پیر، 14 جون، 2010

استحکامِ پاکستان اور قادیانی کردار

مولانا محمد سلیم چنیوٹی
ختم نبوت
استحکامِ پاکستان اور قادیانی کردار
زمانہ طالب علمی میں جب ہم قادیانیوں کے علاقے چناب نگر اس وقت ( ربوہ ) جایا کرتے تھے تو ایک دفعہ ان کے ” بہشتی مقبرہ “ قبرستان جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ اس مقبرے میں بڑے نامی گرامی قادیانی آنجہانی دفن ہیں ۔ مرزا بشیرالدین محمود جو سلسلہ احمدیہ میں دوسرے خلیفے کے طور پر مشہور ہے ، وہ بھی اسی جگہ دفن ہے ۔ پھر مرزا ناصر احمد جسے اس سلسلے ( احمدیہ ) کا خلیفہ ثالث کہا جاتا ہے ۔ اسی کے ” دورِ خلیفی “ میں مرزائیوں کو ایک طویل مباحثے کے نتیجے میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے 7 ستمبر 1974ءکو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا ۔
مرزائی اکابرین کبھی بھی پاکستان اور اس کے استحکام کے لیے دعاگو نہیں رہے ۔ بلکہ انہوں نے پاکستان توڑنے کے لیے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ لیں کہ انہوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے آج تک تسلیم ہی نہیں کیا ۔ پاکستان کی سالمیت مرزائیوں کے نزدیک کیسی رہی اس کے متعلق ان کے مقبرہ ربوہ میں مدفون مرزا بشیر الدین محمود کی قبر پر نصب کتبہ دیکھ لیا جائے تو آپ اس پر یہ تحریر کندہ دیکھیں گے ۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکا ہے کہ ” ایک دن پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جانا ہے اور ایسا ہو جائے تو میرا تابوت اس مقبرے سے اکھاڑ کر قادیان میں دفن کر دیا جائے ۔ “
دوسرا واقعہ جو استحکامِ پاکستان کے خلاف مرزائیوں کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں جب مرزائی سائنس دان عبدالسلام قادیانی کو اس کی بعض منفی سرگرمیوں کی وجہ سے بھٹو صاحب نے سائنسی ریسرچ کے ادارے سے اخراج کا نوٹس بھجوایا تھا تو اس نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دی تھیں اور اسرائیل و امریکہ کے پاس اپنے ادارے کے راز برابر بھجواتا رہا ۔ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو اس وقت بھٹو کی حکومت تھی ۔ اس وقت عبدالسلام قادیانی نے اپنی نفرت کا اس طرح اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے ” میں اس سرزمین پر تھوکتا ہوں “ پھر خود ہی جلاوطن ہو کر ملک سے باہر چلا گیا ۔ بدقسمتی سمجھئے ایسے لوگوں کو ائمہ کفر کی آشیر باد سے پھر وطن پاکستان کی دھرتی پر آنا پڑا ۔ ایک سازش کے تحت جب اسی سائنس دان کو نوبل پرائز سے نوازا گیا تو پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق مرحوم نے بھی پاکستان کا ” نشانِ پاکستان “ اس قادیانی کے سینے پر سجا دیا ۔ اتفاق دیکھئے یہ وہی دھرتی تھی جس پر اس سائنس دان نے تھوک کر جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور اسی دھرتی پر اس کی قوم کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا ، پھر اسی دھرتی پر اس کے سینے کو ” نشانِ پاکستان “ جیسے پاک تمغے سے نوازا گیا ۔ فیاللعجب ۔
تیسرا واقعہ قارئین نوٹ فرمالیں کہ بانی پاکستان جناب محمد علی جناح کی وفات پر پورا عالم اسلام اپنے افسوس و غم کا اظہار کر رہا تھا ۔ پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی تھا ۔ اس وزیر خارجہ نے بانی پاکستان کے جنازے میں شرکت نہ کی تھی ۔ 1979 میں 28 دسمبر کو چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ کانفرنس ہوئی تھی ۔ اس وقت ربوہ میں بھی قادیانی حضرات اپنا تین روزہ سالانہ جلسہ منعقد کر رہے تھے ۔ ہم چند طالب علم ساتھی مرزائیوں کے شہر ربوہ چلے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ بڑے اشتہاروں پر اس وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور نیچے اقرار تھا کہ ” ہاں میں نے قائداعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی ۔ اس سے آپ سمجھیں کہ ایک کافر نے مسلمان کا جنازہ یا کافر کا جنازہ ایک مسلمان نے نہیں پڑھا ۔
گویا مرزائی حضرات اپنے زعم میں خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں اور ان کے نزدیک باقی سب کافر ہیں ۔ دوسرے یہ کہ باقی تو مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابل دوسری قوم قرار دیتے ہیں ۔
مرزائی حضرات اپنے مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد اور تحریرات کے تحت امت مسلمہ کے نزدیک متفقہ طور پر غیرمسلم ہیں ۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات ” مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ “ میں ان کا داخلہ قانونی اور شرعی طور پر بند ہے ۔ فراڈ بازی اور ملی بھگت سے اگر کوئی مرزائی وہاں چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نوازے کہ وہ مرزا غلام احمد کی خودساختہ نبوت کا ذبہ سے انکار کر دے تا کہ عنداللہ اس کا عمل ضائع نہ ہو جائے ۔
26 مئی 1908ءکو مرزا غلام احمد قادیانی کی عبرت ناک موت واقع ہوئی اور 26 مئی 2008ءکو پورا ایک سو سال بیت گیا ۔ یہ موت مرزا کی اپنی ہی دعا کی قبولیت کے نتیجے میں ہوئی تھی ۔ جب ایک اشتہار کے ذریعے مرزا نے شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ صاحب امرتسری علیہ الرحمہ کو مطلع کیا تھا اور لکھا کہ آپ مجھے ہر ” مجلہ اہل حدیث “ کے پرچے میں غلط قرار دیتے ہیں ۔ میری تکذیب کرتے ہیں مجھے رسوا کر کے میرے چاہنے والوں کے دل پھیرتے ہیں ۔ اگر میں ایسا ہی کذاب ، مفتری ، دجال ہوں تو اے اللہ ، سچے کی زندگی میں جھوٹے کو موذی مرض ہیضہ ، طاعون وغیرہ سے ہلاک کر دے ۔ ( آمین )
اس دعا کے ایک سال ایک ماہ اور کچھ دن بعد مرزا غلام احمد قادیانی لاہور کے برانڈرتھ روڈ پر احمدیہ بلڈنگ میں بعارضہ ہیضہ آنجہانی ہوا تھا ۔ سچا ( مولانا ثناءاللہ صاحب امرتسری رحمہ اللہ ) جھوٹے ( مرزا غلام احمد قادیانی ) کی موت کے بعد 40 سال زندہ رہے اور مارچ 1948ءکو سرگودھا میں رحلت فرما کر رحمتِ باری کی آغوش میں چلے گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اللھم ادخلہ الجنۃ الفردوس ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے زیر اہتمام 26 مئی 2008ءکو چنیوٹ کی سرزمین پر پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ نے اپنے اکابر کے نقشِ قدم پر چل کر قادیانیوں کی سرگرمیوں سے آگاہی اور اکابر اہل حدیث کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس منعقد کی ۔ رات کو ایک ختم نبوت کانفرنس منعقد کی گئی اس میں اہل حدیث کے جید و ممتاز علمائے کرام نے اپنے مفید و مؤثر خطابات سے اہل علاقہ کے دلوں کو منور فرمایا ۔
مارچ 1987ءمیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس اپنی مثال آپ تھی ۔ اس کانفرنس کے روح رواح حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ تھے ۔ علامہ حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ ، محمد خان نجیب شہید رحمہ اللہ ، حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمہ اللہ ، حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ رحمہ اللہ اور رانا محمد شفیق خاں پسروری و دیگر بے شمار احباب نے تقاریر فرمائیں ۔ علامہ شہید رحمہ اللہ کے خطاب کے دوران موسلا دھار بارش نے کھل کر رحمتوں کی بوچھاڑ کر دی تھی اس دوران لوگوں کا جذبہ مثالی تھا اور کوئی بھی بندہ مجمع سے اٹھا نہ تھا ۔ اس کانفرنس کے انتظامات میں قاضی محمد اسلم سیف مرحوم ، مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی ، مولانا بہادر علی سیف اور چنیوٹ کی تمام قیادت اور ورکر دل و جان سے شریک تھے ۔ راقم کو بھی اس کانفرنس میں خدمت کا موقع ملا تھا ۔ اللہ تعالیٰ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے نوازے ۔ آمین
یاد رہے کہ حضرت مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ نے اس کانفرنس میں ایک خاتم النبیین یونیورسٹی بنانے کی تجویز و قرارداد پیش کی تھی ۔ اور قادیانی سرگرمیوں ، ان کے پاکستان دشمنی پہ مبنی کارناموں کو روکنے کے لیے ربوہ میں کانفرنس کے انعقاد کا بھی اعلان کیا تھا ۔ برا ہو تخریبی عناصر کا کہ جنہوں نے اس کانفرنس کے چند دنوں بعد متاعِ دین و دانش کو ہم سے لوٹ لیا اور 23 مارچ 1987ءکے حادثہ فاجعہ میں لاہور میں بم دھماکے کے نتیجے میں حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر ، حضرت مولانا عبدالخالق قدوسی ، مولانا حبیب الرحمن یزدانی ، محمد خان نجیب ، شیخ احسان الحق اور دیگر احباب رتبہ شہادت سے سرفراز ہو گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللھم ارفع درجاتہم ۔
بات ہو رہی تھی مرزائیوں کے پاکستان مخالف عزائم کی ۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ایک کالج سے چند طلباءکو قادیانی لٹریچر تقسیم کرتے ہوئے اور اپنے قادیانی مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے کالج سے خارج کر دیا گیا تھا ۔ اب ملکی استحکام اور سالمیت کے خلاف جس کی طرف ایٹمی سائنس دان ، محسنِ پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اشارہ فرمایا ہے اور موجودہ صدر پرویز مشرف کو امریکہ کی آشیرباد سے پاکستان توڑنے کے لیے ایوانِ صدر میں براجمان رکھ کر ان کے ہاتھوں پاکستان کے قبائلیوں کو تہہ تیغ کرنے کے جس طرح منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔ کیا یہ مرزائیوں کی ہم نوائی تو نہیں خدا نخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو بقول عبدالستار ایدھی ایک خونی انقلاب اور وسیع پیمانے پر فساد و خانہ جنگی ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ۔
ہم اکابرین ملک و ملت سے گزارش کریں گے کہ وہ پاکستان کے استحکام ، سالمیت ، اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں اور اسلام مخالف نظریات کے آگے بند باندھنے کی ملی طور پر کوششیں کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں