رہے ہیں اور کیا ہم اپنے رب کو راضی کر رہے ہیں اور ایسا لٹریچر فروخت کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ دنیا کے چند ٹکوں کے فائدے کے لیے کتنے لوگوں کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں اور اپنے ملک و ملت اور مذہب کی کیا خدمت کر رہے ہیں ۔ ایسا لٹریچر فروخت کرنے والو ! یاد رکھو قیامت کے دن اپنے خالق و مالک کو کیا جواب دوگے ؟
اگر ایک نوجوان بھی تمہارا لٹریچر پڑھ کر بے راہ روی کا شکار ہو گیا تو اس کے ذمہ دار بھی تم ہو گے ۔ جہاں پر قیامت کے روز وہ گناہ کرنے والا سزا کا مستحق ٹھہرے گا ، وہیں پر تم بھی مجرم ہوگے ۔ کیونکہ تم لوگ ایسے نوجوانوں کو گناہ پر ابھارنے کا سبب بنتے ہو اور پھر ایسے حکمران جن کی حکومت میں یہ سب کچھ ہو رہا ہو اور وہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہوں ۔ اس کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہ کرےں ، وہ بھی کل قیامت کے دن جواب دہ ہوں گے ۔ ان حکمرانوں کے بھی گریبان ہوں گے ۔ جبکہ ان گناہوں میں لتھڑے ہوئے نوجوانوں کے شریف والدین کے ہاتھ ہوں گے تو پھر کیا جواب دیں گے یہ حکمران........ ؟
حکمرانوں کو شاید ایسے نوجوان بچوں کے بگڑتے ہوئے کردار کی فکر نہیں ہے ، شاید وہ وطن عزیز کے نونہالوں کو غلط روش پر چلتا ہوا دیکھ کر خوش ہونا چاہتے ہوں ۔ لیکن ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کو دیکھ کر ہاتھ سے روکے ۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے ۔ اگر زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو دل سے برا جانے ۔ یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ہے ۔
میرے مسلمان بھائیو ! غور کرو جو لوگ خود برائی کا ارتکاب کر رہے ہوں ، ایمان کے حوالہ سے ان کا کیا مقام ہو گا اور وہ کہاں پر کھڑے ہوں گے ۔ آج وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں امت مسلمہ پریشانیوں کا شکار ہے کبھی غور کیا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ آئیے آج آپ کو اس نبی کی زبان سے ان اسباب کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جن کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے ۔ جن کی محبت کے دعویدار ہیں ۔ اس نبی رحمت کا فرمان عالی شان سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں موجود ہے ۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں ۔ کہتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب کسی قوم میں عریانی و فحاشی عام ہو جائے تو اس قوم میں طاعون کی وبا پھیلتی ہے اور ایسی ایسی بیماریاں قوم میں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں موجود نہیں ہوتیں ۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی شروع کر دے تو اس قوم پر اللہ رب العزت ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے ۔ جب کوئی قوم زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا نہ کرے تو اس قوم میں قحط سالی شروع ہو جاتی ہے ۔ اگر چرند پرند نہ ہوں تو اس قوم پر پانی کی ایک بوند بھی نہ برسے ۔ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر ایسے لوگ مسلط کر دیتا ہے جو ان میں سے نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کے وسائل و ذخائر پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔ جب کسی قوم کے حکمران حدود اللہ کی پامالی شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیتا ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں ۔
یہ پانچ چیزیں جن کا تذکرہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے کیا اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ۔ کیا آج بحیثیت قوم اجتماعی طور پر ہم میں یہ ساری چیزیں نہیں پائی جاتیں ؟ آج ہم یہ نقصان نہیں اٹھا رہے ؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو آئیے اپنی اصلاح کریں ۔ والدین اپنے بچوں پر نگاہ رکھیں کہ کہیں وہ غلط روش پر تو نہیں چل رہے اور حکمران بھی اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے مخرب اخلاق اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کر کے قوم کے نونہالوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچائیں اور قوم کے نوجوان بچے اور بچیاں بھی بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ۔ اگر ہم اپنی حالت نہیں بدلیں گے تو ہمارا خالق و مالک بھی ہم سے منہ موڑ لے گا اور اسی خالق کائنات کا فرمان عالیشان ہے ۔ جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہخدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئیے کہ یہودی پروٹوکولز میں پروٹوکول نمبر 161 میں فحاشی کے فروغ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
” ترقی پسند اور روشن خیال کہلانے والے ممالک میں ہم نے لغو ، فحش اور قابل نفرت قسم کے ادب کو پہلے ہی سے خوب فروغ دے رکھا ہے ۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے عرصہ بعد تک ہم عوام کو تقریروں اور تفریحی پروگراموں کے ذریعے مخرب اخلاق ادب کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے ۔ ہمارے دانشور جنہیں غیریہودی کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی ، ایسی تقریر اور مضامین تیار کریں گے جن سے ذہن فوراً اثر قبول کریں گے تا کہ نئی نسل ہماری قبض کردہ راہوں پر گامزن ہوسکے ۔
کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر تبدیلی لائیں گے یا نہیں ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کیا ہمارے حکمران فحاشی کے پھیلتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے تیار ہوں گے ۔ یہ سوال ہے قوم کے حکمرانوں کے لیے ، کیا انہوں نے قیامت کے دن جواب دینے کی تیاری کر لی ہے ؟ کیا حکام بالا ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے ۔ کیونکہ ایسا لٹریچر پاکستان کے ہرشہر ، میں بک سٹالوں پر سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ اسی طرح گندی سی ڈیز بھی ہر جگہ دستیاب ہیں جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہیں ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)