مولانا عبداللہ لطیف
دعوت و اصلاح
امت مسلمہ مدد الہیٰ سے محروم کیوں؟
قرآن پاک کی ایک سورت ہے ” حم السجدہ “ جو کہ چوبیسویں پارے میں ہے چند دن ہوئے اس سورہ مبارکہ کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہو تو جب اس سورہ کی آیت نمبر 30 جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” بے شک جن لوگوں نے کہہ دیا اللہ ہی ہمارا رب ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان لوگوں کے لئے فرشتے نازل ہوتے ہیں ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی غم، خوشخبری ہے ان کے لئے جنت کی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ “ پر پہنچا تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مشکل وقت میں فرشتوں کے ذریعے مدد بھیجنے کا جو وعدہ کیا ہے اس کا تاریخ اسلام سے جائزہ تو لوں کہ کس کس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی ہے۔
سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حالات زندگی پر نگاہ پڑی جب ان کو نمرود اور اس کے حواریوں نے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا تھا، جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر ابراہیم علیہ السلام سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ” اے ابراہیم علیہ السلام ! اگر آپ حکم دیں تو یہی الاؤ آپ کے دشمنوں پر پھینک دیا جائے۔ “ اسی طرح جب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ سے تنگ آ کر وادی طائف کی طرف عازم سفر ہوئے کہ شاید وہاں پر ہی کوئی شخص اسلام قبول کر لے تو اس وقت بھی طائف والوں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تب بھی جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر کہا اگر آپ اجازت دیں تو بستی والوں کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں۔ جنگ بدر میں بھی فرشتوں کا ایک ہزار کا لشکر کفار کی بیخ کنی کے لئے آیا تو احد میں بھی ایسا ہی ہوا اور آج کے دور میں بھی جب مجاہدین میدان جہاد سے واپس آتے ہیں تو مدد الٰہی کے عجیب عجیب مناظر بیان کرتے ہیں۔
لیکن اس سب کچھ کے باوجود انسان اس بات کا جائزہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر موجودہ دور کے مسلمانوں نے بھی تو اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ” اللہ ہمارا رب ہے “ تو پھر کیا سبب ہے کہ کبھی احمد آباد اور گجرات سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ مسلمانوں کی 2500 کے لگ بھگ مساجد کو شہید کر دیا گیا ہے اور بیس ہزار سے زائد لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا اور خواتین کے ساتھ ایسے انسانیت سوز مناظر واقعات سامنے آتے ہیں کہ حاملہ عورتوں کے پیٹوں میں برچھیاں مار کر تڑپتی ماؤں کے سامنے ان کے بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور بعد میں ان عورتوں کو بھی شہید کر دیا جاتا ہے تو کبھی افغانستان میں بارود کی بارش برسائی جاتی ہے تو کبھی کشمیر، بوسنیا، فلپائن، فلسطین اور عراق میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی جاتی ہے اور کبھی امریکی بدمعاش کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستانی مشرف کے ملک میں بھی باجوڑ میں مساجد و مدارس میں بمباری کر کے بچوں، اساتذہ اور غریب و بے کس عوام کو شہید کر کے فخر کیا جاتا ہے۔ تو کبھی کیوبا کے جزیروں پر قرآن پاک کے مقدس و مطہر اوراق کے ساتھ استنجا کرنے کی ناپاک جسارت کی جاتی ہے
تو کبھی پوری کائنات سے افضل و اعلیٰ شخصیت سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنائے جاتے ہیں تو کبھی کرسچین پوپ کی طرف سے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی ” شیطانی آیات “ نامی کتاب کے شیطان مصنف ملعون رشدی کو ” سر “ کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ ( خواہ یہ شیطان یورپین عورتوں پر بھی کیچڑ اچھالتا نظر آئے لیکن کفار کو اپنی عورتوں پر کیچڑ اچھالنے کی پرواہ کب ہے کیونکہ انہیں تو امہات المومنین اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والا کوئی خبیث ملنا چاہیے کیونکہ یہ ہر ایسے شخص کو سر آنکھوں پر بٹھانا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں ) لیکن اس سب کچھ کے باوجود فرشتوں کی مدد کیوں نہیں آتی اور یہ مسلمان خوف و غم میں کیوں مبتلا ہیں۔
مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او۔ آئی۔ سی ہی ایسے کٹھن حالات میں بھی کوئی بہتر کردار ادا کرنے کے لئے نظر کیوں نہیں آتی، تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا دعویٰ ” اللہ ہی ہمارا رب ہے “ وہ ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا کیونکہ جب صحابہ کرام نے یہ دعویٰ کیا تھا وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم پر اپنی جان نچھاور کرنا فخر سمجھتے تھے۔ قرون اولیٰ کے دور کی جھلک ان چند واقعات سے بالکل نظر آئے گی کہ حضرت ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ تھے جو انتہائی قد آور اور تنومند جوان تھے، ان کو نبی کریم علیہ السلام نے ذمہ داری سونپی کہ وہ مشرکین مکہ کے ہاں جو مسلمان قید ہیں ان کو رہا کروائیں تو ابومرثد رضی اللہ عنہ نے ان صحابہ کو روزانہ ایک ایک کر کے قید خانے سے رہائی دلوا کر دیوار کراس کروا دیتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کے ساتھ جس عورت کے ناجائز تعلقات تھے نے پہچان لیا اور بدکاری کی دعوت دی لیکن ابومرثد رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اسلام میں ان چیزوں کی اجازت نہیں۔ لہٰذا میں ایسا نہیں کر سکتا تب اس بدکار عورت نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر تم نے یہ گناہ نہ کیا تو میں شور مچا دوں گی تب بھی اس اللہ کے بندے نے انکار کر دیا۔ تو اس عورت نے شور مچا دیا کہ یہی تمہارا مجرم ہے جو قیدیوں کو رہا کرواتا ہے، حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں دوڑتا ہوا ایک پہاڑی ٹیلے کے نیچے گھس گیا تو اہل مکہ اس ٹیلے پر بیٹھ کر پیشاب کرتے جو میرے سر پر پڑتا رہا۔ اس بات سے ہمیں ان لوگوں کے کردار کو سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے پیشاب اور پاخانہ جیسی گندگی کو تو سر میں ڈلوا لیا لیکن زنا اور بدکاری جیسی گندگی کو قبول نہیں کیا۔
ویسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور شکلیں مسخ کر دی جائیں گی آسمان سے پتھروں کی بارش ہو گی تو صحابہ نے پوچھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس وقت لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں گے حج کرنے والے بھی ہوں گے، روزے دار اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بھی ہوں گے، لیکن اس دور میں شراب عام ہو گی، جوا کھیلنا شروع کر دیں گے، زنا اور بدکاری کریں گے اور گانا بجانا عام ہو گا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب ان پر آئے گا۔ “
گزشتہ واقعہ اور حدیث نبوی کو سامنے رکھ کر اگر موجودہ مسلمانوں کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ مسلمان ظلم و ستم کے شکنجے میں پھسنے کے باوجود بدکاری، بے حیائی، عریانی و فحاشی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کو چھوڑ کر موسیقی سے دل بہلاتے نظر آئیں گے اور گھر گھر میں انڈین فلموں کی فحاشی و عریانی ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب کی تبلیغ بھی کی جا رہی ہے۔ اور ہمیں تو آدھا ملک گنوا کر بھی سمجھ نہ آئی جب کہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ بنگال میں ڈبو دیا ہے اور اسی کے بیٹے راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں بلکہ پاکستانیوں کے گھروں میں اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر جیتی ہے۔ اور یہی عریانی و فحاشی ہی ان کا کلچر ہے جو مسلمانوں کو بے حمیت اور بے غیرت بناتا چلا جا رہا ہے۔ اور ہم اپنی عزتوں کو بچانے کے قابل بھی نہیں رہے
جبکہ دور نبوی میں ایک یہودی نے مسلمہ عورت کی عصمت دری کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مختصر کر کے سیدنا حضرت علی کی قیادت میں لشکر ترتیب دیا کہ اس مسلمان عورت کی عصمت کا انتقام لے کر آؤ تو شام سے پہلے پہلے سیدنا علی علیہ السلام نے اس یہودی کا سر قلم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا تو آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے بدلہ نہ لیا جاتا تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن ہم ہیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ ہمارے حکمرانوں نے تو شاید اسلام کی مخالفت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے چوری کی حد اسلام میں ہاتھ کاٹنا ہے۔ جبکہ ہمارے مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ میں ساری قوم کو ٹنڈا کر دوں؟ دوسرے لفظوں میں پوری قوم کو ہی چور کا لقب دینے پر تلے بیٹھے ہیں جبکہ اسکے برعکس ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ” کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ ضرور کاٹتا۔ “
ہماری حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ ہم قدم قدم پر کفار کی مشابہت کو اختیار کئے ہوئے ہیں ایسے لوگ جو اسلام کے بجائے کسی دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” من تشبہ بقوم فھو منھم “ ” جو کسی دوسری قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سے اٹھایا جائے گا۔ “ دعویٰ تو ہمارا بدر واحد والوں کا ہے لیکن عمل ہمارا ان کفار کے مشابہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہونے کے بجائے ہزاروں الہ بنائے بیٹھے ہیں کوئی گائے کا پجاری ہے تو کوئی بندر کا پجاری۔ جب ہم ایسے لوگوں کے طریقوں کو اپنائیں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے غضب ہو رہے تو پھر مدد ہم پر کیسے نازل ہو گی؟ دوسری طرف ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہم عدل و انصاف کی راہ اختیار کر رہے ہیں اور نہ ہی سودی کاروبار کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں جس کے بارے میں قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ سود لینے والا اور دینے والا مسلمان ہی نہیں بلکہ ایسے معاہدے کو تحریر میں لانے والا بھی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے۔
ایک طرف تو ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے اور دوسری طرف اسی وحدہ لا شریک کے ساتھ اعلان جنگ بھی کریں تو پھر کیسے فرشتوں کی مدد ہم تک پہنچ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کے نازل نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر کے کفار کی غلامی کو اختیار کرنا ہے۔ جب ہم میدان جہاد میں جانے کی تیاری نہیں کریں گے تو پھر اس طرح ہم پر ظلم ستم ہوتا رہے گا۔ درحقیقت ہم دعویٰ تو کرتے ہیں ” اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے “ لیکن ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مخالف ہیں پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب ہیں؟
منگل، 25 مئی، 2010
مرزا قادیانی.... کی کذب بیانیاں
مولانا عبید اللہ لطیف
ختم نبوت
مرزا قادیانی.... کی کذب بیانیاں
کچھ عرصہ قبل فیصل آباد ریلوے روڈ سے گزر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں تین باریش نوجوان ایک روشن خیال ( تاریک خیال ) قسم کے نوجوان سے بحث میں مصروف ہیں ان باریش نوجوانوں میں میرا ایک جاننے والا بھی تھا جو ایک دینی ادارے کا طالب علم بھی ہے ۔ میں اس نوجوان سے ملاقات کے لیے رکا تو ان کے درمیان زیربحث موضوع کی وجہ سے پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کلین شیو تھا اور انہیں روشن خیالی ( تاریک خیالی ) کا درس دینے کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد اور مجاہدین کی مخالفت کر رہا تھا ۔ جو مذہب کے لحاظ سے قادیانی تھا ۔ کیونکہ ان کی بحث کا رخ جہاد سے ہٹ کر ختم نبوت کی طرف آگیا تھا ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو من و عن تحریر کےے دیتا ہوں تا کہ دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکے کہ کس طرح یہ قادیانی ہماری سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اور ہمارے نوجوان اپنے ہی دین کے بارے میں لاعلم ہونے کی وجہ سے کس طرح ان کی شر انگیزیوں میں پھنس کر اپنا ایمان تباہ کر بیٹھتے ہیں ۔
قادیانی : جبرائیل علیہ السلام کی ذمہ داری کیا ہے ؟ مسلم : وحی لانا ۔ قادیانی : سورۃ القدر کی آخری آیت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ اس آیت میں ” تنزل “ آیا ہے جو فعل مضارع کا صیغہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے کیونکہ اسی آیت میں ” والروح “ کا لفظ خاص جبرائیل علیہ السلام کے لیے بولا گیا ہے ۔ جب کہ آپ کے بقول جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی ہی وحی لانا ہے تو آپ کو کیا اعتراض ؟ وہ جس پر چاہیں وحی لے آئیں ۔
یہ دلیل سن کر وہ طالب علم لاجواب ہو گیا کیونکہ وہ نوجوان اس قادیانی سے بات کرتے ہوئے بنیادی غلطی کر گیا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی وحی لانا ہے ۔ جبکہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی نہ صرف وحی لانا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے جس وقت چاہے جو مرضی ڈیوٹی سونپ دے جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے بدر اور احد کے میدان میں وحی سے ہٹ کر فرشتوں کی قیادت کرتے ہوئے کفار سے قتال کیا ۔ اسی طرح طائف کی وادی میں نبی کریم علیہ السلام کی مدد کے لیے آئے اور اسی طرح جب جدالانبیاءابراہیم علیہ السلام کو جب آگ کے الاؤ میں پھینکا جانے لگا تو تب بھی مدد کے لیے آئے ۔
یہ ایک واقعہ تو میرے سامنے ہوا پتہ نہیں روزانہ ایسے کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر قادیانی نواز ہے اور ہر معاملہ میں قادیانیوں کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے ۔ یہاں تک کہ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کر کے ان کو مکہ اور مدینہ میں شر پسندی کا کھلا موقع فراہم کیا گیا ہے جب کہ ان کو 7 ستمبر 1974 کو اقلیت قرار دیا گیا تھا ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے مسلم نوجوانوں بزرگوں اور عورتوں کو اپنے دین کے متعلق ہی معلومات برائے نام ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علمی میدان میں دلائل دیتے ہوئے ان سے مات کھا جاتے ہیں ۔ اب میں مرزا قادیانی کی اصل کتابوں سے چند دلائل پیش کرنے لگا ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کو مرتد کیوں قرار دیا گیا ہے ویسے بھی سید آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے بعد تیس 30 کذاب آئیں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے اس حدیث کی رو سے اور تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے دور میں ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا اور مرزا قادیانی بھی اسی کا پیروکار ہے اور اپنے آپ کو واضح طور پر نبی کہتا ہے ۔ اور ” کشتی نوح “ میں یوں رقمطراز ہے ۔
” خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاءہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو صرف ظل اور اصل کا فرق ہے ۔ سو ایسا ہی اللہ نے مسیح موعود میں چاہا ۔ یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا ۔ یعنی وہ میں ہی ہوں ۔ ( کشتی نوح صفحہ24 )
اس تحریر میں پہلے تو مرزا صاحب واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاءہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن بعد میں آئینہ کی مثال دے کر خود کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور برملا طور پر کہہ رہے ہیں کہ جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو وہی نبی ہے ۔ جس بات سے مرزا صاحب کذب بیانی اور ہیرا پھیری سے کام لے رہے ہیں ان کے جھوٹ کا پول فقط اسی بات سے کھل جاتا ہے کہ اس تحریر کے آخر میں فرمان نبی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا اور پھر کہتا ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں ۔ اگر اب مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچے تھے تو ان کی قبر مدینہ منورہ میں ہونی چاہئیے تھی نہ کہ قادیان میں اور ویسے بھی یہ دستور شروع سے چلا آ رہا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے کہ حقیقت میں مرزا نبی تھا تو یہ لیٹرین میں مرا اسے وہیں دفن کرنا چاہئیے تھا ۔ کشتی نوح کے صفحہ نمبر 22 پر مرزا کچھ یوں رقمطراز ہے کہ
” اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائمقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا جیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا تھا جب کہ مسلمانوں کا حال وہی تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے وقت یہودیوں کا حال تھا سو وہ میں ہی ہوں ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 22 )
اس تحریر میں مرزا صاحب اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مثیل ابن مریم ثابت کر رہے ہیں ایسا شخص جو کسی ایک نبی کی گستاخی کرے وہ تو واجب القتل ہے ۔ اور پاکستان کے اندر بھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و یورپ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور شاتم رسول کو سزائے موت دینے والے قانون کو ختم کروانے کے درپے ہیں اور ہمارے قادیانی نواز حکمران بھی ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پاکستان میں شاتم رسول کو موت کی سزا والے قانون کی وجہ سے سب سے پہلے قادیانی اس کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ مرزا صاحب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ جگہ جگہ پر انبیاءکی توہین بھی کی ہے ۔ اگر مرزا کے دماغی توازن کا جائزہ لینا ہو تو اسی ایک تحریر سے لیا جا سکتا ہے جس میں خود ہی مریم اور پھر خود ہی عیسیٰ بن جاتا ہے ۔ لہٰذا کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ :
” اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براھین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشوونما پاتا رہا ۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینہ سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 69-68 )
کیا ایسا شخص جو پہلے اپنے آپ کو مثیل ابن مریم کہے پھر خود ہی مریم بن جائے اور حاملہ ہو کر خود ہی ابن مریم بن بیٹھے اور کبھی اپنے آپ کو مسیح موعود کہلائے تو کبھی اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کبھی اپنے آپ کو عیسیٰ سے افضل قرار دے ۔ مرزائی دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ایسا مخبوط الحواس شخص نبی کہلانے کا حق دار ہے ۔ کیا ایسا شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے ، یقینا نہیں ! تو پھر آئیے توبہ کیجےے اور کلمہ توحید و رسالت کا اقرار کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیے اسی میں فلاح اور کامیابی ہے ۔
مرزا قادیانی ” کشتی نوح “ میں ایک اور جگہ پر یوں رقمطراز ہے کہ : ” مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز نہ دکھلا سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا جب کہ میں ایسا ہوں تو اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاءاس جگہ کوئی حسد اور رشک پیش نہیں کیا جاتا خدا جو چاہے کرے جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد میں نامراد ہی نہیں بلکہ مرکز جہنم کی راہ لیتا ہے ۔ ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو خدا بنایا ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اسکے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ ( کشتی نوح ، صفحہ 81 )
اس تحریر میں بھی سراسر عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی گئی اور اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک مرزا قادیانی کے نشانوں والی بات ہے واقعی وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا ۔ عیسیٰ علیہ السلام تو پھر بھی جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ ایسے نشان انتہائی حقیر اور معمولی سے عقل والا انسان بھی نہیں دکھا سکتا ۔ اور جہاں تک مرزا قادیانی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اس کے بغیر تاریکی ہے تو یہ ایسی ہی بات ہے کہ نام ہو نور بھری اور رنگ ہو توے کی سیاہی سے بھی کالا ۔
کچھ لوگ یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا جبکہ وہ خود کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ : ” یہاں تک کہ بیت المقدس کے صدھا عالم فاضل جو اکثر اہلحدیث تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ پر تکفیر کی مہریں لگا دیں یہی معاملہ مجھ سے ہوا اور پھر جیسا کہ اس تکفیر کے بعد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کی گئی تھی ان کو بہت ستایا گیا سخت سے سخت گالیاں دی گئی تھیں ، ہجو اور بدگوئی میں کتابیں لکھی تھیں ، یہی صورت اس جگہ پیش آئی گویا اٹھارہ سو برس بعد وہی عیسیٰ پھر پیدا ہو گیا اور وہی یہودی پھر پیدا ہوگئے ۔ “ ( کشتی نوح ، صفحہ : 73 )
اس تحریر سے اس کا بغض اور کینہ ، اہلحدیثوں کے ساتھ صاف نظر آ رہا ہے ۔ جبکہ فقہ احمدیہ میں لکھتا ہے کہ ” اگر کوئی مسئلہ قرآن و سنت میں نہ ملے تو فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے ۔ “ ( فقہ احمدیہ ، صفحہ 13 )
صفحہ 15 پر لکھا ہے کہ : ” فقہ احمدیہ کے وہی ماخوذ ہیں ، جو فقہ حنفی کے ہیں ۔ “ اب اہلحدیثوں پر الزام دینے والوں کو خود ہی اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئیے ۔ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کیجےےہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
نوجوان نسل کی بے راہ روی
مولانا عبید اللہ لطیف
نوجوان نسل کی بے راہ روی!
چند دن ہوئے میرے ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے ایک عزیز ہیں جن کی عادت شریفہ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی کسی بے پردہ عورت کو دیکھتے ہیں تو اسے پردہ کی تلقین کرتے ہیں ایک دن ایسا ہوا کہ انہیں ایک بے پردہ عورت نظر آئی تو بزرگ اسے سمجھانے کیلئے اس کے پاس گئے جب اسے مخاطب کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عورت نہیں بلکہ موجودہ دور کا ماڈرن نوجوان تھا درحقیقت ان کو یہ غلطی اس وجہ سے لگی کہ اس نوجوان نے بال کافی لمبے رکھے ہوئے تھے اور لباس بھی خواتین کی طرح شوخ اور چمکیلا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کے ہاتھ میں عورتوں کی طرح کنگن اور کانوں میں ٹاپس تھے شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی چہرے پر تو مردوں والی کوئی علامت ہی نہ تھی کہ چہرہ داڑھی مونچھ سے بالکل صاف تھا۔
ایسے واقعات تو بیشتر رونما ہو رہے ہیں کہ مرد خواتین کی مشابہت میں اور کفار کی تہذیب میں مکمل عورتیں بننے کی کوشش میں مصروف ہیں تو خواتین بھی اپنا اصل فریضہ اور عمل ترک کر کے ننگے سر، ننگے منہ، مردوں کی طرح بال بنائے پینٹ شرٹ پہنے مردوں کا انداز اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے یہ خواتین و حضرات نہ تو مکمل عورتیں ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل مرد بلکہ ایک تیسری ہی جنس کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں اگر ملک بھر کا جائزہ لیں تو تعلیمی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جس میں ایسے لوگ نہ پائے جائیں۔ اگر شریعت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہوں گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں اور عورتوں کو جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں کے متعلق فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو گھروں سے نکال دینے کا حکم ہے۔ “
ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن پاک کی سورۃ ” مجادلۃ “ کی آیت نمبر14 میں ارشاد ہے کہ: ” جنہوں نے ایسے لوگوں کے طرز زندگی کو اپنایا جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا نہ وہ ان میں سے ہیں اور نہ ہی وہ تم میں سے۔ “ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے حقدار ٹھہرے ہیں اگر ان کے راستے پر چلا جائے گا تو انسان اپنی اصلیت کھو دے گا۔
یہ بات تو پہلے ہی سے طے ہو چکی کہ جو مرد و خواتین ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ ملعون ہیں۔ اسی آیت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو جو لوگ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ تو مرد رہ سکتے ہیں اور نہ ہی عورتیں۔ اسی آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو لوگ یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ نہ تو مسلمان رہ سکتے ہیں اور نہ ہی یہودی یا عیسائی بن سکتے ہیں۔ اگلی آیت میں ایسے لوگوں کے لئے سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
” اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تحقیق جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ برا کر رہے ہیں۔ “ ( المجادلہ:15 )
اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ایک طرف تو کفار نے تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف مسلمان ان کے کلچر اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر شادی بیاہ کا مسئلہ ہو تو تب بھی ہندوؤں کی مشابہت میں مہندی جیسی رسمیں اختیار کی جا رہی ہیں۔ جن میں اپنی غیرت کا جنازہ اس طرح نکالا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں رقص کرتی ہوئی بھرے بازار میں سے گزرتی ہیں اور والدین دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اگر زندگی کے دوسرے معاملات کا جائزہ بھی لیں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ بدتر نظر آئے گی کہ کبھی اپریل فول منایا جا رہا ہے تو کبھی ویلنٹائن ڈے۔ مسلمانوں نے اس انداز سے بسنت منایا کہ گزشتہ برس انڈیا سے آنے والے وفد کی طرف سے بھی تعجب کا اظہار کیا گیا کہ اس انداز سے تو بھارت میں ہندو اور سکھ بھی اس تہوار کو نہیں مناتے جس طرح پاکستانی مسلمانوں نے منایا ہے۔ ایسے اعمال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے۔ وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں ہنودیہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: من تشبہ بقوم فھو منھم ” جس کسی نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گیا۔ “
ان حالات میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو لوگ کسی قوم کی غلامی میں اس کا ہر برا فعل اپنائے ہوئے ہوں اور اپنے دینی نظریات کو ترک کر چکے ہوں وہ لوگ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ کتنے بے حس ہیں یہ لوگ کہ کفار سے جوتے پڑنے اور تہذیبوں کی جنگ کا اعلان سننے کے باوجود بھی اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں
تو ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن مجید نے کہا ہے کہ: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( الرعد:11 ) خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
نوجوان نسل کی بے راہ روی!
چند دن ہوئے میرے ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے ایک عزیز ہیں جن کی عادت شریفہ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی کسی بے پردہ عورت کو دیکھتے ہیں تو اسے پردہ کی تلقین کرتے ہیں ایک دن ایسا ہوا کہ انہیں ایک بے پردہ عورت نظر آئی تو بزرگ اسے سمجھانے کیلئے اس کے پاس گئے جب اسے مخاطب کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عورت نہیں بلکہ موجودہ دور کا ماڈرن نوجوان تھا درحقیقت ان کو یہ غلطی اس وجہ سے لگی کہ اس نوجوان نے بال کافی لمبے رکھے ہوئے تھے اور لباس بھی خواتین کی طرح شوخ اور چمکیلا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کے ہاتھ میں عورتوں کی طرح کنگن اور کانوں میں ٹاپس تھے شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی چہرے پر تو مردوں والی کوئی علامت ہی نہ تھی کہ چہرہ داڑھی مونچھ سے بالکل صاف تھا۔
ایسے واقعات تو بیشتر رونما ہو رہے ہیں کہ مرد خواتین کی مشابہت میں اور کفار کی تہذیب میں مکمل عورتیں بننے کی کوشش میں مصروف ہیں تو خواتین بھی اپنا اصل فریضہ اور عمل ترک کر کے ننگے سر، ننگے منہ، مردوں کی طرح بال بنائے پینٹ شرٹ پہنے مردوں کا انداز اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے یہ خواتین و حضرات نہ تو مکمل عورتیں ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل مرد بلکہ ایک تیسری ہی جنس کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں اگر ملک بھر کا جائزہ لیں تو تعلیمی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جس میں ایسے لوگ نہ پائے جائیں۔ اگر شریعت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہوں گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں اور عورتوں کو جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں کے متعلق فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو گھروں سے نکال دینے کا حکم ہے۔ “
ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن پاک کی سورۃ ” مجادلۃ “ کی آیت نمبر14 میں ارشاد ہے کہ: ” جنہوں نے ایسے لوگوں کے طرز زندگی کو اپنایا جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا نہ وہ ان میں سے ہیں اور نہ ہی وہ تم میں سے۔ “ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے حقدار ٹھہرے ہیں اگر ان کے راستے پر چلا جائے گا تو انسان اپنی اصلیت کھو دے گا۔
یہ بات تو پہلے ہی سے طے ہو چکی کہ جو مرد و خواتین ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ ملعون ہیں۔ اسی آیت کی رو سے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو جو لوگ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ تو مرد رہ سکتے ہیں اور نہ ہی عورتیں۔ اسی آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو لوگ یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ نہ تو مسلمان رہ سکتے ہیں اور نہ ہی یہودی یا عیسائی بن سکتے ہیں۔ اگلی آیت میں ایسے لوگوں کے لئے سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
” اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تحقیق جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ برا کر رہے ہیں۔ “ ( المجادلہ:15 )
اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ایک طرف تو کفار نے تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف مسلمان ان کے کلچر اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر شادی بیاہ کا مسئلہ ہو تو تب بھی ہندوؤں کی مشابہت میں مہندی جیسی رسمیں اختیار کی جا رہی ہیں۔ جن میں اپنی غیرت کا جنازہ اس طرح نکالا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں رقص کرتی ہوئی بھرے بازار میں سے گزرتی ہیں اور والدین دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اگر زندگی کے دوسرے معاملات کا جائزہ بھی لیں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ بدتر نظر آئے گی کہ کبھی اپریل فول منایا جا رہا ہے تو کبھی ویلنٹائن ڈے۔ مسلمانوں نے اس انداز سے بسنت منایا کہ گزشتہ برس انڈیا سے آنے والے وفد کی طرف سے بھی تعجب کا اظہار کیا گیا کہ اس انداز سے تو بھارت میں ہندو اور سکھ بھی اس تہوار کو نہیں مناتے جس طرح پاکستانی مسلمانوں نے منایا ہے۔ ایسے اعمال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے۔ وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں ہنودیہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: من تشبہ بقوم فھو منھم ” جس کسی نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گیا۔ “
ان حالات میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو لوگ کسی قوم کی غلامی میں اس کا ہر برا فعل اپنائے ہوئے ہوں اور اپنے دینی نظریات کو ترک کر چکے ہوں وہ لوگ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ کتنے بے حس ہیں یہ لوگ کہ کفار سے جوتے پڑنے اور تہذیبوں کی جنگ کا اعلان سننے کے باوجود بھی اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں
تو ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن مجید نے کہا ہے کہ: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( الرعد:11 ) خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
فحش اور مخرب اخلاق لٹریچر کی سرعام خریدو فروخت
مولانا عبید اللہ لطیف
معاشرتی برائیاں
فحش اور مخرب اخلاق لٹریچر کی سرعام خریدو فروخت
علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت علیہ السلام کا فرمان عالیشان ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت کے مطابق نبی رحمت علیہ السلام نے چودھراہٹ کا معیار دنیا کی دولت ، برادری یا کسی اور چیز کو نہیں بلکہ علم دین کو بتایا اور پیارے پیغمبر آخر الزماں کا فرمان عالیشان ہے کہ ” علماءانبیاءکے وارث ہیں ۔ “ لیکن جب یہی علماءاپنا کردار اور طرزِ عمل غلط کر بیٹھیں تو پھر قوموں کی تباہی یقینی بن جایا کرتی ہے ۔ بات کر رہا تھا علم کی فضیلت و اہمیت کی تو علم حاصل کرنے کے لیے انسان مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے ۔ جن میں ایک بہتر ذریعہ مختلف کتب ، جرائد و رسائل کا مطالعہ بھی ہے ۔ کیونکہ مطالعہ خواہ کسی بھی چیز کا ہو ، انسان کے ذہن ، اس کی سوچ اور فکر پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس لیے مطالعہ کرتے وقت ہمیں ایسے لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہئیے جس سے نہ صرف انسان کی دینی تربیت ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس قابل بھی ہو جائے کہ وہ اسلام اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس وقت ملک بھر میں مختلف بک سٹالوں پر جہاں دیگر جرائد و رسائل فروخت ہو رہے ہیں ، وہیں پر عریانی و فحاشی پر مبنی لٹریچر بھی سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی باشعور ، عقلمند اور سچا مسلمان ایسا لٹریچر پڑھنا چاہتا ہو ۔ کیونکہ ایسے لٹریچر میں نہ صرف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ ماں ، بہن ، بیٹی ، والد ، بیٹے اور بھائی جیسے مقدس رشتوں کے تقدس کو بھی سربازار رسوا کیا جا رہا ہے ۔
دل اس وقت مزید دکھی ہوا جب میں نے سکول کے نوجوان طلبہ کے ساتھ ساتھ چند طالبات کو بھی یہ فحش لٹریچر خریدتے دیکھا اور سوچنے لگا کہ کیا ہم حقیقتاً مسلمان ہیں ؟ کیا ہم مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟ کیا ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جس نے ایک مرتبہ امہات المومنین] کو فقط اس بات پر انتہائی سخت انداز میں ڈانٹا تھا کہ وہ ایک نابینا صحابی عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ننگے منہ آ گئی تھیں اور عذر یہ تھا کہ وہ صحابی رسول نابینا تھے ۔ انہیں نظر نہیں آتا تھا ۔ کیا ہم سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ماننے والے ہیں جن کی وصیت یہ تھی کہ ان کا جنازہ بھی اندھیرے میں اٹھایا جائے ۔ کیا ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نبی رحمت علیہ السلام کا فرمانِ عالیشان ہے کہ زنا اور بدکاری اتنا کبیرہ گناہ ہے کہ اگر کسی بستی میں کوئی ایک شخص زنا کرے تو اللہ رب العزت اس حد تک غضبناک ہوتے ہیں کہ چاہیں تو اس بستی کو تباہ و برباد کر دیں ۔ کیا ہم اس قرآن پاک کو ماننے والے ہیں جس میں ہم سب کو فحاشی کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے نوجوان بچے اور بچیاں کس روش پر چل نکلے ہیں ؟
بحیثیت پاکستانی قوم ہم تو ایسے بدبخت ثابت ہوئے کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی کے ان الفاظ کو بھول گئے ، جس میں اس نے کہا تھا کہ ” ہم نے پاکستان سے میدان جنگ میں نہیں بلکہ اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر فتح حاصل کی ہے ۔ “ ہم بھول گئے کہ ایک مرتبہ ہمارے پیرومرشد سید الکونین ، کبریا و تاجدار انبیاء، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ پیارے پیغمبر علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ ایک وقت آئے گا میری امت پر اس طرح عذاب الٰہی آئے گا کہ آسمان سے پتھر برسیں گے ۔ زمین میں دھنسا دئیے جائیں گے ۔ ان کی شکلیں مسخ کر دی جائیں گی ۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس وقت لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے ؟ تو نبی رحمت علیہ السلام کا جواب تھا نہیں ۔ ان میں روزہ دار بھی ہوں گے ، نمازی بھی ہوں گے ، حج کرنے والے بھی ہوں گے ، صدقات و خیرات کرنے والے بھی ہوں گے ، یہاں تک کہ جہاد کرنے والے مجاہد بھی ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کی کہ آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ! پھر یہ عذاب کس وجہ سے آئے گا ؟ تو جواب ملا کہ اس وقت لوگوں میں شراب اور جوا عام ہو جائے گا ۔ زنا اور بدکاری پھیل جائے گی اور گانا بجانا عام ہو جائے گا ۔ اے مسلم نوجوانو ! غور کرو کہ آج ہم یہ فحش لٹریچر خرید کر ، پڑھ کر اپنے ملک کی کون سی خدمت کر رہے ہیں اور کیا ہم اپنے رب کو راضی کر رہے ہیں اور ایسا لٹریچر فروخت کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ دنیا کے چند ٹکوں کے فائدے کے لیے کتنے لوگوں کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں اور اپنے ملک و ملت اور مذہب کی کیا خدمت کر رہے ہیں ۔ ایسا لٹریچر فروخت کرنے والو ! یاد رکھو قیامت کے دن اپنے خالق و مالک کو کیا جواب دوگے ؟
اگر ایک نوجوان بھی تمہارا لٹریچر پڑھ کر بے راہ روی کا شکار ہو گیا تو اس کے ذمہ دار بھی تم ہو گے ۔ جہاں پر قیامت کے روز وہ گناہ کرنے والا سزا کا مستحق ٹھہرے گا ، وہیں پر تم بھی مجرم ہوگے ۔ کیونکہ تم لوگ ایسے نوجوانوں کو گناہ پر ابھارنے کا سبب بنتے ہو اور پھر ایسے حکمران جن کی حکومت میں یہ سب کچھ ہو رہا ہو اور وہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہوں ۔ اس کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہ کرےں ، وہ بھی کل قیامت کے دن جواب دہ ہوں گے ۔ ان حکمرانوں کے بھی گریبان ہوں گے ۔ جبکہ ان گناہوں میں لتھڑے ہوئے نوجوانوں کے شریف والدین کے ہاتھ ہوں گے تو پھر کیا جواب دیں گے یہ حکمران........ ؟
حکمرانوں کو شاید ایسے نوجوان بچوں کے بگڑتے ہوئے کردار کی فکر نہیں ہے ، شاید وہ وطن عزیز کے نونہالوں کو غلط روش پر چلتا ہوا دیکھ کر خوش ہونا چاہتے ہوں ۔ لیکن ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کو دیکھ کر ہاتھ سے روکے ۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے ۔ اگر زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو دل سے برا جانے ۔ یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ہے ۔
میرے مسلمان بھائیو ! غور کرو جو لوگ خود برائی کا ارتکاب کر رہے ہوں ، ایمان کے حوالہ سے ان کا کیا مقام ہو گا اور وہ کہاں پر کھڑے ہوں گے ۔ آج وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں امت مسلمہ پریشانیوں کا شکار ہے کبھی غور کیا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ آئیے آج آپ کو اس نبی کی زبان سے ان اسباب کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جن کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے ۔ جن کی محبت کے دعویدار ہیں ۔ اس نبی رحمت کا فرمان عالی شان سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں موجود ہے ۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں ۔ کہتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب کسی قوم میں عریانی و فحاشی عام ہو جائے تو اس قوم میں طاعون کی وبا پھیلتی ہے اور ایسی ایسی بیماریاں قوم میں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں موجود نہیں ہوتیں ۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی شروع کر دے تو اس قوم پر اللہ رب العزت ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے ۔ جب کوئی قوم زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا نہ کرے تو اس قوم میں قحط سالی شروع ہو جاتی ہے ۔ اگر چرند پرند نہ ہوں تو اس قوم پر پانی کی ایک بوند بھی نہ برسے ۔ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر ایسے لوگ مسلط کر دیتا ہے جو ان میں سے نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کے وسائل و ذخائر پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔ جب کسی قوم کے حکمران حدود اللہ کی پامالی شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیتا ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں ۔
یہ پانچ چیزیں جن کا تذکرہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے کیا اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ۔ کیا آج بحیثیت قوم اجتماعی طور پر ہم میں یہ ساری چیزیں نہیں پائی جاتیں ؟ آج ہم یہ نقصان نہیں اٹھا رہے ؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو آئیے اپنی اصلاح کریں ۔ والدین اپنے بچوں پر نگاہ رکھیں کہ کہیں وہ غلط روش پر تو نہیں چل رہے اور حکمران بھی اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے مخرب اخلاق اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کر کے قوم کے نونہالوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچائیں اور قوم کے نوجوان بچے اور بچیاں بھی بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ۔ اگر ہم اپنی حالت نہیں بدلیں گے تو ہمارا خالق و مالک بھی ہم سے منہ موڑ لے گا اور اسی خالق کائنات کا فرمان عالیشان ہے ۔ جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہخدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئیے کہ یہودی پروٹوکولز میں پروٹوکول نمبر 161 میں فحاشی کے فروغ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
” ترقی پسند اور روشن خیال کہلانے والے ممالک میں ہم نے لغو ، فحش اور قابل نفرت قسم کے ادب کو پہلے ہی سے خوب فروغ دے رکھا ہے ۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے عرصہ بعد تک ہم عوام کو تقریروں اور تفریحی پروگراموں کے ذریعے مخرب اخلاق ادب کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے ۔ ہمارے دانشور جنہیں غیریہودی کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی ، ایسی تقریر اور مضامین تیار کریں گے جن سے ذہن فوراً اثر قبول کریں گے تا کہ نئی نسل ہماری قبض کردہ راہوں پر گامزن ہوسکے ۔
کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر تبدیلی لائیں گے یا نہیں ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کیا ہمارے حکمران فحاشی کے پھیلتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے تیار ہوں گے ۔ یہ سوال ہے قوم کے حکمرانوں کے لیے ، کیا انہوں نے قیامت کے دن جواب دینے کی تیاری کر لی ہے ؟ کیا حکام بالا ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے ۔ کیونکہ ایسا لٹریچر پاکستان کے ہرشہر ، میں بک سٹالوں پر سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ اسی طرح گندی سی ڈیز بھی ہر جگہ دستیاب ہیں جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہیں ۔
معاشرتی برائیاں
فحش اور مخرب اخلاق لٹریچر کی سرعام خریدو فروخت
علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت علیہ السلام کا فرمان عالیشان ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت کے مطابق نبی رحمت علیہ السلام نے چودھراہٹ کا معیار دنیا کی دولت ، برادری یا کسی اور چیز کو نہیں بلکہ علم دین کو بتایا اور پیارے پیغمبر آخر الزماں کا فرمان عالیشان ہے کہ ” علماءانبیاءکے وارث ہیں ۔ “ لیکن جب یہی علماءاپنا کردار اور طرزِ عمل غلط کر بیٹھیں تو پھر قوموں کی تباہی یقینی بن جایا کرتی ہے ۔ بات کر رہا تھا علم کی فضیلت و اہمیت کی تو علم حاصل کرنے کے لیے انسان مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے ۔ جن میں ایک بہتر ذریعہ مختلف کتب ، جرائد و رسائل کا مطالعہ بھی ہے ۔ کیونکہ مطالعہ خواہ کسی بھی چیز کا ہو ، انسان کے ذہن ، اس کی سوچ اور فکر پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس لیے مطالعہ کرتے وقت ہمیں ایسے لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہئیے جس سے نہ صرف انسان کی دینی تربیت ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس قابل بھی ہو جائے کہ وہ اسلام اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس وقت ملک بھر میں مختلف بک سٹالوں پر جہاں دیگر جرائد و رسائل فروخت ہو رہے ہیں ، وہیں پر عریانی و فحاشی پر مبنی لٹریچر بھی سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی باشعور ، عقلمند اور سچا مسلمان ایسا لٹریچر پڑھنا چاہتا ہو ۔ کیونکہ ایسے لٹریچر میں نہ صرف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ ماں ، بہن ، بیٹی ، والد ، بیٹے اور بھائی جیسے مقدس رشتوں کے تقدس کو بھی سربازار رسوا کیا جا رہا ہے ۔
دل اس وقت مزید دکھی ہوا جب میں نے سکول کے نوجوان طلبہ کے ساتھ ساتھ چند طالبات کو بھی یہ فحش لٹریچر خریدتے دیکھا اور سوچنے لگا کہ کیا ہم حقیقتاً مسلمان ہیں ؟ کیا ہم مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟ کیا ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جس نے ایک مرتبہ امہات المومنین] کو فقط اس بات پر انتہائی سخت انداز میں ڈانٹا تھا کہ وہ ایک نابینا صحابی عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ننگے منہ آ گئی تھیں اور عذر یہ تھا کہ وہ صحابی رسول نابینا تھے ۔ انہیں نظر نہیں آتا تھا ۔ کیا ہم سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ماننے والے ہیں جن کی وصیت یہ تھی کہ ان کا جنازہ بھی اندھیرے میں اٹھایا جائے ۔ کیا ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نبی رحمت علیہ السلام کا فرمانِ عالیشان ہے کہ زنا اور بدکاری اتنا کبیرہ گناہ ہے کہ اگر کسی بستی میں کوئی ایک شخص زنا کرے تو اللہ رب العزت اس حد تک غضبناک ہوتے ہیں کہ چاہیں تو اس بستی کو تباہ و برباد کر دیں ۔ کیا ہم اس قرآن پاک کو ماننے والے ہیں جس میں ہم سب کو فحاشی کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے نوجوان بچے اور بچیاں کس روش پر چل نکلے ہیں ؟
بحیثیت پاکستانی قوم ہم تو ایسے بدبخت ثابت ہوئے کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی کے ان الفاظ کو بھول گئے ، جس میں اس نے کہا تھا کہ ” ہم نے پاکستان سے میدان جنگ میں نہیں بلکہ اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر فتح حاصل کی ہے ۔ “ ہم بھول گئے کہ ایک مرتبہ ہمارے پیرومرشد سید الکونین ، کبریا و تاجدار انبیاء، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ پیارے پیغمبر علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ ایک وقت آئے گا میری امت پر اس طرح عذاب الٰہی آئے گا کہ آسمان سے پتھر برسیں گے ۔ زمین میں دھنسا دئیے جائیں گے ۔ ان کی شکلیں مسخ کر دی جائیں گی ۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس وقت لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے ؟ تو نبی رحمت علیہ السلام کا جواب تھا نہیں ۔ ان میں روزہ دار بھی ہوں گے ، نمازی بھی ہوں گے ، حج کرنے والے بھی ہوں گے ، صدقات و خیرات کرنے والے بھی ہوں گے ، یہاں تک کہ جہاد کرنے والے مجاہد بھی ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کی کہ آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ! پھر یہ عذاب کس وجہ سے آئے گا ؟ تو جواب ملا کہ اس وقت لوگوں میں شراب اور جوا عام ہو جائے گا ۔ زنا اور بدکاری پھیل جائے گی اور گانا بجانا عام ہو جائے گا ۔ اے مسلم نوجوانو ! غور کرو کہ آج ہم یہ فحش لٹریچر خرید کر ، پڑھ کر اپنے ملک کی کون سی خدمت کر رہے ہیں اور کیا ہم اپنے رب کو راضی کر رہے ہیں اور ایسا لٹریچر فروخت کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ دنیا کے چند ٹکوں کے فائدے کے لیے کتنے لوگوں کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں اور اپنے ملک و ملت اور مذہب کی کیا خدمت کر رہے ہیں ۔ ایسا لٹریچر فروخت کرنے والو ! یاد رکھو قیامت کے دن اپنے خالق و مالک کو کیا جواب دوگے ؟
اگر ایک نوجوان بھی تمہارا لٹریچر پڑھ کر بے راہ روی کا شکار ہو گیا تو اس کے ذمہ دار بھی تم ہو گے ۔ جہاں پر قیامت کے روز وہ گناہ کرنے والا سزا کا مستحق ٹھہرے گا ، وہیں پر تم بھی مجرم ہوگے ۔ کیونکہ تم لوگ ایسے نوجوانوں کو گناہ پر ابھارنے کا سبب بنتے ہو اور پھر ایسے حکمران جن کی حکومت میں یہ سب کچھ ہو رہا ہو اور وہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہوں ۔ اس کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہ کرےں ، وہ بھی کل قیامت کے دن جواب دہ ہوں گے ۔ ان حکمرانوں کے بھی گریبان ہوں گے ۔ جبکہ ان گناہوں میں لتھڑے ہوئے نوجوانوں کے شریف والدین کے ہاتھ ہوں گے تو پھر کیا جواب دیں گے یہ حکمران........ ؟
حکمرانوں کو شاید ایسے نوجوان بچوں کے بگڑتے ہوئے کردار کی فکر نہیں ہے ، شاید وہ وطن عزیز کے نونہالوں کو غلط روش پر چلتا ہوا دیکھ کر خوش ہونا چاہتے ہوں ۔ لیکن ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کو دیکھ کر ہاتھ سے روکے ۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے ۔ اگر زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو دل سے برا جانے ۔ یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ہے ۔
میرے مسلمان بھائیو ! غور کرو جو لوگ خود برائی کا ارتکاب کر رہے ہوں ، ایمان کے حوالہ سے ان کا کیا مقام ہو گا اور وہ کہاں پر کھڑے ہوں گے ۔ آج وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں امت مسلمہ پریشانیوں کا شکار ہے کبھی غور کیا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ آئیے آج آپ کو اس نبی کی زبان سے ان اسباب کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جن کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے ۔ جن کی محبت کے دعویدار ہیں ۔ اس نبی رحمت کا فرمان عالی شان سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں موجود ہے ۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں ۔ کہتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب کسی قوم میں عریانی و فحاشی عام ہو جائے تو اس قوم میں طاعون کی وبا پھیلتی ہے اور ایسی ایسی بیماریاں قوم میں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں موجود نہیں ہوتیں ۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی شروع کر دے تو اس قوم پر اللہ رب العزت ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے ۔ جب کوئی قوم زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا نہ کرے تو اس قوم میں قحط سالی شروع ہو جاتی ہے ۔ اگر چرند پرند نہ ہوں تو اس قوم پر پانی کی ایک بوند بھی نہ برسے ۔ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر ایسے لوگ مسلط کر دیتا ہے جو ان میں سے نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کے وسائل و ذخائر پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔ جب کسی قوم کے حکمران حدود اللہ کی پامالی شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیتا ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں ۔
یہ پانچ چیزیں جن کا تذکرہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے کیا اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ۔ کیا آج بحیثیت قوم اجتماعی طور پر ہم میں یہ ساری چیزیں نہیں پائی جاتیں ؟ آج ہم یہ نقصان نہیں اٹھا رہے ؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو آئیے اپنی اصلاح کریں ۔ والدین اپنے بچوں پر نگاہ رکھیں کہ کہیں وہ غلط روش پر تو نہیں چل رہے اور حکمران بھی اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے مخرب اخلاق اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کر کے قوم کے نونہالوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچائیں اور قوم کے نوجوان بچے اور بچیاں بھی بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ۔ اگر ہم اپنی حالت نہیں بدلیں گے تو ہمارا خالق و مالک بھی ہم سے منہ موڑ لے گا اور اسی خالق کائنات کا فرمان عالیشان ہے ۔ جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہخدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئیے کہ یہودی پروٹوکولز میں پروٹوکول نمبر 161 میں فحاشی کے فروغ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
” ترقی پسند اور روشن خیال کہلانے والے ممالک میں ہم نے لغو ، فحش اور قابل نفرت قسم کے ادب کو پہلے ہی سے خوب فروغ دے رکھا ہے ۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے عرصہ بعد تک ہم عوام کو تقریروں اور تفریحی پروگراموں کے ذریعے مخرب اخلاق ادب کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے ۔ ہمارے دانشور جنہیں غیریہودی کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی ، ایسی تقریر اور مضامین تیار کریں گے جن سے ذہن فوراً اثر قبول کریں گے تا کہ نئی نسل ہماری قبض کردہ راہوں پر گامزن ہوسکے ۔
کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر تبدیلی لائیں گے یا نہیں ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کیا ہمارے حکمران فحاشی کے پھیلتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے تیار ہوں گے ۔ یہ سوال ہے قوم کے حکمرانوں کے لیے ، کیا انہوں نے قیامت کے دن جواب دینے کی تیاری کر لی ہے ؟ کیا حکام بالا ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے ۔ کیونکہ ایسا لٹریچر پاکستان کے ہرشہر ، میں بک سٹالوں پر سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ اسی طرح گندی سی ڈیز بھی ہر جگہ دستیاب ہیں جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہیں ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)