منگل، 25 مئی، 2010

نوجوان نسل کی بے راہ روی

مولانا عبید اللہ لطیف
نوجوان نسل کی بے راہ روی!
چند دن ہوئے میرے ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے ایک عزیز ہیں جن کی عادت شریفہ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی کسی بے پردہ عورت کو دیکھتے ہیں تو اسے پردہ کی تلقین کرتے ہیں ایک دن ایسا ہوا کہ انہیں ایک بے پردہ عورت نظر آئی تو بزرگ اسے سمجھانے کیلئے اس کے پاس گئے جب اسے مخاطب کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عورت نہیں بلکہ موجودہ دور کا ماڈرن نوجوان تھا درحقیقت ان کو یہ غلطی اس وجہ سے لگی کہ اس نوجوان نے بال کافی لمبے رکھے ہوئے تھے اور لباس بھی خواتین کی طرح شوخ اور چمکیلا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کے ہاتھ میں عورتوں کی طرح کنگن اور کانوں میں ٹاپس تھے شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی چہرے پر تو مردوں والی کوئی علامت ہی نہ تھی کہ چہرہ داڑھی مونچھ سے بالکل صاف تھا۔
ایسے واقعات تو بیشتر رونما ہو رہے ہیں کہ مرد خواتین کی مشابہت میں اور کفار کی تہذیب میں مکمل عورتیں بننے کی کوشش میں مصروف ہیں تو خواتین بھی اپنا اصل فریضہ اور عمل ترک کر کے ننگے سر، ننگے منہ، مردوں کی طرح بال بنائے پینٹ شرٹ پہنے مردوں کا انداز اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے یہ خواتین و حضرات نہ تو مکمل عورتیں ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل مرد بلکہ ایک تیسری ہی جنس کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں اگر ملک بھر کا جائزہ لیں تو تعلیمی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جس میں ایسے لوگ نہ پائے جائیں۔ اگر شریعت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہوں گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں اور عورتوں کو جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں کے متعلق فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو گھروں سے نکال دینے کا حکم ہے۔ “
ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن پاک کی سورۃ ” مجادلۃ “ کی آیت نمبر14 میں ارشاد ہے کہ: ” جنہوں نے ایسے لوگوں کے طرز زندگی کو اپنایا جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا نہ وہ ان میں سے ہیں اور نہ ہی وہ تم میں سے۔ “ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے حقدار ٹھہرے ہیں اگر ان کے راستے پر چلا جائے گا تو انسان اپنی اصلیت کھو دے گا۔
یہ بات تو پہلے ہی سے طے ہو چکی کہ جو مرد و خواتین ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ ملعون ہیں۔ اسی آیت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو جو لوگ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ تو مرد رہ سکتے ہیں اور نہ ہی عورتیں۔ اسی آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو لوگ یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ نہ تو مسلمان رہ سکتے ہیں اور نہ ہی یہودی یا عیسائی بن سکتے ہیں۔ اگلی آیت میں ایسے لوگوں کے لئے سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
” اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تحقیق جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ برا کر رہے ہیں۔ “ ( المجادلہ:15 )
اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ایک طرف تو کفار نے تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف مسلمان ان کے کلچر اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر شادی بیاہ کا مسئلہ ہو تو تب بھی ہندوؤں کی مشابہت میں مہندی جیسی رسمیں اختیار کی جا رہی ہیں۔ جن میں اپنی غیرت کا جنازہ اس طرح نکالا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں رقص کرتی ہوئی بھرے بازار میں سے گزرتی ہیں اور والدین دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اگر زندگی کے دوسرے معاملات کا جائزہ بھی لیں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ بدتر نظر آئے گی کہ کبھی اپریل فول منایا جا رہا ہے تو کبھی ویلنٹائن ڈے۔ مسلمانوں نے اس انداز سے بسنت منایا کہ گزشتہ برس انڈیا سے آنے والے وفد کی طرف سے بھی تعجب کا اظہار کیا گیا کہ اس انداز سے تو بھارت میں ہندو اور سکھ بھی اس تہوار کو نہیں مناتے جس طرح پاکستانی مسلمانوں نے منایا ہے۔ ایسے اعمال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے۔ وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں ہنودیہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: من تشبہ بقوم فھو منھم ” جس کسی نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گیا۔ “
ان حالات میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو لوگ کسی قوم کی غلامی میں اس کا ہر برا فعل اپنائے ہوئے ہوں اور اپنے دینی نظریات کو ترک کر چکے ہوں وہ لوگ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ کتنے بے حس ہیں یہ لوگ کہ کفار سے جوتے پڑنے اور تہذیبوں کی جنگ کا اعلان سننے کے باوجود بھی اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں
تو ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن مجید نے کہا ہے کہ: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( الرعد:11 ) خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

1 تبصرہ: